تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     12-03-2022

وزیراعظم یا وزیراعلیٰ پنجاب؟

اقتدار کے دن پرچھائیوں اور بادلوں کی مانند ہوتے ہیں۔ پلک جھپکتے ہی بیت جاتے ہیں اور حکمرانوں کو پتا بھی نہیں چلتا۔ پھر سیاست کے ساحل پر چلتی سرکش ہواؤں کی سرسراہٹ اور سمندر کا بے ہنگم شور بڑھ جاتا ہے۔ کان پڑی آواز سنائی دیتی ہے نہ اقتدار کے ایوانوں میں چلی جانے والی چالیں سمجھ آتی ہیں۔ دم رخصت ہر حکمران کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ اقتدار کے ساتھی مرجھائے ہوئے پھولوں کی طرح شاخ سے گرنے لگتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے پھل اور تمام پتے جھڑ جاتے ہیں۔ پھرصاحبِ مسند اپنے غم کو سکوت کے پروں میں چھپانے کی سعی کرتا ہے۔ یہ سیاسی کیفیت کسی کے لیے بہار کی امید ہوتی ہے اور کسی کے لیے خزاں کی دستک۔
سیاست کے سینے میں دل ہوتا ہی کب ہے جو کسی ایک کے لیے دھڑکے؟ دل کی جگہ پتھر ہوتا ہے اور پتھر بھی وہ جو چٹان سے ٹوٹا ہوا ہو۔ آپ خود فیصلہ کریں کہ اگر کسی گھر، کارخانے یا دکان میں آگ بھڑک اٹھے تو کیا آگ لگانے، بجھانے اور لوٹ مار کرنے والوں کو ایک ترازو میں تولا جا سکتا ہے؟ اپوزیشن اگر تحریک عدم اعتماد لے کر آئی ہے تو ان کے عزائم سمجھ میں آتے ہیں۔ بھلا کب تک ایک پرندہ چشمے کے اوپر پھڑپھڑاتا رہے کہ پیاس اسے بے جان کر دے اور وہ پانی کے قریب بھی نہ جائے۔ کیوں؟ یہ انسانی فطرت اور اقتدار کے اصولو ں کے خلاف ہے۔ ازل سے ہی طاقت کا حصول سیاست دانوں کا مقصد اول رہا ہے۔ انہیں یہ طاقت دہلیز پر پڑی نظر آئے تو کبھی منہ نہیں موڑتے بلکہ مقناطیس کی مانند کھنچے چلے جاتے ہیں۔ یہی نہیں، حکومت بھی تحریک عدم اعتماد کا راستہ روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ کبھی ایک اتحادی کے در پر جاتی ہے اور کبھی دوسرے کی چوکھٹ پر حاضری دیتی ہے۔ کبھی اپنے ناراض ارکان کو مناتی ہے اور کبھی ترین گروپ کو رام کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اقتدار کا نشہ دنیا کے ہر نشے سے زیادہ ہوتا ہے‘ جسے ایک بار یہ لت لگ جائے تو وہ کبھی بھی اپنی جگہ چھوڑنا پسند نہیں کرتا۔ بھلے اسے اپنے اصولوں کی قربانی دینا پڑے یا کسی وعدے سے انحراف کرنا پڑے۔ وہ بنا سوچے سمجھے سب کچھ کر گزرتا ہے۔
اپوزیشن اور حکومت کے عزائم قابلِ فہم ہیں مگر ان کا کیا کریں جو بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا چاہتے ہیں۔ جو حکومت اور اپوزیشن کی مخاصمت کا فائدہ اٹھا کر پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ شنید ہے کہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ پر پہلے صرف قاف لیگ کی نظر تھی مگر اب ترین گروپ بھی پوری طرح متحرک ہو چکا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ بیچ چوراہے ہانڈی پھوٹی ہے تو ہمارے ہاتھ بھی کچھ آ جائے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کھیل میں اکیلے جہانگیر ترین ہی نہیں‘ کچھ اور افراد بھی کود پڑے ہیں۔ یوں گمان ہوتا ہے کہ وہ بھی کسی انہونی کے انتظار میں ہیں۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ کسی کو مسلم لیگ نون کی اشیر باد حاصل ہے‘ اسی لیے انہیں چودھری پرویز الٰہی کے مقابلے میں کھڑا کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسے سیاست کہیں گے یا موقع پرستی؟ اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش سمجھیں یا پارٹی سے بے وفائی؟ جو کل تک پنجاب حکومت کا حصہ تھے‘ آج پنجاب حکومت کے خلاف بیان بازی کر رہے ہیں۔ آپ اس وقت کیوں نہیں بولے؟ ایک عہدے کے بدلے خاموش کیوں رہے؟ اور سب سے بڑھ کر‘ اگر پنجاب حکومت عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے میں ناکام رہی ہے تو یہ خود کو بری الذمہ قرار کیسے دے سکتے ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ علیم خان اور جہانگیر ترین کی پی ٹی آئی کے لیے خدمات بہت زیادہ ہیں۔ دونوں نے پارٹی پر پیسہ خرچ کیا اور توانائیاں بھی۔ اس سب کے باوجود ہو سکتا ہے علیم خان کو غلط طور پر جیل بھیجا گیا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ جہانگیر ترین پر غلط مقدمات بنائے گئے ہوں مگر سوال یہ ہے کہ مقدمات بنائے کس نے اور کیوں؟ اگر ان دونوں حضرات کو معلوم ہے تو نام کیوں نہیں لیتے؟ پارٹی کے خلاف سوچنا کہاں کی سیاست ہے؟ اپنے گھر کو آگ کیسے لگائی جا سکتی ہے؟
پنجاب کی بڑی کرسی کی تبدیلی کی خبریں گردش میں تھیں کہ اپوزیشن نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی۔ خدا جانے یہ عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوگی یا نہیں مگر اس تحریک کا پہلا نقصان یہ ہوا ہے کہ سیاست میں بدتمیزی اور الزام تراشی کا طوفان آ گیا ہے۔ دونوں اطراف سے دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور عدم اعتماد کے بعد کی صورت حال کو لے کر ڈرایا جا رہا ہے۔ بات چور‘ ڈاکواور نااہل سے بڑھ کر مخالفین کے گھروں تک جا پہنچی ہے۔ خدا کی پناہ! غیر سیاسی گھریلو خواتین کو بھی نہیں بخشا جا رہا جبکہ اداروں کو بھی اس میں رگیدا جا رہا ہے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ماضی کے بیانات پریس کانفرنسز میں چلائے جا رہے ہیں۔ کوئی غداری کے الزامات لگا رہا ہے تو کوئی غیر ملکی ایجنٹ ہونے کا طعنہ ہوا میں اچھال رہا ہے۔ یہ صورت حال افسوسناک بھی ہے اور قابلِ تشویش بھی۔ اگر اسے ہی سیاست کہتے ہیں تو وہ سیاست کہاں ہے جسے عبادت کہا جاتا ہے؟ جے یو آئی (ایف) نے تو ایک قدم آگے بڑھ اپنے رضاکاروں کو پارلیمنٹ لاجز میں اپوزیشن ارکان کی 'حفاظت‘ کے لیے بھیج دیا جس کے بعد پولیس کو آپریشن کرنا پڑا۔ بھلا یہ سب کرنے کی ضرورت کیا تھی؟
اب سوال یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کا کیا بنے گا؟ حکومتی ناراض ارکان اپوزیشن کے ساتھ چلیں گے یا حکومت کے؟ اتحادی اپنے قول پر ڈٹے رہیں گے یا یوٹرن لے لیں گے؟ میرا احساس ہے کہ پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا ہے۔ حکومت اپنے ناراض ارکان کو منانے میں ناکام رہی ہے اور اتحادیوں کا بھی ادھر ادھر ہونے کا اندیشہ موجود ہے۔ اگر اپنے ناراض ارکان کو منا لیا جاتا تو کیا وہ فلورکراسنگ کے قانون کو لے کر اتنا غلط پروپیگنڈا کیا جاتا؟ حکومت کے قانونی ماہرین اس شق کی منطق سے عاری تشریح کر رہے ہیں۔ حکومت نے پلان بنایا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ والے دن حکومت کا صرف ایک نمائندہ ایوان میں آئے گا۔ اگر ناراض ارکان نے اسمبلی جانے کی کوشش کی تو تحریک انصاف کے چیئرمین فوری طور پر ان کے خلاف ریفرنس سپیکر کو بھیج دیں گے جس کے بعد ناراض ایم این ایز کو ووٹ دینے سے روک دیا جائے گا یا پھر سپیکر ان کے ووٹ کو غیر قانونی قرار دیں گے‘ جبکہ فلورکراسنگ سے متعلق آرٹیکل 63-A میں صاف لکھا ہے کہ ''ووٹ دینے کے بعد‘‘ منحرف ارکان کے خلاف کارروائی شروع ہو گی۔ ہر صاحب عقل حیران ہے کہ سپیکر کسی رکن قومی اسمبلی کو ایوان میں آنے سے کیسے روک سکتا ہے؟ اور اگر کوئی ممبر پارٹی کے منع کرنے کے باوجود اسمبلی میں آ جاتا ہے تو یہ جرم کیسے ہو گیا؟ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ دنیا کا کون سا ملک ہے جہاں قانون توڑے بنا ہی سزا دے دی جاتی ہو؟ کسی بھی حکومتی ایم این اے کا تحریک عدم اعتماد کے موقع پارٹی پالیسی سے ہٹ کر ووٹ دینا اگرچہ ایک تادیبی مگر قانونی عمل ہے۔
میں نے ایک حکومتی شخصیت سے پوچھا کہ وزیراعظم پہلے جائیں گے یا وزیراعلیٰ پنجاب؟ حکومتی شخصیت کا جواب نہایت دلچسپ تھا: اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو وزیراعلیٰ پنجاب اور صدرِ پاکستان بھی نہیں بچیں گے اور اگر وزیراعظم صاحب سرخرو ہو گئے تو وزیراعلیٰ پنجاب کی قربانی ناگزیر ہو جائے گی۔ شنید ہے کہ وزیراعظم کی کرسی کو بچانے کے لیے ''کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کی پالیسی اپنانے کا فیصلہ ہو چکا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved