کسی کریانہ شاپ سے لے کر ملک بھر کے چھوٹے بڑے ہوٹلوں‘ ڈھابوں اور عام تندوروںسمیت ہر قسم کے اعلیٰ ترین ریسٹورنٹس تک کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں گزشتہ دو سال میں جس قدر بڑھ گئی ہیں اس نے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت اور مقبولیت کو سخت دھچکا پہنچایا ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ مہنگائی کس وجہ سے ہوئی‘ کیا اسے حکومتی ناکامی کا نام دیا جائے یا اس کی کوئی اور وجہ بھی ہے؟ تحریک انصاف سے پہلے ملک میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے مقابل رہتی تھیں۔ اب ہر شخص ‘ جس کا ملکی سیا ست اور حالات سے گزشتہ پینتیس برس سے ذرا سا بھی واسطہ یا شعوری تعلق رہا ہے‘ جانتا ہے کہ جیسے ہی پیپلز پارٹی کی حکومت آتی تو ملک بھر کے تاجر (ن) لیگ کا ساتھ دیتے ہوئے مصنوعی مہنگائی کر وا دیتے تھے۔یہ حربہ پی پی کی ہر حکومت کے ساتھ کیا گیااور یہی کچھ موجودہ دور میںبھی کیا جارہا ہے اور حکومت کی مخالفت بڑھانے کیلئے اشیا مہنگی کر کے بیچنا شروع کر دی گئی ہیں۔ کسی بھی ملک یا معاشرے میں ہونے والی مہنگائی کو ناپنا ہو تو اس کیلئے گھی‘ چینی‘آٹا‘ دالیں ‘گوشت اور سبزیوں جیسی کچن کی پانچ ‘چھ اشیا کی قیمتوں کو سامنے رکھا جاتا ہے اور آج دیکھا جائے تو ہر گھر کے باورچی خانے کیلئے لازمی درکاریہ اشیا بہت مہنگی ہو چکی ہیں ۔باورچی خانے کی ان اشیا کے علا وہ لباس اور انسانی ضروریات کی دوسری اشیا کی قیمتیں بھی ان چند سالوں میں آسمان کو چھوچکی ہیں اور کوئی ایسی حکومت اور انتظامیہ دوردور تک نظر نہیں آتی جوان عوامل اور عنا صر کا محاسبہ کر سکے جو اشیاکے نرخوں کو دوگنا کرنے کیلئے بالکل آزاد ہو چکے ہیں۔اس دوران ملک میں دن رات محنت سے کام کرنے والا کوئی حکمران ہوتا تو وہ دیکھا دیکھی کی مہنگائی بڑھانے والوں کو کب کا نکیل ڈال چکا ہوتا ۔نواب آف کالا باغ تو صرف پنجاب کے نہیں بلکہ آج کے پورے پاکستان(اُس وقت کے مغربی پاکستان) کے گورنر تھے اور گورنر کی حیثیت سے انہوں نے بد معاشوں‘ رسہ گیروں اور قبضہ گروپوں اور ذخیرہ اندوزوں کو نتھ ڈال دی تھی۔ وہ کوئی مافوق الفطرت ہستی نہیں تھے بلکہ ہماری طرح کے ہی انسان تھے‘ صرف کام کرنا اور کرانا جانتے تھے۔
پٹرول کی قیمتوں کادنیا بھر میں یکدم بڑھناسب کے سامنے ہے۔ دوسرے ممالک سے ان قیمتوں کے تناسب کی مثالیںاکثرحکومتی اراکین کی جانب سے سننے کو ملتی ہیں جس کے جواب میں ان کے مخالفین کی باتوں میں بھی کافی وزن ہے کہ حکومت پاکستان اور اقوام عالم میں پٹرول کی قیمتوں کا فرق بتاتے ہوئے جن ممالک کی مثالیں دیتی ہے وہاں کے لوگوں کی تنخواہوں کا پاکستان سے فرق بھی سامنے رکھے۔ کھانے کے تیل اور گھی کی گرانی کی بات کریں توبے شک ان اشیا نے ہمارے جیسے لوگوں کے بھی کس بل نکال کر رکھ دیے ہیں‘ غریب اور مزدور کے گھر کی کیا حالت ہوتی ہو گی؟ اب اگر ریکارڈ سامنے رکھیں تو عمران خان کی حکومت آنے سے پہلے2018ء تک گھی اور تیل بنانے کیلئے درکار پام آئل کی عالمی قیمتیں500 ڈالر فی ٹن تھیں اور اس وقت عالمی مارکیٹ سے پاکستان کو پام آئل1750 ڈالر فی ٹن کے حساب سے خریدنا پڑ رہا ہے اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب ڈالر 170 روپے سے بھی اوپرجا چکاہے۔
کورونا وائرس نے دنیا بھر کی معیشت کو وہ دھچکے لگائے ہیں کہ کرۂ ارض پر واقع ہر ملک کی معیشت ہچکولے کھا رہی ہے‘ جس میں امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک سر فہرست ہیں ۔یہ مضمون پڑھنے والوں میں سے کسی کا دوست یا عزیز بیرون ملک مقیم ہے تو وہ پوچھ سکتے ہیں کہ مہنگائی نے وہاں کیا حشر کر رکھا ہے۔فرق ان میں اور ہم میں ایک ہے کہ وہاں کی گورننس لاجواب ہے اور ہماری بہت ہی خراب۔ ان کی حکومتیں اپنے عوام کا ہرطرح سے خیال رکھتی ہیں‘ انہیں کہیں بھی کسی بھی سرکاری دفتر میں اپنے کسی بھی کام کیلئے رشوت دینے اور سرکاری عملے کی بدسلوکی کے تازیانے برداشت نہیں کرنا پڑتے ‘ہر کام ان کی دہلیز پر ہو جاتا ہے ‘انہیں بچت کی سکیموں جیسے اداروں میں ہر ماہ اپنی پنشن یا منافع لینے کیلئے دھکے نہیں کھانے پڑتے اور نہ ہی انہیں کئی کئی ماہ ان دفاتر کے چکر لگالگا کر وقت برباد کرنا پڑتا ہے۔ کاش ہمارے ملک میں بھی صوبائی اور وفاقی اداروں میں ہمارے عوام کو اس سے نصف سہولتیں بھی مل جایا کرتیں جو بیرونی ممالک کے شہریوں کو حاصل ہیں۔
اب تیل اور ڈیزل کی جانب آئیں تو اس سے بھی زیا دہ خوفناک صورت حال ہے جس نے ہماری معیشت اور ملکی خزانے کو ہلا کر رکھا ہوا ہے۔ آپ یقینا یہ جان کر حیران ہو ں گے کہ گزشتہ مالی سال میں18 ارب ڈالر کا تیل در آمد کیا گیا ‘ اس سے پہلے کی تاریخ میں پاکستان نے کسی ایک سال میں زیا دہ سے زیا دہ گیارہ ارب ڈالر کا تیل درآمد کیا تھا ۔اس قدر زیا دہ مقدار میں پٹرول کیوں منگوانا پڑا ‘اس کی دو وجوہات ہیں‘ ایک یہ کہ گزشتہ برس ملک بھر میں خریدی جانے والی نئی گاڑیوں کی ریکارڈ تعداد تھی جو114765 تک پہنچ گئی ۔ اگر موجودہ حکومت کے تین برس میں گاڑیوں کی مارکیٹ میں آنے والی تعداد کا گزشتہ حکومت سے موازنہ کیا جائے تو اس سے پہلے پاکستان میں صرف ایک سال میں سڑکوں پرنئی آنے والی ہر قسم کی گاڑیوں کی زیادہ سے زیا دہ تعداد67ہزار تھی۔ اس طرح گزشتہ کسی بھی حکومت کا موجودہ دور سے مقابلہ کیا جائے تو یہ فرق 47765 ہو جاتا ہے۔ سوا لاکھ نئی گاڑیاں جب سڑکوں پرآئیں گی تو ان کیلئے پٹرول اور ڈیزل کی ضرورت پوری کرنے کیلئے پاکستان کو زیادہ پٹرول بھی درآمد کرنا پڑا اور وہ بھی ایسے وقت میں جب عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی فی بیرل قیمت95 ڈالر تک جا پہنچی تھی جبکہ اس سال کے آغاز میں روس یوکرین چپقلش کے سائے میں پٹرولیم کی قیمتیں130 ڈالر کو چھو رہی ہیں ۔ جب خام تیل 90 ڈالر فی بیرل تھا تو پاکستان کو اپنی تاریخ میںپہلی مرتبہ 18 ارب ڈالر ادا کرتے ہوئے ملکی ضروریات پوری کرنے کیلئے تیل منگوانا پڑا۔
پاکستا ن میں گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ رواج چلا آ رہاہے کہ پٹرول کی قیمت اگر ایک روپیہ بھی بڑھ جائے تو سبزی والے سے لے کر رکشے والے تک اورہر دکاندار اور تاجر ہی نے نہیں بلکہ صنعت کار اور منڈی والے بھی اپنے دام بڑھا دیتے ہیں ۔ اب ایسے میں جب عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں گزشتہ حکومتوں کے مقابلے میں چار گنا بڑھ گئی ہوں تو ظاہر ہے کہ اس کا اثر پاکستان کے ہر گھر اور کچن تک لازمی پہنچے گا اور یہی وہ وجہ ہے جو عوام کو مہنگائی کا شکار کر تی ہے۔ اب اگر پاکستان کا کسی دوسرے ملک سے موازنہ کرتے ہوئے یہ کہا جائے کہ امریکہ‘ دبئی یا برطانیہ ‘ فرانس اور جرمنی میں تیل کی قیمتیں زیا د ہ ہیں تو ان کی کمائی اور تنخواہیں بھی پاکستان کے مقابلے میں کئی گنازیا دہ ہیں۔ عوام کا یہ اعتراض درست ہے لیکن دیگر مالک کا ٹیکس اکٹھا کرنے کا پیمانہ بھی ہم سے کئی گنا زیا دہ ہے ‘اس کیلئے ہمیں زیا دہ دور نہیںبلکہ اپنے ارد گرد کا جائزہ لینا ہو گا۔اگر کسی نے 2018ء سے پہلے کوئی گھر ‘دیوار یا کسی بھی قسم کی کوئی تعمیراتی کام کروایا ہے تو وہ جانتا ہے کہ اس وقت وہ مزدور کو کتنی دیہاڑی دیتا رہا تھا اور آج بلا شبہ وہی مزدور جو چار سال پہلے سات سے آٹھ سو روپے دیہاڑی لیا کرتا تھا اب بارہ سو روزانہ کما رہا ہے۔