تحریر : اقتدار جاوید تاریخ اشاعت     10-03-2022

بوگنی

بچوں کی حفاظت کے متعلق پاکستان پینل کوڈ میں شامل کی گئی کچھ دفعات یوں ہیں:
٭پندرہ سال سے کم عمر لڑکا یا لڑکی بچہ شمار ہو گا ۔
٭اگر والدین بچوں کی پرورش میں لاپروائی کریں تو والدین کو تین ماہ قید اور پچاس ہزار تک جرمانہ کی سزا ہو سکتی ہے۔
٭جو شخص بچوں کو مزدوری کرنے کی غرض سے لے جاتا ہے اسے ایک ماہ قید و جرمانہ کی سزا ہو سکتی ہے ۔
٭اگر کوئی شخص بچوں سے مزدوری کرواتا ہے تو اس کو پانچ سال قید و جرمانہ کی سزا ہو گی‘جرمانہ کی رقم پانچ لاکھ سے کم نہ ہو گی ۔
٭ بچوں پر تشدد کرنے یا ظلم کرنے کی سزا ایک ماہ قید اور دس لاکھ جرمانہ ہے ‘ جرمانہ بچوں کی فلاح و بہبود کیلئے استعمال ہو گا۔
امریکہ کی سالانہ محکمہ جاتی ''ٹریفکنگ ان پرسنز‘‘کی 2021ء کی رپورٹ میں پاکستان کو چائلڈ سولجرز پریوینشن ایکٹ کی فہرست میں شامل کرنے پر پاکستان نے شدید ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کسی غیر ریاستی گروہ کی حمایت نہیں کرتا ‘ چائلڈ سولجرز پریوینشن ایکٹ کی فہرست میں پاکستان کو شامل کرنا حقائق کے منافی اور کم فہمی کی عکاسی کرتا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ پاکستان کو امریکی چائلڈ سولجرز پریوینشن ایکٹ کی فہرست میں شامل کرنے کو مسترد کیا جاتا ہے ۔
آئین پاکستان کتنی مقدس دستاویز ہے‘ آئینی ادارے اور مقتدر حلقے کیا ہم سبھی یہ جانتے ہیں کہ اس میں ہماری تاریخ اور جغرافیہ محفوظ ہے ۔جن پاک حدود میں یہ آئین نافذ ہے وہیں چک نمبر دو سو چوراسی رب بوگنی بھی ہے ۔ وہیں ایک محنت کش کی تین بچیاں ہیں۔ پاکستان کے مانچسٹر‘ فیصل آباد کے بالکل قریب‘ اتنا قریب کہ تین کم سن بچیوں کا باپ اپنی تینوں بچیوں کو موٹر سائیکل پر فیصل آباد میں اتار کر گیا۔یہ تینوں بچیاں اس شہر کی مختلف آبادیوں میں کام کرتی ہیں۔بڑی کی عمر نو‘ دوسری کی سات اور تیسری کی چھ سال ہے ۔ان کے نام... خیر ناموں میں کیا رکھا ہے‘ اپنی آسانی کے لیے ہم سارہ ‘تارہ اور زارا کا نام دے لیتے ہیں۔ان سے چھوٹا ان کا ایک بھائی ہے اور ایک بہن بھی۔یہ پانچ بہن بھائی ہیں۔مناسب خوراک کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہ سارے بچے کمزور‘ رنگت میں سیاہ اور پیلے ہیں اور ان کی ٹانگیں کمزور اور بازو پتلی پتلی چھڑیوں جیسے ہیں۔یہ تین بہن بھائی ایک دوسرے سے عید‘ بقرعید‘ موت یا شادی بیاہ پر ملتے ہیں۔ان کی آپس میں باقاعدہ ملاقات مہینوں نہیں ہوتی۔یہ ایک شہر میں رہتے ہیں مگر ایک دوسرے سے بے خبر اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ایک دوسرے کی خیر خبر ان کو ماں باپ سے ملتی ہے ۔ان کا باپ ایک فیکٹری میں پیکنگ کرتا ہے ۔ اس کی آنکھوں میں پیدائشی نقص ہے‘ لہٰذا اسے موٹر سائیکل آہستہ اور بہت احتیاط سے چلانا پڑتا ہے البتہ ان کی ماں بظاہر صحت مند ہے اور ایک دو گھروں میں کام کرتی ہے ۔
World Organisation Against Torture کا دفتر جنیوا میں واقع ہے۔اس تنظیم نے جنرل مشرف کے دور میں ایک مکمل رپورٹ پیش کی تھی جس کا مقصد تو بچوں کے حقوق کا تحفظ اور ان کی مناسب نشونما تھا‘ساتھ ہی انہوں نے شرح بسط کے ساتھ ان مسائل کا ذکر بھی کیا تھا جو پاکستانی معاشرے کے بچوں کو درپیش ہیں۔یہ رپورٹ تو دو عشرے پہلے کی ہے مگر بیس سال گزرنے کے بعد یہاں کے بچوں کے حقوق کا کیا تحفظ ہونا تھا‘ اب اس سے بھی بدتر صورت حال کا سامنا ہے ۔ یہ رپورٹ چشم کشا ہے کہ یہاں بچوں کا کس طرح استحصال کیا جا رہا ہے۔ اس استحصال کی کیا وجوہات ہیں؟ اس کا آخر میں ذکر ہو گا پہلے رپورٹ کو دیکھ لیتے ہیں ۔اس رپورٹ کے مطابق پاکستان نے اس رپورٹ پر دستخط کر دیے ہیں اور یقین دہانی کروائی ہے کہ یہاں بچوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جاے گا۔یہ رپورٹ Stefeno Bertiنے لکھی تھی اور ان کی ہی ریسرچ ہے ۔اس رپورٹ پر بدقتِ تمام پاکستان کی حکومت نے دستخط کیے جس کے لیے تنظیم حکومت پاکستان کی شکر گزار ہے۔ اس رپورٹ میں پاکستانی معاشرے میں بچوں کے استحصال کے کئی طریقوں کا بتایا گیا ہے کہ یہاں کن کن جگہوں پر بچوں کی زندگی کے تحفظ کی ضرورت ہے ۔ رپورٹ مشرف دور میں تیار ہوئی‘ لہٰذا سب سے پہلے اس بات پر زور دیا گیا کہ بچوں کو باہمی یا طبقاتی جنگ میں استعمال نہیں کیا جائے گا اور ان کو اسلحہ سے دور رکھا جائے گا۔رپورٹ 2003ء میں کمیٹی آن دی رائٹس آف چائلڈ کے چونتیسویں اجلاس میں پیش گئی اور اسے Rights of the child in Pakistanکا عنوان دیا گیا۔اس رپورٹ میں سیاسی اور مذہبی تنظیموں کی جانب سے نابالغ بچوں کو بھرتی کرنے کا ذکر بھی کیا گیا۔ رپورٹ میں قرار دیا گیا کہ پولیس تشدد‘ نابالغ بچوں کی تھانوں میں چھترول‘ گالی گلوچ اورمنہ پر تھپڑ ‘یہ سب بچوں کے حقوق کی صریحاً خلاف ورزی ہے ۔
ہم نے کئی افغان اور کے پی کے بچوں کو اسلحہ سمیت دیکھا ہے ۔ افریقی ممالک کے باغی قبیلوں کے بچے تو باقاعدہ متحارب گروہوں کا ایندھن ہیں لیکن عجیب بات ہے کہ مغرب درس تو ہمیں بچوں کو اس مناقشت سے دور رکھنے کے دیتا ہے مگر باضابطہ اطلاعات کے مطابق ڈرون حملوں میں دو سو کے قریب بچے مارے گئے۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ہمسایہ ملک افغانستان میں آٹھ ہزار کے قریب بچے خانہ جنگی اور جنگ و جدل میں مارے گئے۔یہ رپورٹ Child Soldiers کی سختی سے ممانعت کرتی ہے۔پاکستان نیشنل سروس آرڈی نینس 1970میں بھی واضح ہدایت کہ اٹھارہ سال سے کم عمر کے افراد کو فوج یا اس قسم کی سروسزمیں بھرتی پر پابندی ہے ۔Majority Act مجریہ 1975ء بھی اس کی ضمانت دیتا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق بچوں کے ٹارچر میں پولیس کی طرف سے چہرے پر تھپڑ مارنا بھی بچوں کا استحصال ہے۔ بچیوں سے الگ اور بچوں سے الگ سلوک بھی ہمارے معاشرے میں بہت پایا جاتا ہے۔ یہ بچیوں کے استحصال کی ایک بری شکل ہے ۔اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں اور ہماری تعلیم میں کمی اور جہالت ہے ۔اس کمیٹی نے بچوں کے استحصال کی مختلف شکلوں کے ذکر پر ہی اکتفا نہیں کیا‘ ناگزیر سفارشات بھی کی گیں۔انہوں نے پاکستان میں نابالغ بچوں کے لیے حالات کو High Riskقرار دیا۔ہم نے اس رپورٹ کے مندرجات کو دیکھا اور نوٹ کیا کہ یہاں تو بچوں سے گداگری بھی کروائی جاتی ہے ‘ چائلڈ پروٹیکشن بیورو کو اس طرف دھیان دینا چاہیے۔بچوں کا استحصال ہمارے معاشرے کا ایک لاینحل مسئلہ ہے یہ مسئلہ کثیر الجہات ہے مگر کنونشن کی سفارشات سے اس پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے ۔پاکستان پر زور دیا گیا ہے کہ پورنوگرافی‘ بچوں کی سمگلنگ اوربچوں کی خرید و فروخت پر پابندی کے لیے قانون سازی کی جاے اور بچوں کے تمام حقوق کی تائید اورتوثیق کی جائے اور بچوں کی عدالتیں اس تنظیم کے قوانین کی پاسداری کریں غرضیکہ کوئی ایسی برائی نہیں جس کے تدارک کے لیے نہ کہا گیا ہو ‘مگر بنیادی شرط وہی ہے کہ اس تنظیم کے مقاصد اور جدوجہد کی توثیق کرے گا کون؟عجیب بات ہے کہ تنظیم نے بچوں کی گداگری کے بارے میں کچھ نہیں کہایا یہ مسئلہ نظر انداز ہوا ہے یا شاید مغرب کوبچوں کی گداگری کے بارے میں گمان بھی نہ ہو کہ ایسا ظلم بھی بچوں پر روا رکھا جا سکتا ہے ۔
ان بچیوں کے نام میں کیا رکھا ہے ۔آرڈی نینس 1970ء کے مطابق بچے کے گال پر تھپڑ مارنا جرم ہے‘ مگر معاشرہ حکومت اور سماجی معاشی حالات جو ان بچیوں اور بچیوں کے والدین کو تھپڑ ما رہے ہیں کیا اس کے بارے میں بھی قانون کچھ کہتا ہے ؟ معاشرہ کچھ کہتا ہے ؟ میں کچھ کہتا ہوں؟ آپ کچھ کہتے ہیں؟نہیں کوئی کچھ نہیں کہتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved