جو سیاسی اُچھل کود قوم دیکھ رہی ہے وہ حیرت انگیز اور پریشان کن سہی مگر غیر متوقع ہرگز نہیں۔ جو حالات پر نظر رکھتے ہیں وہ واقعات کو جوڑ کر سلسلۂ واقعات کی ماہیت اور وقعت کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ کسی بھی معاملے میں سب سے اہم ہوتی ہے ٹائمنگ۔ ہمارے ہاں اپوزیشن نے حکومت کو ہٹانے کا بیڑہ جس انداز سے اور جس وقت اٹھایا ہے وہ قطعی غیر اہم نہیں۔ چند بنیادی امور کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ حکومت کو ہٹانے کے لیے یہی وقت کیوں منتخب کیا گیا۔ فروری کے اواخر میں جب یوکرین کا بحران سر اٹھانے لگا تھا تب خطے میں تھوڑی بہت ہلچل ہوئی۔ اِسی ہلچل کے دوران وزیر اعظم نے روس کے دورے کی ٹھانی۔ یہ بہت عجیب معاملہ تھا۔ پاکستان کے لیے ایسے نازک وقت روس کے ساتھ کھڑا ہونا انتہائی نوعیت کا اقدام محسوس ہوتا تھا۔ گویا مغرب کو یہ اشارہ دینا مقصود تھا کہ پاکستان اپنی پالیسیوں میں جوہری نوعیت کی تبدیلی کر رہا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ آج تک ہر بڑے علاقائی اور عالمی معاملے میں مغرب کی ہاں میں ہاں ملانے والا پاکستان راہ بدلنے کی تیاری کر رہا ہے۔
اب یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ مغربی طاقتیں کسی کو اپنے دائرۂ اثر سے آسانی سے نکلنے نہیں دیتیں۔ پاکستان کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ہمارے ہاں جب بھی حکومت کسی اور طرف دیکھنے لگتی ہے، مغرب کی طرف سے کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہوتا ہے جو ہمیں اُس کی طرف دیکھتے رہنے پر مجبور کرتا ہے۔ پاکستان کے لیے اس وقت عالمی حالات سے کہیں زیادہ اہم علاقائی صورتِ حال ہے۔ جنوبی ایشیا سے ملحق وسطی ایشیا میں روس کے اثرات بڑھ رہے ہیں۔ یوکرین کے بحران نے سب کچھ طشت از بام کردیا ہے۔ پاکستان نے اس بحران کے حوالے سے مغرب کو بتادیا کہ وہ روس کے ساتھ ہے۔ چین بھی روس کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہ سب کچھ مغرب کے لیے حیرت انگیز اور اُس سے زیادہ ناقابلِ قبول تھا اور ہے۔ پاکستان کے لیے پالیسی اوور ہال لازم ہوچکا ہے۔ امریکا اور یورپ کی ہمنوائی نے ہمیں آخر دیا کیا ہے کہ ہم اُن کی طرف ہی دیکھتے رہیں؟ کیا اب بھی ہوش کے ناخن نہیں لیے جائیں گے؟ وزیراعظم عمران خان نے جب روس جانے کا فیصلہ کیا تو مغرب کو پیغام مل گیا کہ سٹریٹیجک ویلیو کے اعتبار سے سونے کی چڑیا ہاتھ سے جانے والی ہے۔ اس موقع پر وہی ہوا جو ایسے مواقع پر بالعموم ہوا کرتا ہے۔ اِدھر پالیسی میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی کا عندیہ دیا گیا اور اُدھر مہروں کو سرکانے کا عمل شروع ہو گیا۔ مہرے اندرونی بھی تھے اور بیرونی بھی۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ اِدھر وزیراعظم نے ماسکو کے لیے رختِ سفر باندھا اور اُدھر اپوزیشن کی تمام اہم شخصیات نے وزیر اعظم کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک لانے لیے سر جوڑ لیے؟ سیاست میں کچھ بھی بے سبب نہیں ہوتا۔ ہر سرگرمی کا کوئی نہ کوئی مقصد اور کچھ نہ کچھ جواز ضرور ہوتا ہے۔ سیاست دان کوئی بھی قدم محض دل پشوری کے لیے نہیں اٹھاتے۔ اور پھر اتنا بڑا قدم؟ ایسی کوئی بھی سرگرمی پورے سیاسی کیریئر کو داؤ پر لگاسکتی ہے۔ بڑی سیاسی جماعتیں عدم اعتماد کی تحریک لانے سے پہلے دس بیس نہیں‘ سو بار سوچتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب یوکرین میں بحران نے بھرپور انداز سے سر اٹھایا، روس نے معاملات کو انتہائی درجے تک پہنچانے کی ٹھانی اور ہمارے وزیر اعظم نے ماسکو پہنچ کر قومی پالیسی میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی کا عندیہ دیا تبھی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کو درجۂ کمال تک پہنچانے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟
بھارت اب بھی مغرب کی جیب میں ہے۔ یوکرین کے بحران میں بھارت نے جو رویہ اختیار کیا وہ بہت حد تک مغرب نواز ہی کہلائے گا۔ روس کے خلاف مذمتی قرارداد کے لیے سلامتی کونسل میں رائے شماری کے وقت بھارت نے غیر جانبدار رہنا پسند کیا۔ وہ رند بھی رہنا چاہتا ہے اور اِس بات کا خواہش مند بھی ہے کہ جنت بھی ہاتھ سے نہ جائے۔ محض دس‘ پندرہ دن میں ایک بھارتی آبدوز کا پاکستانی پانیوں میں اندر تک آنا اور پھر ایک سپر سونک میزائل کا ''غلطی‘‘ سے چل جانا! کیا ان دونوں واقعات کو محض اتفاق سمجھ لیا جائے؟ عقل کچھ اور کہتی ہے۔ کیا پاکستان کو انتباہ کیا جارہا ہے؟ کیا ہمیں دھمکایا جارہا ہے کہ اگر کسی اور طرف جانے کی کوشش کی تو انجام سوچ لو؟ پاکستان کو بہت سے مواقع پر مغرب کی طرف سے شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دباؤ اس لیے ڈالا جاتا رہا کہ پاکستان کا رخ مغرب کی طرف ہی رکھا جائے‘ چاہے اِس کی بہت بھاری قیمت عوام کو بار بار ادا کرنا پڑے۔ اب کچھ گنجائش پیدا ہوئی ہے کہ پاکستان اپنی راہ تبدیل کرے تو اُس کی راہ میں روڑے اٹکانے کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔ سی پیک کے ذریعے چین سے جڑنے کے فیصلے پر بھی پاکستان کو مغرب کی طرف سے دباؤ کا سامنا رہا۔
سیاست اور سٹریٹیجک معاملات میں ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھایا جاتا ہے۔ اس بساط پر ہر چال دانش کا اظہار چاہتی ہے۔ جب معاملات آر یا پار کی منزل تک پہنچ جائیں تو پھر غلطی کی گنجائش برائے نام ہوتی ہے۔ وزیراعظم صاحب نے مغرب کی ڈگر سے ہٹ کر چلنے کی ٹھانی تو ہمارے ہاں اکھاڑ پچھاڑ شروع ہوگئی۔ کیا یہ سمجھا جائے کہ یہ اکھاڑ پچھاڑ شروع کرائی گئی ہے؟ جو کچھ نظر کے سامنے ہے اُس سے کہیں زیادہ پسِ پردہ ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ معاملات کی نوعیت ایسی ہے کہ جو کچھ پسِ پردہ ہے اُس سے متعلق درست اندازے قائم کرنے میں عوام بہت حد تک کامیاب ہوچکے ہیں! قوم حیران ہے کہ جب علاقائی و عالمی حالات ابتر ہیں، معیشتوں کا بُرا حال ہے تو پھر اپوزیشن کو حکومت کے گرانے کی ایسی جلدی کیوں پڑی ہے؟ کیا ایسے لمحات حکومت گرانے کے لیے موزوں ہوا کرتے ہیں؟ معیشت تو باقی دنیا کی طرح پاکستان کی بھی ڈانواں ڈال ہے۔ یوکرین کے بحران نے عالمی منڈی میں خام تیل کے نرخ اِتنے بڑھادیے ہیں کہ بڑی بڑی معیشتیں بھی پریشانی سے دوچار ہیں۔ طاقتور ممالک بھی بڑھتے ہوئے افراطِ زر سے پریشان ہیں۔ ایسے میں پاکستان کہاں کھڑا ہوتا ہے؟ قوم سوچے کہ اِن بحرانی لمحات میں سیاسی محاذ آرائی کیوں شروع ہوئی؟ کیا یہ سمجھا جائے کہ ایک بار پھر ہمارے سیاستدان اپنے محدود مفادات کی رَو میں بہہ گئے ہیں؟ ملک و قوم کا وسیع تر مفاد اُن کی نظر میں بالکل نہیں؟ خان صاحب سے لاکھ اختلافات سہی‘ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اس وقت حکومت کا تختہ پلٹنے سے نقصان صرف اور صرف ملک و قوم کا ہوگا۔ حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی سے فائدہ کسے پہنچ سکتا ہے؟ عوام کو؟ اُنہیں کیا ملنا ہے؟ وہ تو سدا کے حرمان نصیب ہیں۔ اُنہیں تو کسی بھی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ نے کبھی کچھ نہیں دیا۔ یہ وقت سیاسی خرابیوں کو اُن کی انتہا تک پہنچانے کا نہیں۔ قوم یہ دیکھنے کے لیے بے تاب ہے کہ ہماری قیادت اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے کے پیدا کردہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کس حد تک تیار اور سنجیدہ ہے۔ سیاسی قیادت کب بیدا ہوگی اور کب اپنے حصے کا کام کرنے کے بارے میں سوچے گی؟ جون ایلیا نے خوب کہا ؎
بے دِلی! کیا یوں ہی دن گزر جائیں گے
صرف زندہ رہے ہم تو مرجائیں گے!
محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اہلِ سیاست صرف زندہ رہنے کو زندگی سمجھ بیٹھے ہیں۔ یہ سوچ بدلنا ہوگی۔ سیاسی استحکام یقینی بنائے بغیر تو ملک میں کچھ بھی ممکن نہیں بنایا جاسکتا۔ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کا یہ سلسلہ جاری رہا تو ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں کیا جاسکے گا۔ کسی بھی منتخب حکومت کو میعاد پوری کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ کارکردگی کی بنیاد پر کسی حکومت کو تبدیل تو کیا جاسکتا ہے مگر اِس عمل کو کھیل نہ بنایا جائے۔ ہمارے ہاں عشروںحکومتیں گرانے کی روایت رہی ہے۔ یہ روایت اب ختم ہونی چاہیے۔ اپوزیشن کو اپنے حصے کا کام کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ قوم خلجان میں مبتلا ہے۔ اقتدار کے لیے اکھاڑ پچھاڑ سے ہٹ کر اُس کی راہ نمائی کی جائے۔