تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     10-03-2022

وسیم اکرم پلس اور سیاسی گرداب

منگل کے روز اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور اس مقصد کیلئے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن جمع کروائی گئی۔ بس پھر کیا تھا، سیاست کی گرمی میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم کو اپنے اتحادیوں کی یاد آرہی ہے۔ کبھی وہ چوہدری برادران سے ملاقات کیلئے لاہور کا رخ کرتے ہیں تو کبھی ایم کیوایم کے یاد انہیں کراچی لے جاتی ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنماؤں کو شکوے دور کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی اور بعض اطلاعات کے مطابق پانچ سال بعد حیدر آباد آفس کھولنے کی نوید بھی سنا دی۔ انہوں نے گورنر ہاؤس کراچی میں تحریک انصاف کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر اپوزیشن کو خوب لتاڑا۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف، پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مل کر نمبر گیم پوری کرنے میں مصروف ہیں اور بہت پُرامید نظر آتے ہیں۔ بہت عرصہ بعد مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین بھی متحرک ہوئے۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی اور گزشتہ شام آصف علی زرداری سے بھی ملے۔ جہانگیر ترین گروپ، عبدالعلیم خان کے ساتھ مل جانے سے مزید مضبوط ہوگیا ہے۔ ترین گروپ کے وفد نے چوہدری پرویز الٰہی سے ملاقات کرکے انہیں اپنے مائنس بزدار فارمولے سے آگاہ کیا۔
منطق کہتی ہے کہ کسی بھی اہم سیاسی یا انتظامی عہدے پر تعیناتی کیلئے خوب سے خوب تر کی تلاش کی جانی چاہیے، تاکہ نہ صرف انتظامی طور پر معاملات درست چلیں بلکہ لوگ اس کے پیشرو کو بھی بھول جائیں، لیکن میاں شہباز شریف کے متبادل کے طور پر سردار عثمان بزدار کو وزیر اعلی پنجاب نامزد کرتے وقت وزیر اعظم عمران خان اس پہلو کو فراموش کر گئے۔ اپنی مستعدی اور انتظامی صلاحیتیوں کے ذریعے ''شہباز سپیڈ‘‘ کا لقب پانے والے میاں محمد شہباز شریف نے ریکارڈ ٹائم میں میٹرو بس منصوبے، اورنج لائن اور بجلی گھر منصوبوں جیسے میگا پروجیکٹس مکمل کئے بلکہ پنجاب کے بڑے شہروں میں صفائی ستھرائی اور سڑکوں کی تعمیر سے دوسرے صوبوں میں رہنے والوں سے خراج تحسین بھی حاصل کرتے رہے۔ شہباز شریف کے وزیر اعلیٰ رہنے کے بعد ان کی جگہ عمران خان کو اتنی ہی متحرک شخصیت لگانے کی ضرورت تھی، جو 12 کروڑ آبادی کے صوبے یعنی نصف سے زائد پاکستانی آبادی والے صوبے کو بہتر گورننس دیتا‘ پارٹی کو پھلنے پھولنے کا موقع دیتا اور پانامہ لیکس سے زخم خوردہ مسلم لیگ (ن) کی سیاست کا مکو ٹھپتا، پنجاب‘ جو سپاہ کا breeding ground کہلاتا ہے، جس کا 70 فیصد rank and file پنجابی ہے، کو مطمئن رکھتا، ملک کی فوڈ سکیورٹی کے ضامن اس صوبے کے لئے کام کرتا‘ لیکن اس صوبے میں حکمرانی کیلئے ایک ایسے فرد کا انتخاب کیا گیا، جو الیکشن سے 3 ماہ قبل تک مسلم لیگ (ن) کا حصہ تھا‘ پھر جنوبی پنجاب محاذ کا حصہ بن کر پی ٹی آئی میں پہنچا اور جس کا پی ٹی آئی کے نظریے سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔ عثمان بزدار اس عہدے پر کیسے پہنچے؟ یہ ایک معمہ ہے جس کو آج تک اپوزیشن تو دور خود پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے بھی سمجھنے سے قاصر ہیں۔ بعض دوست اسے روحانیت کی دین قرار دیتے ہیں۔ بہرحال بزدار صاحب کا یہ عالم تھاکہ جب وزیر اعلیٰ بنے تو ایک انٹرویو میں کہتے پائے گئے کہ ''مجھے لاہور میں کیولری گرائونڈ اور ماڈل ٹاون کا فرق سمجھ نہیں آتا‘‘۔ سیاسی بصیرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیر اعلیٰ بننے سے قبل وہ کبھی رکن اسمبلی منتخب نہیں ہوئے‘ اس لیے پارلیمانی امور اور صوبے کی گورننس کے حوالے سے ان کا تجربہ صفر تھا۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ وزیر اعظم نے مرکز سے بیٹھ کر صوبہ پنجاب کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ اس مقصد کیلئے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی خدمات مستعار لی گئیں، جن کی بیشتر ملازمت کے پی میں رہی اور وہ پنجابی بیوروکریسی کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ نہیں رکھتے تھے، شاید یہ بھی ایک وجہ تھی کہ پنجاب کی بیوروکریسی اور بزدار صاحب میں نبھ نہ سکی۔ عثمان بزدار صاحب نے بطور وزیر اعلیٰ بیوروکریسی کے تبادلوں کے حوالے سے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ انہوں نے اپنی حکومت کے 40 ماہ میں ڈیرہ غازی خان کے دس کمشنرز کو تبدیل کیا، یعنی ہر4 ماہ بعد ایک کمشنر تبدیل ہوا، جسے پنجاب کی انتظامی تاریخ کا واحد واقعہ قرار دیا جاتا ہے۔
گزشتہ برس اپریل میں سپہ سالار نے بھی صحافیوں کے ساتھ ملاقات میں عثمان بزدار کی کارکردگی کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ معروف صحافی رئوف کلاسرا نے اپنے وی لاگ اور تجزیہ کار ہارون الرشید نے اپنے پروگرام میں اس بات کا اشارہ بھی دیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب پر کرپشن کے الزامات بھی لگے کہ ان کے خاندان نے ڈی جی خان کے قبائلی بندوبستی علاقوں میں زمینوں پر قبضے کئے۔ ان کے خاندان پر بطور ٹھیکیدار خود کو سرکاری اداروں میں رجسٹر کروانے اور ٹھیکے لینے کا الزام بھی لگا۔ نیب نے اگست 2020ء میں ایک ہوٹل کو شراب کا پرمٹ دینے کے عوض رشوت لینے کے الزامات پر ذاتی حیثیت میں طلب کرکے وزیر اعلیٰ سے تفتیش کی۔ ستمبر 2020ء میں نیب نے شہدا کی فیملی کو دی گئی زمین غیرقانونی طور پر بیوروکریٹس کو الاٹ کرنے پر عثمان بزدار کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا۔ جولائی2021ء میں نیب نے بزدار کے دائیں بازو سمجھے جانے والے سیکرٹری طاہر خورشید کے خلاف ذرائع سے زائد آمدن کے حوالے سے تحقیقات کا آغاز کیا۔ اس کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب پر بابِ لاہور کی تعمیر کے ٹینڈر میں خورد برد پر بھی نیب نے طلب کیا۔
تحریک انصاف کے ایم پی اے اور عمران خان کے بہت قریبی ساتھی سمجھے جانے والے علیم خان، جن کو اپوزیشن کی طرف سے دوسرا اے ٹی ایم بھی قرار دیا گیا، کو بھی وزیر اعلیٰ پنجاب کا نامناسب رویہ برداشت کرنا پڑا، اور اس نامناسب رویے کا نتیجہ یہ نکلا کہ علیم خان اس سٹیج پر آن کھڑے ہوئے کہ انہوں نے پنجاب میں بزدار سرکار کو آج سب سے بڑی ٹکر دیدی ہے۔
''واقفانِ حال‘‘ کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف جہانگیر ترین اور علیم خان کے حالیہ حملے کے بعد وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ کے ارکان اسد عمر، پرویز خٹک اور گورنر سندھ عمران اسماعیل نے بھی وزیراعظم کو عثمان بزدار کو تبدیل کرنے کا مشورہ دیا۔ یہ خبریں بھی سامنے آئیں کہ خود وزیر اعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار نے وزیر اعظم کو مستعفی ہونے کی پیشکش کی‘ لیکن عمران خان، اپنے کھلاڑی کے ناصرف ساتھ کھڑے ہیں بلکہ اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہ بھی پتا چلا کہ وزیر اعظم کی سربراہی میں ہونے والی میٹنگز میں صرف وزیراعظم عمران خان نے ہی وزیراعلیٰ پنجاب کا ساتھ دیا، باقی شرکا عموماً عثمان بزدار کی کارکردگی پر مطمئن نظر نہیں آئے۔ وزرا اور معاونین کے مشورے کے باوجود جس طرح وزیر اعظم عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ برقرار رکھنے پر بضد ہیں اس نے آج اُن کے اقتدار کی کشتی کو بے یقینی کی تباہ کن لہروں کے حوالے کردیا ہے۔ کپتان کے ناقدین کے مطابق جب کبھی تاریخ آج کے دور کا نوحہ لکھے گی تو جیسے بے نظیر بھٹو کے مسائل کی وجہ آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف کے مسائل کی وجہ اداروں سے ٹکرائو قرار پائیں گے، ویسے ہی عمران خان کی سیاسی تباہی کی ایک بڑی وجہ عثمان بزدار فیکٹر قرار پائے گا‘ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اگر کپتان جیت گیا تو پھر واقعی پہلے سے زیادہ خطرناک ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved