یہ بات تو پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ عمران خان کے خلاف اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے قومی اسمبلی میں ایک سو بہتّر اراکین اسمبلی کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ اپوزیشن اپنے ایک سو تریسٹھ اراکین میں کم ازکم نو کا اضافہ کیسے کرے گی؟ اگر یہ نو ارکان کہیں سے آجاتے ہیں تو اپوزیشن حکومت میں بدل جائے گی اور حکومت کو اپوزیشن کی جگہ بیٹھنا ہوگا۔ حزب اختلاف کا دعویٰ ہے کہ تحریک انصاف کے معزز ارکان اسمبلی میں سے کئی عمران خان کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ یہ خبر کوئی صحافی دیتا تو شاید اس پر اعتماد کرنا مشکل ہوتا لیکن شہبازشریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن اگر معزز اراکینِ اسمبلی کی وفاداریاں بدلنے کی خبربراہ راست ٹی وی پرآ کر دے رہے ہیں تو یہ بے بنیاد بات نہیں۔ یہ لوگ اس سے پہلے یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر بنوانے کے لیے بھی قومی اسمبلی کے چند معزز اراکین کے ووٹ خرید چکے ہیں۔ ممکن ہے یہ خریداری پیسوں کے ذریعے نہ ہوئی ہو، کسی وعدے وعید پرہی معزز اراکین اسمبلی نے اپنے ضمیر مردہ کرلیے ہوں‘ لیکن امرواقعہ ہے کہ اسمبلی میں ایسے اراکین موجود ہیں جو ایک نامعلوم قیمت پرپہلے بھی بک چکے ہیں۔ ایسے لوگوں کی موجودگی میں کوئی بھی زر والا اگر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کی جیب میں درجن بھر ایم این اے ہیں تو اسے جھٹلانے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ اس لیے اگر آج اپوزیشن جماعتیں یہ دعویٰ کررہی ہیں کہ انہوں نے تحریک انصاف میں نقب لگالی ہے تواس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔ اس یقین کا پیسے کے علاوہ ایک سبب یہ ہو سکتا ہے کہ اپوزیشن کو آئندہ الیکشن سے پہلے ہی کسی غیبی یا نیوٹرل ذرائع سے اپنی حکومت بننے کی خبر بھی مل چکی ہے‘ لہٰذا نقد ادائیگی کے علاوہ مستقبل کے بندوبست میں حصہ ملنے کا لالچ بھی معزز اراکین اسمبلی کے دلوں میں اپوزیشن کی محبت جگا سکتا ہے جس کے بعد وہ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مولانا فضل الرحمن، نواز شریف یا آصف علی زرداری کے حلقہ بگوش ہو سکتے ہیں۔
یہ حقیقت بھی نہیں جھٹلائی جاسکتی کہ پاکستانی سیاست میں معززاراکین اسمبلی کے ضمیروں کی سوداگری سدا بہار ہی رہی۔ حق تو یہ ہے کہ پاکستان کی دوسری سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی بدولت اسلامی جمہوریہ پاکستان میں معزز اراکین اسمبلی کی خریدوفروخت کیلئے ہارس ٹریڈنگ کی اصطلاح عام بول چال کا حصہ بنی۔ اس کے علاوہ معزز اراکین اسمبلی کو اپنے ساتھ رکھنے کیلئے سرکاری وسائل سے ان پر مسلسل نوازشات بھی ان جماعتوں کا وتیرہ رہا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بہت سے شہریوں نے انیس سو اٹھاسی سے نوے تک کا وہ وقت اچھی طرح دیکھ رکھا ہے جب پیپلزپارٹی نے وفاق اور سندھ میں اپنے معزز اراکین اسمبلی کو خوش کرنے کیلئے صوبائی انتظامیہ، محکمہ تعلیم، پی آئی اے، سٹیل ملز، ریلوے، ایف آئی اے، پی ٹی وی اور نجانے کس کس محمکے میں اندھا دھند نوکریاں بانٹیں۔ یہ نوکریاں بازار میں بکیں اور کچھ معزز اراکین اسمبلی کو نقد ملنے کے ساتھ ساتھ اپنے کارندوں کو سرکاری ملازم بھرتی کرانے کا موقع بھی مل گیا۔ یہی صورتحال پنجاب میں تھی جب نواز شریف یہاں وزیر اعلیٰ تھے۔ اس زمانے میں ان کی جماعت اسلامی جمہوری اتحاد کا حصہ تھی۔ اس اتحاد کے معزز اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کوبھی سب انسپکٹر پولیس اور تحصیلدار کی نوکریاں مخصوص تعداد میں دی گئیں جبکہ اساتذہ کرام کی بھرتی، پولیس کے سپاہی اور درجہ چہارم کی نوکریوں پر جس کا جتنا بس چلا اس نے لے لیں۔ ان جماعتوں کی اس پالیسی نے پی آئی اے، سٹیل ملز اور ریلوے کی جو تباہی کی سو کی دونوں صوبوں میں تعلیم کا تو بالکل بھٹہ ہی بٹھا دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کے بھرتی کردہ لوگ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے اور پھر ملک کا بھٹہ انتظامی طور پربھی بیٹھ گیا۔ معزز اراکین اسمبلی کی انہی حرکتوں کی وجہ سے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے دور میں پاکستان کو دنیا میں دوسرے بدعنوان ترین ملک کا درجہ دیا تھا۔ یاد رہے اس حکومت میں آصف علی زرداری بھی وزیر تھے۔ پھرمسلم لیگ (ن) کا دورآیا‘ دستور میں چودھویں ترمیم کرکے یہ شق شامل ہوئی کہ معززاراکین اسمبلی جس جماعت کے ٹکٹ پر منتخب ہوں گے اسی کے پابند رہیں گے۔
دستور میں لگائی گئی اس پابندی کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ ایک بار پھر ہارس ٹریڈنگ، لوٹا سازی یا پیسے لے کر 'ضمیر کی آواز‘ پر لبیک کہنے کا وقت آگیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے قائدین سینوں پر ہاتھ مار کے فرماتے ہیں‘ اتنے معزز اراکین اسمبلی ہم نے توڑ لیے ہیں۔ جناب آصف علی زرداری کی بات سے تو لگتا ہے سوائے عمران خان کے ان کی ساری پارٹی ہی بک چکی ہے‘ اور تو اور حضرت مولانا فضل الرحمن بھی معزز اراکین اسمبلی کی خریدوفروخت کو 'انفرادی شخصیات کے فیصلے‘ کا عنوان دے کر جائز ثابت کررہے ہیں۔ عمران خان کو ہٹانے کی صورت میں حکومت چاہے دو مہینے بنے یا ڈیڑھ سال، وہ ایسے خریدے ہوئے لوگوں کی مرہون منت ہوگی جو حکومت میں آکر کھل کھیلیں گے۔ یقینی طور پر نقد کے علاوہ نوکریوں کا کاروبار بھی عروج پر ہوگا اور اپنے کارندوں کوایک بار پھر بھرتی کرنے کا موسم ہوگا۔ یہی وہ لالچ ہے جو کئی معزز اراکین اسمبلی کو بیتاب کیے ہوئے ہے۔
وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے ہارس ٹریڈنگ سے نسبتاً کم آلودہ راستہ حکومت کے اتحادیوں کو توڑنا ہے۔ اگرصرف ق لیگ کے پانچ اور ایم کیو ایم کے سات معزز اراکین اسمبلی حکومت کو چھوڑ کر اپوزیشن سے آن ملیں تو بلاشبہ حکومت اکثریت کھودے گی۔ بظاہر اس عمل کو ہارس ٹریڈنگ نہیں کہا جاسکتا۔ ق لیگ کے پاس صرف پانچ سیٹیں ہیں لیکن اس کے پاس دو وفاقی وزارتیں ہیں اور ایم کیو ایم اپنی سات سیٹوں کی حمایت کے بدلے دو وزارتوں پر فائز ہے۔ گویا دونوں جماعتیں گزشتہ ساڑھے تین سال سے تحریک انصاف کی حکومت کی اچھائی یا برائی میں شامل رہی ہیں‘ اب اگران کا ضمیر اپوزیشن کی پکار پر لبیک کہنے کے لیے تیار ہے تو یہ اپنا فیصلہ کرسکتی ہیں‘ ان پرکوئی قانونی قدغن نہیں‘ بس یہ ضرور ہوگا کہ نئی حکومت میں جاکر بھی انہیں پچھلی حکومت میں شامل رہنے کا حساب دینا ہوگا۔ معلوم نہیں کس منہ سے یہ جماعتیں کہیں گی کہ اقتدار سے ان کا ساڑھے تین سالہ تعلق ناجائز تھا اور اب وہ ووٹ کی عزت کیلئے ایک جائز تعلق استوار کررہی ہیں۔
بہت سے لوگوں کے لیے سیاست کسی قاعدے یا اخلاق کی پابند نہیں ہوتی۔ بالخصوص اس وقت انہیں کوئی اخلاقی اصول نہیں سوجھتا جب ان کی من پسند جماعت یا شخصیت کو اقتدار مل رہا ہو۔ اس وقت بھی یہی ہورہا ہے کہ دینی ذہن رکھنے والوں کے لیے ہارس ٹریڈنگ کی آلودگی اس لیے قابل قبول ہے کہ اس کا فائدہ مولانا کو پہنچ رہا ہے۔ جیالوں کے لیے اس میں سے اشتہا انگیزلپٹیں اس لیے اٹھ رہی ہیں کہ پیپلزپارٹی کو وفاقی حکومت میں حصہ مل سکتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے چاہنے والوں کویہ عمل اس لیے مناسب لگ رہا ہے کہ اس طرح ان کی حکومت کا راستہ ہموار ہوتا ہے یعنی سب نے اپنی اپنی وجہ سے ایک سیاسی گناہ کو ثواب قرار دے لیا ہے۔ خاکسار ان لوگوں میں سے ہے جن کے لیے سیاست اخلاقیات کے بنیادی اصولوں سے باہر نکلے تواس کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ عمران خان وزیراعظم رہیں نہ رہیں ہمیں کم ازکم یہ پتا چل گیا ہے کہ قوموں کی مکمل بربادی سے پہلے ان کی سیاست بھی اخلاقی اصولوں سے اسی طرح بے نیاز ہوجاتی ہوگی جیسے ہماری ہوچکی ہے ، اور ان کے اکابرین بھی اپنی بے ضمیری کی وہی دلیلیں دیتے ہوں گے جو ہمارے اکابرین دے رہے ہیں۔