روس کو منانے سے متعلق کوششیں ناکام رہی ہیں۔ یوکرین کو اپنا حصہ بنانے کی دُھن میں وہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ روسی جارحیت نے ایک دنیا کو خلجان میں مبتلا کردیا ہے۔ پریشانی صرف چھوٹے اور کمزور ممالک کو لاحق نہیں‘ بڑی طاقتیں بھی الجھن سے دوچار ہیں۔ اُن کی بھی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اب ایسا کیا کریں جس سے معاملات قابو میں آئیں۔
روس کے معاملے میں مغرب کا رویہ تماشائی والا رہا ہے۔ چھوٹے اور کمزور ممالک کو دبوچنے اور تاراج کرنے کا معاملہ تھا تب مغرب کے بیشتر ممالک ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہوگئے تھے۔ دہشت گردوں کے نام نہاد ٹھکانے ختم کرنے اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے نام نہاد ہتھیاروں کو تلف کرنے کے نام پر مغربی دنیا نے افغانستان اور عراق کو مکمل طور پر تباہ کردیا۔ یہ بھی صریح جارحیت ہی تھی۔ افغانستان نے کسی کا کیا بگاڑا تھا اور عراق نے کون سی تباہی مچادی تھی۔ مسلم دنیا کو نشانے پر لے کر مغرب نے صدیوں سے پروان چڑھ رہی نفرت کا کھل کر اظہار کیا یعنی صلیبی جنگوں کا بدلہ لیا۔ روس کو منانے کی کوششیں ناکام رہیں اور اُس نے اپنی مرضی کے مطابق جارحیت کا ارتکاب کیا۔ چین نے اس کا ساتھ دیا اور پاکستان بھی بظاہر اس کی حمایت ہی کرتا دکھائی دیا۔ یورپی یونین اور امریکا نے دباؤ ڈال کر روس کے خلاف بیان دلوانے کی کوشش کی مگر پاکستان نے اس معاملے میں پڑنے سے انکار کردیا۔ امریکا اور یورپ نے روس پر پابندیوں عائد کی ہیں‘ روسی کاروباری اداروں سے لین دین پر بھی قدغن لگائی جارہی ہے۔ چین نے روس پر عائد کی جانے والی پابندیوں کی مخالفت کی ہے۔ وہ اب تک روس کا طرف دار دکھائی دے رہا ہے۔ چین نے ہمیشہ تجارت و سرمایہ کاری کو اہمیت دی ہے۔ اب بھی وہ اپنے معاشی مفادات کو داؤ پر لگانا نہیں چاہے گا مگر اتنا ضرور ہے کہ وہ روس کے معاملے میں مغرب کے مقابل کھڑا ہے۔ دنیا بھر کے میڈیا میں ایک نئے عالمی نظام کی بات ہو رہی ہے۔ امریکا اور مغرب کا لایا ہوا عالمی نظام ناکام ہوچکا ہے کیونکہ ان دونوں خطوں نے صرف اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کو ترجیح دی۔
یوکرین پر روس کی لشکر کشی کے نتیجے میں معیشتوں پر جو دباؤ مرتب ہوسکتا تھا وہ ہوچکا ہے۔ کئی ممالک انتہائی پریشانی کی حالت میں ہیں کیونکہ عالمی منڈی میں خام تیل کے نرخ بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ نرخ پہلے ہی کم نہ تھے۔ پھر کورونا کی وبا نے دو سال تک ناک میں دم کیے رکھا۔ خدا خدا کرکے اُس سے جان چھوٹی تو یوکرین کے بحران نے دنیا کو آلیا۔ عالمی معیشت ابھی ایک مصیبت سے نمٹ کر سنبھلنے بھی نہیں پاتی کہ کوئی اور مصیبت نازل ہو جاتی ہے۔ یہ سب کچھ موجودہ کمزور عالمی نظام کو مزید خرابیوں کی طرف لے جارہا ہے۔
یہاں ذہن کے پردے پر یہ سوال ابھرتا ہے کہ امریکا اور یورپ اس وقت روس کو ولن قرار دینے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں تو کیا وہ خود ہیرو ہیں؟ ان دونوں خطوں نے بھی تو مل کر کم و بیش سات عشروں تک دنیا بھر میں خرابیاں پیدا کی ہیں‘ کئی ممالک بلکہ خطوں کو لوٹا اور برباد کیا ہے۔ کیا یورپ اور امریکا یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ انہوں نے دنیا کو بہتر بنانے میں اپنا کردار بھرپور انداز سے ادا کرنے کی کوشش کی ہے؟ اگر یہ دعویٰ وہ کر بھی بیٹھیں تو حقائق کچھ اور کہتے ہیں‘ ٹریک ریکارڈ کچھ اور بتاتا ہے۔ ان دونوں خطوں نے مل کر دنیا بھر کے کمزور اور پس ماندہ خطوں میں جو شدید خرابیاں پیدا کیں اُن کے لیے ذمہ دار ٹھہرائے جانے سے یہ بچ نہیں سکتے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کوئی بہت پرانی بات تو نہیں کہ لوگ بھول گئے ہوں۔ کس طرح پورے مغرب نے مل کر ایک نہتے‘ کمزور اور پسماندہ ملک کو گھیرا تھا اور پھر دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کے نام پر بزرگوں‘ خواتین اور بچوں تک کو نہیں بخشا گیا تھا۔ کیا امریکا اور یورپ کے عوام اپنی حکومتوں کے یہ گھناؤنے کرتوت بھول گئے؟ جن کی صحت بہت اچھی ہو اُن کی یادداشت اتنی کمزور تو نہیں ہوسکتی کہ محض دو عشروں کے دوران اپنے تمام کرتوت بھول جائیں۔
روس جو کچھ کر رہا ہے اُس کی تحریک امریکا اور یورپ ہی سے ملی ہے۔ ان دونوں خطوں نے نصف صدی سے بھی زائد مدت تک ایک دنیا کو پریشان کیا۔ اُن کے وسائل لُوٹے‘ حکومتوں کے تختے الٹ کر اپنی مرضی کے کٹھ پتلی حکمران نصب کیے۔ یہ عمل اُن کے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تقویت بہم پہنچانے اور تحفظ فراہم کرنے کی خاطر تھا۔ اُن کی دیکھا دیکھی اب روس میدان میں نکلا ہے۔ اب دنیا بھر کے کمزور ممالک اپنے طاقتور پڑوسیوں کے حوالے سے پریشان ہیں۔ اُنہیں ایسا لگتا ہے کہ کسی بھی وقت کوئی بڑی کارروائی ہوگی اور اُن کا وجود داؤ پر لگ جائے گا۔ آج کی دنیا میں جتنی بھی خرابیاں دکھائی دے رہی ہیں اُن کی پشت پر مغرب کی خود غرضی دکھائی دے گی۔ امریکا اور یورپ نے دنیا کو اپنی مٹھی میں بند کرنے کی کوشش میں کئی ممالک اور خطوں کا وہ حشر کیا ہے کہ اب وہ معیاری زندگی کے لیے عشروں تک تیار نہیں ہو پائیں گے۔ عرب دنیا قدرے خوش حال تھی مگر امریکا نے اپنے اسلام دشمن ایجنڈے کی تکمیل کے لیے بہانے گھڑے اور پورے خطے کو تباہی سے دوچار کردیا۔ اب عراق‘ شام‘ لیبیا‘ یمن ... سبھی بدحال ہیں۔
امریکا اور یورپ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ روس اور چین مل کر دنیا کو تباہی کی طرف لے جارہے ہیں۔ یہ بھی دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ چین نے معیشت کے میدان میں خود کو منوانے کے لیے چار عشروں تک ان تھک محنت کی ہے۔ اب اُس کے لیے کچھ حاصل کرنے کا وقت آیا ہے تو امریکا اور یورپ مل کر روس کے اور دیگر معاملات میں گھسیٹ کر اُسے بدنام اور پریشان کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ روس نے یوکرین کے خلاف جو کچھ کیا ہے وہ اخلاقی اعتبار سے بالکل غلط ہے اور اس کے نتیجے میں جو تباہی مچی ہے اُس کا بھی کوئی جواز نہیں تھا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ روس کی لشکر کشی سے پوری دنیا میں ہلچل مچی ہے۔ معیشتیں چونکہ آپس میں جڑی ہوئی ہیں اس لیے ڈومینو ایفیکٹ کا معاملہ نظر آتا ہے یعنی کہیں کوئی ایک معاملہ بگڑتا ہے تو پھر معاملات بگڑتے ہی چلے جاتے ہیں۔ روس نے یوکرین پر چڑھائی کی ہے تو دنیا بھر میں معیشتوں پر بحرانی کیفیت نے چڑھائی کردی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کے مہنگا ہونے سے کھانے پینے کی اشیا بھی مہنگی ہوگئی ہیں اور دیگر اشیا و خدمات کا معاملہ بھی گڑبڑا گیا ہے۔
جنگ چاہے کسی نے چھیڑی ہو‘ تباہی ہی لاتی ہے۔ جنگ کے بطن سے ہلاکتیں ہی برآمد ہوتی ہیں‘ تباہی اور بربادی ہی باہر آتی ہے۔ یوکرین کے بحران سے بھی کچھ اچھا برآمد ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ ہاں‘ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس طور روس کے خلاف مغرب نے دنیا کو ایک پیج پر لانے کی کوشش کی ہے بالکل اُسی طور مغربی عسکری مہم جوئیوں کے خلاف بھی دنیا کو ایک پیج پر لانے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ اگر روس کا محاسبہ ہوسکتا ہے‘ اُس پر پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں تو پھر امریکا اور یورپ پر بھی پابندیوں کا اطلاق کیا جانا چاہیے۔ ان دونوں خطوں نے مل کر مسلم دنیا اور دیگر خطوں میں جو تباہی مچائی ہے اُس کا بھی حساب لیا جانا چاہیے۔ جنگی جرائم کے ٹربیونلز امریکا اور یورپ کے جنگی جرائم کے حوالے سے بھی تشکیل دیے جانے چاہئیں۔ جب حساب لینا ہے تو سب سے لیا جائے۔ مغرب اب بھی بھولا بن رہا ہے۔ وہ دنیا کو یہ تاثر دینا چاہ رہا ہے کہ روس اور اس کے ہم نوا ممالک دنیا بھر میں خرابیاں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ چین تو معیشت کی راہ پر چل کر مضبوط ہوا ہے۔ اُس کے خلاف پروپیگنڈا بلا جواز ہے۔ اور روس نے بھی اگر یوکرین پر چڑھائی کی ہے تو اُسے ایسا کرنے پر امریکا اور یورپ کی پالیسیوں ہی نے اُکسایا ہے۔ اگر حساب لینے کا وقت آہی گیا ہے تو پھر سب سے حساب لیا جائے۔ روس اور چین سے بہت پہلے امریکا اور یورپ کو نصف صدی کے کالے کرتوتوں کا حساب دینا ہے۔ بصورتِ دیگر جنگیں روکی نہ جاسکے گی۔