تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     13-03-2022

حسن کا خبط

حسین ہونا دنیا کی بڑی نعمتوں اور دولتوں میں سے ایک ہے۔ حسین بندے کی اپنی ایک گریس ہوتی ہے اور پوری دنیا اس کی طرف کھنچی چلی جاتی ہے‘ اور اگر بندہ حسین ہونے کے ساتھ ساتھ بڑا سلیبرٹی ہو، بڑا کرکٹر، کپتان اور پھر ملک کا وزیر اعظم بھی ہو تو یقینا وہ دوسرے لوگوں کی شخصیت پر نیگٹو کمنٹس کرنا یا ان کا مذاق اڑانا اپنا پیدائشی حق سمجھ لیتا ہے۔
عمران خان پہلے ایسے نہیں تھے۔ شرمیلے تھے۔ بات کرتے جھجکتے تھے‘ لیکن سیاست نے ان کا جھاکا توڑ دیا۔ اب انہوں نے ایک نیا ٹرینڈ سیٹ کیا ہے کہ جو بندہ انہیں پسند نہیں‘ اس کی شکل، لہجے یا شخصیت کا سرعام مذاق اڑاتے ہیں۔ انہیں اس بات کا احساس ہے کہ مخالفین ان کی شکل و صورت کا مذاق نہیں اڑا سکتے کیونکہ خدا نے انہیں حسین انسان کے طور پر پیدا کیا ہے۔
یہ خدا کی دین ہے کہ وہ کس کو کیا شکل و صورت یا سیرت دے کر اس دنیا میں بھیجتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو دنیا میں اب بھی ان باتوں پر بحث ہوتی ہے کہ گورے رنگ کی قومیں خود کو سیاہ فام یا سانولے رنگ کی قوموں سے بالاتر سمجھتی ہیں کیونکہ ان کا یقین ہے کہ خدا نے انہیں کمتر پیدا کیا ہے۔ انسان کا یہ تکبر اور غرور بڑا پرانا ہے کہ اگر وہ دوسروں سے بہتر قسمت لے کر پیدا ہوا ہے تو اسے یہ حق مل گیا ہے کہ اپنے ہی جیسے انسانوں کو کمتر سمجھے یا وہ یہ تصور کر لے کہ خدا نے اسے کسی بڑے کام کے لیے پیدا کیا ہے اور اب وہ کسی کو مسکرا کر قتل بھی کر دے تو اس سے پوچھ گچھ نہیں ہونی چاہیے۔ ہندوستان میں تو باقاعدہ انسانوں کو تین چار طبقات میں تقسیم کیا گیا تھا کہ کون برہمن ہے اور کون شودر۔ پاکستان ہزاروں ذاتوں میں تقسیم ہے اور ہر ذات یا قوم خود کو دوسری سے افضل سمجھتی ہے۔ انسان کے اندر احساس برتری ایک سطح پر پہنچ کر احساس کمتری کی بدترین شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ہر انسان خود کو دوسرے سے بہتر تصور کرتا ہے اور یہیں سے نسل پرستی شروع ہوتی ہے۔
انگریزوں نے دہائیوں تک افریقہ کے سیاہ فام انسانوں کو جہازوں میں بھر بھر کر جدید دنیا میں غلاموں کے طور پر بیچا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کا رنگ انہیں یہ حق دیتا ہے کہ وہ دوسروں پر حکمرانی کریں اور دوسرے انہیں سرو کریں۔ ان مظلوم لوگوں نے اپنے رنگ کی وجہ سے بہت سزائیں بھگتیں اور اب بھی بھگت رہے ہیں۔ امریکہ میں ہم نے دیکھا کہ کیسے ایک سفید فام پولیس مین نے ایک سیاہ فام کی گردن پرگھٹنا رکھ کر اسے مار ڈالا تھا‘ جس پر پورے امریکہ میں کئی روز تک ہنگامے ہوتے رہے۔
سوال یہ ہے عمران خان‘ جو اس ملک کے اب وزیراعظم ہیں‘ کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے مخالفین پر برے کمنٹس کریں؟ وہ ان کی کرپشن یا بدعنوانی پر ڈٹ کر حملے کریں لیکن کسی کی شخصیت کا مذاق اڑانا مجھے سمجھ نہیں آتا۔ یا تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہر انسان کو ایک چوائس ملتی ہے کہ اس نے کہاں پیدا ہونا ہے، اس کے والدین کون ہوں گے، بھائی بہن، علاقہ، ملک، زبان یا شکل کیسی ہو گی۔ انہوں نے چوائس استعمال کی کہ اچھے گھر پیدا ہوئے‘ اچھی شکل پائی اور وزیراعظم تک بن گئے‘ جبکہ باقی لوگوں نے وہ چوائس استعمال نہیں کی اور وہ اتنے جاذبِ نظر پیدا نہیں ہوئے۔ وہ آصف زرداری، شہباز شریف یا مولانا فضل الرحمن کی شخصیت کا مذاق اڑانے کے لیے جو کمنٹس کرتے رہتے ہیں‘ وہ اپنی جگہ لیکن آپ نے مونس الٰہی کا وہ ٹی وی کلپ تو سنا ہوگا جس میں وہ کہہ رہے تھے: عمران خان اس لیے مجھے وزیر نہیں بنا رہے کہ انہیں میری شکل پسند نہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی بھی یہ شکایت کرتے پائے گئے کہ عمران خان پیٹھ پیچھے ایسے کمنٹس ان کی شخصیت پر کرتے ہیں‘ جنہیں سن کر تکلیف ہوتی ہے۔
بات وہی ہے کہ شاید خان صاحب کے اندر یہ بات گھر کر چکی ہے کہ خدا نے انہیں خاص پیدا کیا ہے۔ بچپن سے اب تک وہ خوش قسمت رہے ہیں اور گزرتے وقت کے ساتھ ان کی قسمت میں تیزی آئی ہے۔ انہوں نے اپنی ستر سال کی عمر تک عروج ہی دیکھا ہے‘ زوال نہیں دیکھا‘ لہٰذا وہ خود کو اب ایک سپرمین سمجھتے ہیں‘ جو دوسرے لوگوں سے بہت اعلیٰ اور مختلف ہے۔ آپ نوٹ کریں کہ شاید اسی لئے ان کی ہر تقریر 'میں‘ سے شروع ہوتی ہے اور 'میں‘ پر ختم ہوتی ہے۔ ان کے اندر نرگسیت اتنی بھر چکی ہے کہ کسی فنکشن میں پہلے سب مقررین مل کر ان کی بھرپور تعریفیں کرتے رہیں تو پھر بھی خان صاحب کو لگتا ہے‘ کوئی کمی رہ گئی ہے اور وہ پھر اگلا ایک گھنٹہ وہ خود اپنی تعریفیں کرتے ہیں اور اپنی خوبیاں قوم کو بتاتے ہیں۔ یہ کام تقریباً روز ہوتا ہے اور اگلے دن وہیں سے شروع ہوتا ہے جہاں گزشتہ روز رکا تھا۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب بلاجھجک‘ بغیر سوچے سمجھے کہ وزیر اعظم ہیں‘ وہ کسی کو کچھ بھی نام دے دیتے ہیں۔ اور تو اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ان سے کہنا پڑگیا کہ وہ عام جلسوں میں مخالفین کے نام بگاڑ کر نہ لیا کریں جس پر انہوں نے باقاعدہ جلسے میں اعلان کیا کہ انہیں آرمی چیف نے منع کیا‘ اس کے باوجود انہوں نے متعدد بار مولانا کو اسی نام سے پکارا جس سے منع کیا گیا تھا۔ خان صاحب شاید یہ سمجھنے سے قاصر ہیں وہ جس کرسی پر بیٹھے ہیں اس کی اپنی ایک عزت ہے‘ ایک گریس ہے۔ اس پر بیٹھے شخص کو اپنی سیاسی یا ذاتی دشمنیوں سے نکل کر بائیس کروڑ لوگوں کی نمائندگی کرنی ہے۔ پوری دنیا اسے دیکھ رہی ہوتی ہے۔ ایک طرف وزیراعظم خود کہہ رہے ہیں کہ وزیراعظم قوم کا باپ ہوتا ہے اور قوم کی تربیت اس کی ذمہ داری ہے۔ اب یہ قوم کی تربیت ہورہی ہے کہ جب بھی بات کرتے ہیں‘ دوسروں کی شخصیت پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ اگر آرمی چیف وزیراعظم کو مشورہ دے رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں بھی یہی احساس پایا جاتا ہے کہ ان کا وزیراعظم کیسا ہونا چاہئے جسے انہوں نے سیلوٹ کرنا ہے۔
اگر کسی وزیراعظم نے وہی گلی محلے یا تھڑے والی زبان استعمال کرنی ہے تو پھر وہ اتنی بڑی کرسی پر کیوں بیٹھا ہے؟ اگر سربراہ حکومت بھی عام آدمی کی طرح سطحی گفتگو کرتا ہے یا شخصیت پر مزاحیہ تبصرہ کرتا ہے تو پھر اسے عام آدمی کی سطح پر آ جانا چاہئے۔ جب عوام کسی کو وزیراعظم کی کرسی پر بٹھاتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ انسان ان سے ہر لحاظ سے بہتر ہے۔ خدا نے اسے ان سے زیادہ عقل، فہم، کردار اور قوتِ گویائی بخشی ہے۔ دنیا بھر میں اسی لیے پبلک فگرز کے خلاف سکینڈلز آ جائیں تو انہیں فوری طور پر استعفیٰ دینا پڑتا ہے کہ اب وہ خاص سے عام لوگ ہوگئے ہیں‘ اور عام انسان اپنے جیسے انسانوں پر حکومت کا کوئی حق نہیں رکھتا۔ اگر حکمران نے بھی عام انسانوں والی حرکتیں یا باتیں کرنی ہیں تو پھر اسے چاہئے کہ تخت سے نیچے اتر آئے۔
عمران خان کا جس طرح کا ایکسپورز تھا یا ان کی کلاس تھی اس کے بعد ان سے بہت توقعات تھیں کہ وہ اس عہدے کی عزت میں اضافہ کریں گے‘ لیکن جس طرح کی لینگویج استعمال کی جا رہی ہے اس نے باقی چھوڑیں ان کے اپنے حامیوں کو بھی پشیمان کیا ہے۔ بات وہی کہ خان صاحب ایک خوش قسمت انسان رہے ہیں لہٰذا اب یہ اپنا حق سمجھنے لگ گئے ہیں کہ جس کو چاہیں جو کہہ دیں‘ جس کی چاہیں شخصیت یا گفتگو کا مذاق اڑائیں۔
ویسے یہ بات طے ہے کہ خان صاحب شدید احساس برتری کا شکار ہیں۔ ان کی باتوں سے تفاخر واضح جھلکتا ہے۔ حیران ہوتا ہوں میرے یا آپ جیسا کوئی انسان اتنی خوشامد، خود پسندی، بے پناہ نرگسیت اور احساس برتری کے ساتھ کیسے ایک نارمل انسان رہ سکتا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved