ایک اچھی خبر یہ ہے کہ تمام علما ذوق وشوق سے ٹی وی دیکھتے ہیں۔اس میں مسلک یا فرقے کا کوئی امتیاز نہیں۔اس باب میں سب متفق ہیں کہ ٹی وی سے دین کی خدمت لی جاسکتی ہے۔یہ اتفاق مو منوں کو مبارک ہو۔تیرے دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے۔ تمام جید اور نمائندہ علما نے رمضان نشریات کو سراہا ہے۔میزبانوں کی طلاقتِ لسانی،قدرتِ کلام ،عمل و فضل اور اسلام دوستی کی تعریف کی ہے۔انہوں نے اسے دین کی بڑی خدمت قرار دیاہے۔ایک عالم نے تو مناسب جانا کہ مسجدِنبوی سے اپنا تو صیفی بیان جاری کریں۔ گویا وہ مدینہ میں بھی ان پروگراموں سے بے نیاز نہیں۔میں اسے اچھی خبر اس لیے کہتا ہوں کہ علما نے زبانِ حال اور زبانِ قال سے بھی مان لیا کہ ٹی وی میں فی نفسہ کوئی برائی نہیں۔اگر کوئی بات قابلِ مذمت ہو سکتی ہے تو وہ اس کا سوئِ استعمال ہے۔ میری خواہش ہے کہ وہ اگر اس دائرۂ اجتہاد کو بڑھائیں تو قدامت اور جدت،لبرل ازم اور بنیاد پرستی کے فاصلے بہت حد تک سمٹ سکتے ہیں۔ میں لاؤڈ سپیکر سے بات شروع نہیں کر تا،ماضی قریب کی بات کر تا ہوں۔علما نے خاموشی کے ساتھ بہت سے عملی اجتہاد کیے ہیں۔فتوے کی زبان میں شاید وہ اسے بیان نہ کریں لیکن عملاً انہوں نے ایسا طرزِ عمل اختیار کر لیا ہے، جو اس سے پہلے ان کی نظر میں حرام تھا۔تصویر کو دیکھیے! تصویر اب سب کے نزدیک جائز ہے۔چند دن پہلے مجھے جمعیت علمائے اسلام سندھ کی طرف سے بذریعہ ای میل،ایک عید کارڈ ملا۔اس پر مو لانا فضل الرحمٰن کی ایک ہنستی مسکراتی تصویر آویزاں ہے۔ ہم اس سے پہلے ان کی انتخابی تشہیری مہم دیکھ چکے ہیں جو با تصویر تھی۔یہی معا ملہ جماعت اسلامی کا ہے۔جماعت اور جمعیت کی پچھلی نسل تصویر کو ناجائز اور حرام کہتی تھی۔ مو لانا مو دودی کی رائے اس پر مو جود ہے اور دیگر دیوبندی علما کی بھی۔روایتی علما سے اگر ہم اب بھی فتویٰ لیں تو وہ اسے حرام ہی بتائیں گے لیکن جمعیت علمائے اسلام کے طرزِ عمل پر انہوں نے کوئی فتویٰ جاری نہیں کیا۔اس کا مفہوم اس کے سوا کچھ نہیں کہ انہوں نے اسے قبول کر لیاہے۔ٹی وی ظاہر ہے کہ تصویر ہی کی ترقی یا فتہ شکل ہے۔ٹی وی پر آنے اور دیکھنے کے بارے میں ان کے ذوق وشوق کا میں ذکر کر چکا۔ خواتین کا سیاسی اور سماجی کردار بھی ایسا ہی مو ضوع ہے۔ تمام مذہبی طبقات کے نزدیک خواتین کا کوئی سیاسی کردار نہیں۔جب جنگِ جمل کا ذکر کیا جا تا ہے تو تاریخ کی کتابوں سے یہ حضرات ام المو منین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا ایک قول لے آتے ہیں کہ وہ عمربھر اپنے اس فیصلے کی خود ناقد رہیں۔آج تما م مذہبی جماعتوں کی نمائندہ خواتین پارلیمنٹ میں مو جود ہیں۔ٹی وی کے ٹاک شوز میں مر دوں کے شانہ بشانہ حصہ لیتی ہیں۔ خواتین کے جلوس برآمد ہوتے ہیں۔وہ بغیر محرم بیرونی ممالک کے دورے کر تی ہیں۔ خواتین کے سیاسی و سماجی کردار کی یہ تفہیمِ نو بھی عملی اجتہاد کی ایک مثال ہے۔یہی نہیں، اس سے پہلے،جدید قومی ریاست،آئین سازی اور بین الاقوامی قوانین کے باب میں علما اجتہاد کر چکے اور انہوں نے سیاست و ریاست کے باب میں بہت سے ایسے افکار اور نظریات اپنا لیے جنہوں نے اصلاً مغرب کے سیکولر پس منظر میں جنم لیا۔اسی طرح زکوٰۃ کے حوالے سے ایک مسئلہ تملیک کا بھی ہے۔کم و بیش تمام علمااس کے لازمی شرط ہونے پر متفق ہیں۔سادہ لفظوں میں اس کی نوعیت یہ ہے کہ علما کے نزدیک جب آپ زکوٰۃ دیتے ہیں تو اسے کسی فرد کو دینا چاہیے۔ یعنی آپ کسی فرد کو اس کا مالک بنائیں۔لیکن اس کے باوصف تمام مدارس کو زکوٰۃ دی جاتی ہے جو ادارے ہیں اور اس زکوٰۃ سے مدارس کے مصارف ادا کیے جاتے ہیں۔