تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     11-03-2022

آخری واردات

فیض احمد فیض نے کہا تھا:
گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیا
گر جیت گئے تو کیا کہنا اور ہارے بھی تو بازی مات نہیں
پیپلز پارٹی نے اسی شعر کو اپنا ماٹو بنا لیا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کامیابی سے ہمکنار ہو یا ناکامی سے دوچار‘ مگر بلاول بھٹو زرداری پُرجوش لانگ مارچ کے دوران خوابیدہ پیپلز پارٹی میں نئی روح پھونکنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی گئی۔ اب اگلے چند روز میں خان صاحب کے مستقبل اور اپوزیشن کی قسمت آزمائی کا فیصلہ ہو جائے گا۔ میں بالعموم اپنے کالموں میں کی گئی پیشگوئیوں کا حوالہ نہیں دیتا؛ تاہم قارئین کو یہ یاد دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں نے پراعتماد تحریک عدم اعتماد اور لانگ مارچ کا تازہ ترین منظرنامہ تقریباً چھ ہفتے قبل قارئین سے شیئر کیا تھا۔ جناب عمران خان اور اُن کے وزرا روزانہ اپوزیشن کو نشانۂ تنقید بناتے رہے‘ اور مطالبہ کرتے رہے کہ لاؤ عدم اعتماد‘ تاخیر کس بات کی ہے۔ ہم نے تبھی اپنے پی ٹی آئی کے بعض سرکردہ دوستوں کو بتا دیا تھا کہ صبر سے کام لو کیونکہ اس مرتبہ معاملہ بہت سنجیدہ ہے۔قارئین سوال کرتے ہیں کہ کیا تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جائے گی؟ ہم ایک نہیں کئی وجوہات کی بنا پر سمجھتے ہیں کہ معاملہ سیریس ہے اور حکومت خان صاحب کے ہاتھ سے نکلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ لیڈروں کی بدن بولی (Body languoge) اُن کا حال دل سنا دیتی ہے۔ حزب اختلاف کے چہرے خوشی سے تمتماتے دکھائی دیتے ہیں۔ مسکراہٹیں اُن کے لبوں پر مچلتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ قائدین ''زیر زمین‘‘ اپنے ہوم ورک سے بہت مطمئن ہیں‘ جبکہ دوسری طرف خان صاحب کے چہرے سے امڈتا ہوا غیظ و غضب اُن کی اندرونی گھبراہٹ کا غماز ہے۔
اس وقت ملک کا جو سیاسی منظرنامہ ہے وہ خان صاحب کیلئے غیرمتوقع ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہے، پنجاب اسمبلی میں علیم خان اور غضنفر چھینہ علم بغاوت بلند کر چکے ہیں۔ علیم خان ترین گروپ کے ساتھ علی الاعلان شامل ہوگئے ہیں۔ دونوں گروپوں کے ملا کر پنجاب اور قومی اسمبلی میں مصدقہ ووٹوں کی بھاری تعداد ہے۔ چند روز قبل چودھری پرویز الٰہی نے کہا تھا کہ سیاست میں پہلے ایکشن کرنے کی بڑی اہمیت ہے۔ وقت تیزی سے نکل رہا ہے اور خان صاحب کے آپشنز کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ لگتا یوں ہے کہ خان صاحب حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی کی بنا پر اسمبلیاں توڑنے یا استعفیٰ دینے جیسے اقدامات نہیں کر سکے‘ جن کا اب وقت گزر چکا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے ایک باخبر ذریعے سے مجھے بدھ کی شام یہ خبر ملی کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے ووٹ 200سے بڑھ جائیں گے۔ میں نے اسے مبالغہ آمیزی پر محمول کیا‘ مگر جس طرح سے پی ٹی آئی کے اندر سے ٹوٹے ہوئے گروپ‘ مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کے اپوزیشن کے ساتھ رابطوں کے واضح اشارے مل رہے ہیں اس سے نون لیگی ذریعے کا دعویٰ مبنی برحقیقت نظر آنے لگا ہے۔ کیا جناب عمران خان جہانگیر ترین اور علیم خان کو منانے میں کامیاب ہو پائیں گے؟ اس کا بظاہر امکان بہت کم ہے۔ خان صاحب کے ناوک نے صید نہ چھوڑا زمانے میں۔ اُن کے معاندانہ تیروں نے غیروں کو ہی نہیں اپنوں کو بھی نشانہ بنایا۔ مسلم لیگ (ن) کا کوئی قابل ذکر رہنما ایسا نہیں جسے خان صاحب نے جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے اور عدالتوں کے کٹہروں میں کھڑا نہ کیا ہو۔ جہانگیر ترین کا پی ٹی آئی میں عمران خان کے بعد دوسرا نمبر تھا۔ انہوں نے وفاداری بشرطِ استواری نبھانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ وہ ایک سنجیدہ مزاج ممتاز سیاست دان ہیں۔ انہوں نے مبینہ طور پر انتخابات سے پہلے انتخابی مہم کیلئے خزانے کے منہ کھول دیئے اور انتخاب میں اپنی نااہلی کے باوجود جہازوں میں بھر بھر کر ارکان اسمبلی کو لائے اور انہیں جناب عمران خان کے حضور پیش کرتے رہے۔ حکومت کے آغاز میں انہیں کچھ واجبی سی اہمیت دی اور پھر بعض گفتنی و نا گفتنی کہانیوں کی بنا پر اُن کے اور اُن کے بیٹے کے خلاف مقدمات بنوا دیئے گئے۔ جہانگیر ترین نے اس کے باوجود پارٹی سے وابستگی کا بھرم قائم رکھا۔ وہ مناسب وقت کا انتظار کر رہے تھے‘ جو اب آ گیا ہے۔ اسی طرح علیم خان نے بھی خان صاحب کے حکم پر پارٹی کیلئے اربوں خرچ کئے مگر جواباً انہیں پنجاب کی وزارت عظمیٰ کے بجائے جیل کے کال کوٹھڑی میں ڈالا گیا۔
خان صاحب کے بعض قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ وفاؤں کا صلہ یونہی دیا کرتے ہیں‘ لیکن اب ایسا ہونا ممکن نہیں۔ پنجاب میں حکمران پارٹی کے اندر کی بغاوتیں کھل کر سامنے آ گئی ہیں جبکہ قومی اسمبلی میں کون کس کے ساتھ ہوگا اس کا علم تو ''روز حساب‘‘ ہی ہوگا۔ آصف زرداری نے کہا ہے کہ وہ کسی شریف آدمی کو اقتدار پر بٹھانا چاہتے ہیں تاکہ خلق خدا سکھ کا سانس لے سکے۔شہباز شریف نے کہا: مزید تاخیر کرتے تو قوم معاف نہ کرتی۔ مولانا کا کہنا تھا‘ جب 2017-18 میں شرح نمو ساڑھے پانچ فیصد تھی اور اگلے سال ترقی کا تخمینہ ساڑھے چھ فیصد لگایا گیا جبکہ یہ حکومت ترقی کے تخمینے کو صفر سے نیچے لے آئی۔
پی ٹی آئی انتخابات سے پہلے سی پیک کو نشانہ و تنقید بناتی رہی اور حکومت میں آنے کے بعد بعض وزرا نے جن کے خلاف یہ مشق ستم جاری رکھی‘ انہوں نے یہ تک نہ سوچا کہ ہمارے اتنے مخلص دوست کے بارے میں یہ رویہ پاکستان کے مفادات کے خلاف جائے گا۔ سعودی عرب کے ساتھ ہمارے برادرانہ تعلقات کی ایک نہیں بے شمار جہتیں ہیں۔ ہمارے سعودی عرب کے ساتھ دینی، معاشی، فوجی اور معاشرتی و سماجی رشتے ہیں۔ اس وقت سعودی عرب میں 14 لاکھ پاکستانی کام کرتے ہیں۔ ہمارے زرمبادلہ کا بہت بڑا حصہ سعودی عرب کے اوورسیز پاکستانی ارسال کرتے ہیں۔ سعودی عرب ہمیں ادھار پر تیل دیتا ہے اور اربوں ڈالر قرضہ بھی فراخدلی سے فراہم کرتا ہے۔ ایسے بھائی کے خلاف شاہ محمود قریشی نے بڑی تندوتیز باتیں کی تھیں۔ خان صاحب نے میلسی کے جلسے میں یورپی یونین کو نشانہ بنا ڈالا۔ یورپ اور شمالی امریکہ کے ساتھ ہی تو ہمارے تجارتی تعلقات قائم ہیں۔ اس حکومت کے دور میں بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کا خصوصی سٹیٹس ختم کر ڈالا اور ہمارے حکمران ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ حزب اختلاف کے قائدین کا کہنا ہے کہ حکومت نے مہنگائی کو تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا دیا ہے۔ بیروزگاری بہت بڑھ چکی ہے۔ کیا خان صاحب تحریک عدم اعتماد سے نیا اقتدار بچا پائیں گے۔ بظاہر اس کے امکانات بہت کم ہیں۔ جب جرأت مندانہ فیصلے کرنے کا وقت تھا، جب ناراض لیڈروں اور کارکنوں کو منانے کا وقت تھا اور جب بروقت قدم اٹھانے کا موقع تھا اس وقت خان صاحب مخالفین کو للکارنے اور انہیں سبق سکھانے اور این آر او نہ دینے کی دھمکیاں دینے میں مشغول تھے۔ اس دوران اپوزیشن خاموشی کے ساتھ پی ٹی آئی سمیت ہر پارٹی سے رابطے کرتی رہی جس کے نتائج منگل کے روز الم نشرح ہو کر ساری دنیا کے سامنے آ گئے۔ اقتدار کی ڈولتی، ڈگمگاتی کشتی میں بیٹھ کر شاید جناب عمران خان ایام رفتہ پر ایک احتسابی نگاہ ڈالنے پر آمادہ ہوں تو انہیں سوچنا چاہیے کہ اُن کی پارٹی میں کیا کیا گوہر تابدار اور اصحاب علم و کمال تھے‘ وہ پارٹی کو کیوں خیرباد کہہ گئے۔ اقتدار میں آنے کے بعد خان صاحب نے ہر اس شخص سے نجات حاصل کی جس کی اپنی ذاتی سوچ اور اپروچ تھی۔ خان صاحب نے اپوزیشن کو خبردار کیا: عدم اعتماد ناکام ہونے کی صورت میں اُن کے ساتھ وہ سلوک کروں گا کہ یہ 2028 تک اٹھ نہیں سکیں گے۔ انہوں نے کہا: مجھے یقین ہے‘ یہ اپوزیشن کی آخری واردات ہوگی۔ احتیاط کا دامن تھامنا چاہیے کہ کہیں اُن کے ساتھ وہی ''واردات‘‘ نہ ہو گئی ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved