4 مارچ کو استنبول ائیرپورٹ کے گیٹ نمبر9 سے باہر نکلا تو یخ بستہ ہوا کا جھونکا استقبال کے لیے منتظر تھا۔ ایک ہی لمحے میں قہقہہ مار کر مجھ سے لپٹ گیا۔ یہ تو پتہ تھا کہ استنبول میں کافی سردی ہے‘ درجۂ حرارت 3 اور 4 ہے اور بارش کی بھی پیش گوئی ہے لیکن اندازے اور حقیقت میں جو فرق ہوتا ہے‘ اس نے مجھے فوراً سمجھا دیا کہ صرف سویٹر سے کام چلنے والا نہیں۔ یہاں آپ کی نہیں، مرضی اسی دلدار کی چلے گی۔
میں امریکہ کے سفر پر نکلا ہوا ہوں۔ سفر بھی لمبا۔ قریب قریب ایک ماہ کا۔ اسی سفر کے دوران پبلشرز کی عالمی تنظیم آئی یو آئی بی پی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگز کے لیے استنبول رکا ہوں۔ 9 مارچ 22 کو یہاں سے آگے شکاگو جانا ہے اور امریکہ کے کئی شہروں میں جو مشاعرے، اور تقریبات ہیں، ان میں شرکت کرنی ہے۔ دراصل میں شکاگو، امریکہ کی ادبی تنظیم اردو انسٹی ٹیوٹ کی دعوت پر جا رہا ہوں جنہوں نے جشنِ اردو کے نام سے ایک رنگا رنگ ثقافتی پروگرام کا اہتمام کیا ہے۔ مشاعرہ بھی انہی پروگراموں کا ایک بڑا حصہ ہے۔ جناب امین حیدر اور جناب محبوب خان‘ جو پاکستانیوں کی اس تنظیم کے روح رواں ہیں میرے بنیادی میزبان ہیں۔ پھر جب دوسرے شہروں کے احباب کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے بھی اپنی تقریبات سجا لیں کہ کووڈ کے طویل عالم تنہائی کے بعد دنیا میل ملاپ اور ایسی محفلوں کو ترس گئی تھی۔ اس لیے خدا خیر رکھے، کئی شہروں میں ان شاء اللہ جانا ہو گا‘ اور دوستوں سے ملاقات ہو گی۔
استنبول اسی طرح اپنا جادو جگا رہا ہے۔ خواہ سال کا کوئی مہینہ ہو، یہ شہر اپنا اسیر کر لیتا ہے۔ جدید و قدیم کا ایسا سنگم کم کم ہو گا۔ میں اس بار فاتح کے علاقے میں ایک ہوٹل میں ہوں۔ فاتح کا لفظ، سلطان محمد فاتح کی طرف منسوب ہے جس کی بنائی ہوئی فاتح مسجد، مدرسہ اور سلطان فاتح کا مزار ہوٹل کے بہت قریب ہے‘ لیکن استنبول ان چند ماہ میں بہت مہنگا ہو چکا ہے۔ افراط زر راکٹ کی رفتار سے اوپر گیا ہے۔ ستمبر 2021 میں جب میں یہاں آیا تو ایک ترکی لیرا 22 روپے کا تھا۔ اس وقت 14 روپے کا ہے۔ اس لحاظ سے تو بظاہر پاکستانیوں کو سستا پڑتا ہے لیکن عملاً سستا نہیں پڑتاکیونکہ روزمرہ کی اشیاء، خوراک کی قیمتیں، ریسٹورنٹ وغیرہ کے کرایے بھی اسی حساب سے بہت زیادہ ہو چکے ہیں۔ میرے ایک ترک دوست نے بتایا کہ 120 فیصد مہنگائی بڑھی ہے‘ جبکہ تنخواہوں میں 30 فیصد سے زیادہ اضافہ نہیں ہوا۔ یہاں کے لوگ تو خیر پریشان ہیں ہی‘ لیکن مجھ جیسے سیاح کو بھی ہر چیز دگنی تگنی قیمت پر نظر آتی ہے۔ کم حیثیت طبقہ روٹی کے لیے مخصوص سرکاری دکانوں پر قطار بنانے کے لیے مجبور ہے، جہاں بازار کی نسبت کم نرخوں پر روٹی دستیاب ہے۔ اندازہ کیجیے کہ ایک لیرا جو اس وقت 14 روپے کا ہے ، 18 روپے کو چھو کر واپس آیا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ شاید جنوری میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب لیرا 9 پاکستانی روپے کا ہو گیا تھا۔ عام آدمی، ترک ہو یا پاکستانی‘ اسے اس سے غرض نہیں ہو سکتی کہ اس کے عالمی اسباب کیا ہیں‘ گرانی بین الاقوامی طور پر کتنی بڑھی ہے۔ وہ تو اپنی حکومت کو اس کا ذمے دار سمجھتا ہے۔ آپ کسے کسے سمجھائیے گا اور کیسے؟
میں چونکہ فاتح میں پہلی بار ٹھہرا ہوں، پہلے سلطان احمت کے علاقے میں ٹھہرتا رہا ہوں‘ اس لیے ان گلیوں اور تاریخی آثار کو دیکھنے کا موقع مل رہا ہے جو پہلے نہیں دیکھے تھے۔ یہ علاقہ بھی بہت سی تاریخی عمارات سے بھرا پڑا ہے‘ لیکن ٹھنڈ ایسی ہے کہ زیادہ دیر سڑکوں پر رکنا مشکل ہے۔ کچھ ہی دیر میں کسی گوشۂ عافیت میں پناہ لینے کو جی چاہتا ہے۔ مرد، عورت، بچہ جسے دیکھیے موٹی جیکٹ میں ملفوف نظر آتا ہے۔ کئی دن مسلسل بارش اور اس کے بعد برف باری کی پیش گوئی ہے لیکن ممکن ہے سفید گالے اس وقت اتریں جب میں پرواز کر چکا ہوں۔ آج جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں استنبول میں بارش ہے اور سردی مزید بڑھ گئی ہے۔ ترک دوستوں کی بے لوث دوستی پہلے بھی معلوم تھی، اس بار بھی اس کا ذائقہ چکھ رہا ہوں۔ کچھ ترک دوستوں نے مجھے فاتح بلدیہ یعنی میونسپلٹی کے ایک ریسٹورنٹ میں ناشتے کی دعوت دی جو بحر مرمرا کے کنارے تھا۔ ایسی صاف ستھری، خوب صورت اور حسین جگہ کہ دل خوش ہو گیا۔ پارکنگ سے لے کر ناشتے تک ہر چیز کا انتظام اعلیٰ۔ ایک اور ترک دوست نے، جسے میری پسند معلوم ہے، ایک کیفے میں لحم چون، کنافے اور ترکی چائے کی دعوت کر رکھی تھی۔ لحم کا مطلب تو گوشت ہے، یہ ایک طرح کا قدیم ترکی پیزا ہے جس میں گوشت شامل ہوتا ہے۔ اس پر سلاد ڈال کر، لیموں نچوڑ کر، لپیٹ لیا جاتا ہے اور اس رول کو مزے سے کھایا جاتا ہے۔ ہمارے بچپن میں ہماری امی، روٹی پر گھی اور لہسن مرچ کی چٹنی لگا کر ایسا ہی رول بنا دیتی تھیں جسے ہم پینڈو کُکڑی کہتے تھے۔ سو یہ ایک طرح کی ترکی کُکڑی ہے۔ کنافے ایک میٹھا ہے اور ترکی چائے کے ساتھ اس کا لطف ہے۔ حسنِ انتظام، نفاست اور نظافت میں ترک تمام مسلم اقوام سے ہمیشہ سے آگے ہیں اور اب بھی ایسا ہے۔ کتابوں کی دکانوں پر اس بار بھی جانا ہوا۔ ایسا اعلیٰ معیار کہ پڑھنے کی بات بعد میں، پہلے بس دیکھتے رہیے‘ لیکن دوسری طرف قیمتیں دیکھیے تو وہ بھی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی۔ اگر پاکستان میں اس معیار کی کتاب چھاپی جائے تو یقینا چھپ سکتی ہے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ اردو دنیا میں اسے خریدے گا کون؟ خاص طور پر جب ہندوستانی ناشرین ہر ایسی کتاب بلا اجازت اور رائلٹی چھاپنے کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں‘ جو پاکستان میں ان سے معیار میں بہتر لیکن مہنگی ہو۔ اس لیے اس کا کوئی حل نظر نہیں آتا سوائے اس کے کہ کسی کے خاص آرڈر پر ہی اس معیار کی کتابیں چھاپی جائیں۔
لیکن آج کی بڑی خبر یہ ہے کہ ہوٹل کے ناشتے میں کالی گاجر کی کانجی موجود تھی، جسے میں اس سال ترس رہا تھا۔ ممکن ہے کئی پڑھنے والوں کا سوال ہو کہ کانجی کیا ہوتی ہے؟ اور اس میں اور کانجی ہاؤس میں کیا فرق ہے؟ خیر اب ہر سوال کا جواب میرے ذمے نہیں۔ خود بھی کچھ محنت کیا کریں بھئی! ایک سوال میرے دل میں بھی ہے کہ کانجی کے لیے کھانے کا لفظ استعمال کیا جائے یا پینے کا۔ اس لیے کہ اس میں خور اور نوش دونوں ہی موجود ہیں۔ بس یہ کہ کانجی ہمارے یہاں دن میں دوپہر کے وقت کھائی پی جاتی ہے۔ ناشتے میں رواج نہیں۔
میرے ہوٹل کے باہر سمندری بگلے ارد گرد چھتوں کی چمنیوں پر بیٹھے نظر آتے ہیں‘ اس لیے کہ چمنی کچھ حرارت فراہم کر دیتی ہے۔ اس وقت کمرے کی بالکنی کے باہر ایک سفید سرمئی براق موٹا تازہ سمندری بگلا ٹہل رہا ہے لیکن مجھے شک ہے کہ اسے کافی اور چائے پسند نہیں ہے۔ افسوس ان کے علاوہ میر ے پاس اس وقت اس کے لیے کچھ نہیں ہے اور ٹھنڈ میں باہر جانے کی ہمت نہیں۔ آپ کے ذہن میں اس کی مہمان نوازی کی کوئی تجویز ہو تو بتائیے۔