ملکی سیاست میں جاری کشمکش ایسے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے جہاں سے اس جدلیات کو ریگولیٹ کرنے کے بہترین مواقع بھی نکل سکتے ہیں۔ذرا غورکیجئے اگر پی ڈی ایم لانگ مارچ کی صورت میں ہجوم کو لے کر حکومت گرانے نکل پڑتی تو یہ قومی بقا کے تقاضوں سے متصادم‘ ایسا ناگوارعمل ہوتا جو مملکت کو کبھی نہ تھمنے والی شورش میں جھونک سکتا تھا ‘لیکن عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے کسی حد تک اس ممکنہ تصادم کوٹال دیا گیا‘جو ہماری داخلی و خارجی پالیسی کی نزاکتوںکو تہہ و بالا کر دیتا۔
لاریب‘ایک جائز آئینی عمل کوبغیر کسی رکاوٹ کے آزمانے کے بعد بھی اگر اپوزیشن عمران خان کو منصب ِوزارت سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہوئی تو پھر اپوزیشن کے پاس لانگ مارچ کا اخلاقی جواز بھی ختم ہو جائے گا؛چنانچہ اس آزمائش سے بچ نکلنے کے بعد حکومت بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی آئینی مدت پوری کر لے گی۔اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اپوزیشن کو اپنے اس آئینی حق کو پانے کیلئے چومکھی لڑائی لڑ کر طاقتوروںکو غیر جانبدار بنانا پڑا لیکن بہرحال یہی وہ درست راہِ عمل تھی جو ہمیں قومی وحدت تک پہنچانے والی سیاسی اصلاحات تک پہنچا سکتی تھی اور اگر سیاسی قوتیں اپنے جماعتی مفادات سے بالاتر ہو کر عوام کے حقِ ِحاکمیت کی خاطر سوچیں تو آج بھی یہاں اقتدار کے ایوانوں پہ اُن طبقات کی مستقل اجارہ داری ختم کی جا سکتی ہے جنہیں عالمی مقتدرہ باآسانی مینج کر لیتی ہے بلکہ موجودہ پیش دستی کا بنیادی محرک بھی یہی بنا کہ پہلی بار دو بڑی سیاسی جماعتوں نے حصولِ اقتدار کے بجائے تقسیم ِاختیارات کے فارمولامیں اصلاحات کو ترجیحِ اول بنا لیا تو طاقت کے مراکز میں کچھ ہلچل پیدا ہوئی۔ بیشک اس وقت ہائبرڈ رجیم کی معاشی اور سیاسی ناکامیوں کے ردعمل میں پیدا ہونے والے اضطراب کے باعث تمام ادارے دباؤ میں ہیں۔غیرمختتم بدامنی‘ عدم تحفظ ‘سماجی ناانصافیوں‘افسر شاہی کی بدعنوانیوں اور ناقابل برداشت مہنگائی کی تلخیوں نے سماج کے دل و دماغ میں جس قسم کے طوفان برپا کر رکھے ہیں انہیں زیادہ دیر تک کنٹرول کرنا ممکن نہ ہو گا۔ اگر موجودہ بحران کو مزید دوام دیا گیا تو عوامی ضبط کے بند ٹوٹ سکتے ہیں۔ اس لئے قومی سیاست میں کارفرما مقبول سیاستدانوں کو راہِ عمل فراہم کی گئی تاکہ آئینی طریقہ کار کے مطابق رجیم چینج کی رسم پوری کرکے عوام کے اند پائے جانے والی مایوسی اور غصہ کو ٹھنڈا کیا جا سکے۔بلاشبہ وہ اجتماعی محرکات جن پہ ہمارا سیاسی نظام ٹھہرا ہے‘انسان کی اُن انفرادی جبلتوں سے کہیں زیادہ کمزور ہیںجو حصولِ دولت‘پیکار اور جذبہ سے متعلق ہیں۔
اس وقت ہم اپنی تاریخ کے ایسے مرحلے سے گزر رہے ہیں‘جہاں سوشل میڈیا ٹیکنالوجی نے خبر پہ مرکزی دھارے کے اُس پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی اجارہ داری ختم کر دی ‘جسے قابو میں رکھنا حکومت کیلئے آسان تھا۔سوشل میڈیا کے ذریعے اب ہر شہری نہایت آسانی کے ساتھ سرکاری اداروں کی کارکردگی کو بے نقاب کرنے کے علاوہ پوری دنیا کو اپنی تکلیفوں‘ دکھوں اور محرومیوں کے احساس میں شامل کر لیتا ہے۔یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس نے سرکار کے علاوہ سیاسی جماعتوں کو بھی رائے عامہ پہ کان دھرنے پر مجبور کر دیا۔امر واقعہ یہ ہے کہ جمہوریت کے متلاشی مشرقی ممالک میں بالعموم سیاسی جماعتیں اپنی تمام تر توانائیاں الیکشن جیتنے کیلئے وقف رکھتی ہیں تاکہ وہ اس مہمل سے اقتدار تک رسائی پا سکیں جس میں ان کی حیثیت محض علامتی ہوتی ہے اور جہاں طاقت کے مراکز سیاستکاروں کی اسی حریصانہ روش کو اپنی بالادستی برقرار رکھنے کیلئے بروئے کار لاتے ہیں؛چنانچہ اسی نامطلوب جوڑ توڑ میں اقربا پروری‘بدعنوانی اور شخصیت پرستی کے ایسے فرقے پروان چڑھتے ہیں جن کے یکساں مفادات انہیں فیصلہ سازی کے عمل پہ اپنی اجارہ داری قائم رکھنے میں بے باک بناتے گئے۔اسی ماحول میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے سیاسی مساوات کے نعروں کی گونج میں کہا تھا کہ عوام کے تمام مسائل تب حل ہوں گے جب سرمائے اور محنت کے تعلق میں پائے جانے والے تضادات کو دور کر لیا جائے گا تواپنے اس نظریہ کو عملی جامہ پہنانے اور ریاست کے کنٹرول کا مقابلہ کرنے کیلئے مسٹر بھٹو نے پیپلزپارٹی جیسی عوامی قوت کی حامل جماعت بنائی جس نے اپنے عہد کے سیاسی تمدن کی چولیں ہلا ڈالیں‘تاہم پاور سرکل میں داخل ہونے کے بعد زیڈ اے بھٹو بھی عوام کے بجائے مقتدرہ کو حقیقی تبدیلی کا آلہ کار اور طاقت کا سرچشمہ سمجھنے لگے‘یوں عوامی حاکمیت کے حصول کا یہ عظیم موقع ہم گنوا بیٹھے۔اب پچاس سال بعد ہماری سیاسی قیادت پہ عقدہ کھلا کہ صرف وہی عوامی تحریکیں سماج میں کسی حقیقی سیاسی تبدیلی کا محرک بن سکتی ہیں جو انتخابی پلیٹ فارم سے آگے بڑھ کر مزاحمتی جدوجہد کے ذریعے استبدادی جمود کو توڑ کے حقیقتاً عام لوگوں کو بااختیار بنانے کو اپنا نصب العین بنا لیں۔اسی رجحان کی ایک موہوم سی جھلک ہمیں میاں نوازشریف اورمولانا فضل الرحمن کی جدوجہد میں نظر آئی جنہوں نے سیاسی کارکنوں کو صرف یہ نہیں سکھایا کہ اقتدار کیسے حاصل کیا جاتا ہے بلکہ یہ بھی بتایاکہ عوام طاقتور کیسے بنتے ہیں۔
اگرچہ سیاسی اصلاحات نظریاتی طور پر تمام ممالک کی سیاسی زندگی میں بار بار زیر بحث آنے والا موضوع رہا لیکن یورپ میں نشاۃ ثانیہ اور اصلاح کی تحریکوں کے بعد اس نظریہ کے ارتقا کو منجمد اور اس پیچیدہ فلسفہ کی توضیح کیلئے سماجی سائنسدانوں کو کھلی فضا میں اظہارِ خیال کی اجازت نہیں دی گئی؛چنانچہ بدقسمتی سے لوگ ایک حد تک ان طریقوں سے اکتانے لگے جنہیں فی الحال سیاست اور سیاسی عمل تصور کیا جاتا ہے‘جیسے سیاسی جماعتیں‘ انتخابی عمل اور عوامی نمائندگی جنہیں روایتی طور پر ہم سیاست کرنے کے جائز طریقے کے طور پر دیکھتے آئے ہیں ‘تاہم اب یہی معروف سیاسی قدریں بحران کا شکار ہو کر آبادی کے بڑے حصے میں اپنی ساکھ کھو رہی ہیں۔اس لیے نوجوانوں کی بڑی تعداد پرتشدد جدوجہد کی طرف بڑھتی دکھائی دیتی ہے‘یعنی لوگ یہ محسوس نہیں کرتے کہ وہ اس عمل کا حصہ ہیں جو سیاسی نمائندگی کا تعین کرتا ہے کیونکہ انتخابی عمل کے نتائج رائے دہندگان کی مساعی کے برعکس نکلتے ہیں۔گویا سیاست اب مقتدر اشرافیہ کا خصوصی حلقہ بن چکی ہے اور اس کا دار و مدار عوامی رائے پہ نہیں بلکہ اداروں کے اندر چلی جانے والی چالوں پر منحصر ہے۔
معاملات کو مزید الجھانے کیلئے ہر گورنمنٹ عالمی بحرانوں پر انہی اجارہ داروں کے مفادات کے تقاضوں کے مطابق رد عمل ظاہر کرکے عوامی امنگوں اور اجتماعی مفادات کو پس پشت ڈال دیتی ہے‘یہ ایسا عمل ہے جس سے مروجہ سیاسی نظام کی آئینی حیثیت اور اخلاقی ساکھ کو مزید نقصان پہنچتا ہے۔ان حالات میں عام لوگوں کیلئے سیاست کرنے کے نت نئے امکانات کیسے متصور ہوسکتے ہیںاور نئے جمہوری ادارے کیسے بنائے جا سکتے ہیں‘ یہ سوالات عوامی تنظیموں اور نچلی سطح کی تحریکوں کیلئے نہایت اہمیت کے حامل ہیں‘ لیکن ان کا جواب دینے کی فکر کہیں بھی نہیں پائی جاتی کیونکہ زیادہ تر سیاسی جماعتیں صرف الیکشن لڑنے کو اپنا نصب العین بنا چکی ہیں۔
پاکستان میںسیاسی اصلاحات کئی سالوں سے پارلیمانی ایجنڈے پر پڑی ہیں لیکن یہ ہمیشہ انتخابی یا جماعتی مفادات سے مشروط رہیں یا پھر بدعنوانی کے کسی بڑے سکینڈل کے جواب میں وقتی طور پہ بحث کیلئے منظر عام پر لائی گئیں؛چنانچہ انتخابی مباحثے کی خصوصیت کے پیش نظر تمام تبدیلیاں طویل مدتی حکمت عملی کے بجائے قلیل مدتی انتخابات کے مسائل پر توجہ مرکوز رکھتی ہیںیہی وجہ ہے کہ زیادہ تر آبادی کا خیال ہے کہ سیاسی اصلاحات صرف انتخابی نظام کی اصلاحات سے متعلق ہیں حالانکہ اس کا دائرہ عمل اجتماعی زندگی کی جزیات تک محیط ہوتا ہے۔ہرچند کہ سیاسی اصلاحات کا سوال علمی مباحثوں اور میڈیا میں کبھی کبھار نمایاں ہوتا رہتا ہے لیکن علمی دائروں میں یہ مطالعہ یا تحقیق کیلئے ایک موضوع سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتاجبکہ میڈیا میں اسے یا تو سیاست کی تمام برائیوں کا ممکنہ حل سمجھا جاتا ہے یا اسے جمہوریت کے خلاف طنزیہ انداز میں پیش کرکے غیر اہم بنا دیا جاتا ہے۔ تاہم دونوں صورتوں میں اسے ریاست کے ذریعے حکمرانی کی خاطر وسائل و اقتدار پر اشرافیہ کا تسلط برقرار رکھنے یا بیوروکریسی کی انتظامی گرفت کو زیادہ مضبوط بنانے کیلئے محض اثر ڈالنے والے بیانیہ کا رنگ دیا گیالیکن عوام کی اکثریت کے مفادات کا دفاع کرنے والی نچلی سطح کی ان تحریکوں میں سیاسی اصلاحات کو وسیع تناظر میں دیکھا جانا چاہیے جو لازمی طور پر سیاسی نظام‘ سیاسی ثقافت‘ معاشرے اور ریاست میں تبدیلیوں کو فروغ دینے کیلئے کام کرنا چاہتی ہیں۔
قصہ کوتاہ‘سیاسی اصلاحات کو فیصلہ سازی کے عمل کی اصلاحات سمجھنا ہو گا‘جس کے ذریعے ہم طاقت اور اس کے استعمال کے طریقوں کی اصلاح ممکن بناسکتے ہیں۔تمام جمہوری اداروں کو بھی ایسی حقیقی سیاسی اصلاحات کی طرف رہنمائی کرنی چاہیے جو ہمارے عہد کے تقاضوں کے مطابق نئے ادارہ جاتی نظام کی بنیاد بنیں۔جن اصولوں کی وساطت سے ہم مساوات‘ تنوع‘ انصاف‘ آزادی اظہار‘ شرکت‘ شفافیت اور سرکاری ڈھانچہ پہ رائے عامہ کی مکمل نگرانی قائم کر سکیں۔