اس تضاد کو دور کرنے کرنے کے لیے جو موقف اپنا یاگیا، علما سے بہتر کوئی نہیں جانتاکہ اس کی حیثیت حیلے سے زیادہ نہیں ہے۔ میں اس طرزِ عمل کو مثبت پیش رفت سمجھتا ہوں۔ یہ علما کے بیدار مغز ہو نے کی دلیل ہے۔یہ اس صلاحیت کا مظہر ہے کہ وہ جدید مسائل کو سمجھتے اور پھر ان کو سامنے رکھتے ہوئے رائے قائم کر نے اہلیت رکھتے ہیں۔تاہم اس طرزِ عمل پر میرے دو سولات ہیں۔ ۱۔جس بات کو تاریخ کے جبر یا ضرورت کے تحت عملاً اختیار کر لیا گیاہے،اس پر فتویٰ دینے میں کیا مانع ہے؟ ۲۔اس کا دائرہ دوسرے فنونِ لطیفہ پر محیط کیوں نہیں ہے؟ اگر تصویر کے بغیر گزارا نہیں اور اس سے کوئی دینی قدر بھی متاثر نہیں ہو رہی تو اس پر کھل کر بات کی جانی چاہیے۔ اگر یہ معلوم ہو گیا کہ تملیک کی شرط ناقابلِ عمل ہے تو حیلے کے بجائے ان علما کے موقف کی تائید کیوں نہیں کر دی جاتی جو اسے غیر ضروری قرار دیتے ہیں۔اگر خواتین کے بغیر ریاستی امور سر انجام نہیں دیے جا سکتے تو پھر خواتین کے بڑھتے ہوئے کردار کو مغربی فکر کا شاخسانہ کیوں قرار دیا جا تا ہے؟ہم کیوں ان آرا پر علمی طور پر نظر ثانی نہیں کرتے جنہیں عملی طور ہم رد کر چکے ہیں؟اسی ضمن میں مجھے یہ کہنا ہے کہ اگر تصویر قابلِ قبول ہے تو مو سیقی کیوں نہیں؟جو دلیل تصویر کے حق میں دی جاتی ہے وہ مو سیقی کے حق میں کیوں قبول نہیں؟ یہ بات بار ہا کہی جا چکی کہ ہم جو کچھ ٹی وی چینلز پہ دیکھتے ہیں،اس کا مو سیقی سے کوئی تعلق نہیں۔یہ بے ہودگی ہے جو قابلِ ِ مذمت ہے۔ مو سیقی کا تعلق تو سماعت کے ساتھ ہے؟فی نفسہ اس میں کوئی ایسی برائی نہیں کہ اسے ناجائز کہا جائے۔ میں اس باب میں علما کی آرا کے بارے میں واقف ہوں۔ میرا خیال ہے کہ اس پر مو لا نا جعفر شاہ پھلواروی نے بہت اچھی کتاب ’’اسلام اور مو سیقی‘‘ لکھ دی ہے جو پڑھی جا نی چاہیے۔ میرے نزدیک تواس معا ملے میں مو لا نا ابوالکلام آزاد نے بہت صحیح مو قف اپنایا ہے۔ ’غبارِ خاطر‘کے آخری خط میں انہوں نے اس پر تفصیل سے لکھا ہے۔اس باب میں ان کا کہنا یہ ہے کہ مو سیقی کا تعلق بابِ قضا سے ہے بابِ تشریع سے نہیں۔انہوں نے اسی رائے کا اظہار کیا ہے جو ہم تصویر کے حوالے سے اختیار کیے ہوئے ہیں کہ اس میں اصلاً کوئی خرابی نہیں۔مسئلہ سوئِ استعمال کا ہے۔ جب ایسا ہو گا،اس کی ممانعت ہو جائے گی۔ ایسا کیوں ہے کہ علما موسیقی وغیرہ کے باب میں سخت ہیں لیکن باقی امور میں عملاً اجتہاد کیے ہوئے ہیں۔ میرا تجزیہ ہے کہ جہاں ان کے مفادات براہ راست متاثر ہوتے ہیں وہاں تو وہ عملی اجتہاد کر لیتے ہیں اور جہاں ان کا مفاد براہ راست متاثر نہیں ہو تا، وہاں وہ قدامت کے علم بردار بن جاتے ہیں۔ میں نے جتنی مثالیں دی ہیں،ان کا تعلق مذہبی طبقات کے سیاسی و سماجی مفادات سے ہے۔ اگر وہ خواتین کے سیاسی کردار کی نفی کریں تو پارلیمنٹ میں ان کی نشستیں کم ہو جاتی ہیں۔اگر تملیک کی شرط کو عملاً مان لیں تو مدارس کو زکوٰۃ نہیں دی جا سکتی۔علی ھذالقیاس۔ میری درخواست ہے کہ علما اور مذہبی طبقات کو تاریخ کے جبر یا مفاد کے زیرِا ثر کوئی رائے قائم نہیں کر نی چاہیے۔ہمیں اپنی رائے دیانت داری کے ساتھ نصوص پر براہ راست غور کرتے ہوئے اپنا نی چاہیے۔اگر ہم خود کو صرف قرآن و سنت کا پابند جانیں اور قدیم فقہی آرا کو اسی پیمانے پر دیکھیں تو قدامت اور جدت کے فاصلے کم ہوسکتے ہیں۔اگر ٹی وی علما کو متحد کر سکتا ہے تو پھراسے محمود سمجھنا چاہیے اور ساتھ ہی یہ بھی سوچنا چاہیے کہ یہ اجتہاد کا پڑاؤ ہے، منزل نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved