استاد کے سامنے ایک اپنا قول پیش کیا کہ دوسری شادی 'نشاطِ‘ ثانیہ ہوتی ہے۔
بس یہ کہنا تھا کہ ہماری شاعری کے استاد نے وہ رنگ پکڑا کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ ہم شعر بولتے جاتے‘ وہ اس میں مناسب ''ترمیم‘‘ کرتے جاتے، حالانکہ استاد محترم کا اور ان کا خلیفہ یعنی مابدولت کا جو شاعری میں مقام ہے‘ وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ انہوں نے پہلے دن ہی شاگردی میں لیتے وقت فرما دیا تھا کہ تم میرے محمد حسین آزاد ہو۔ پہلے تو ہم تھوڑا سا شرمندہ ہوئے مگر بعد میں بہت ہی شرمندہ ہوئے۔ فرمانے لگے: محمد حسین آزاد نے ایک تو اپنے استاد محمد ابراہیم ذوقؔ کا سارا کلام سنبھال کر محفوظ کیا، ثانیاً انہوں نے ذوقؔ کے مقابل غالب کو پرِ کاہ کے برابر بھی اہمیت نہ دی۔ بس تم بھی یہ بات اور سبق پلے باندھ لو، تم نے ہمیشہ میرا نام فیضؔ و فرازؔ اور ظفر اقبال کے ساتھ لینا ہے۔ ہم چونکے تو فرمانے لگے: ابے بیوقوف! رفتہ رفتہ ان کے ساتھ نام آنے سے لوگ مجھے استاد تسلیم کر لیں گے‘ جب ہم استاد کی شہرت پر فائز ہو گئے تو تمہارا نام بھی ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائے گا۔
پہلے ہمارے استاد اشعار کی پیروڈی پر برا مان جاتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ کسی شاعر کی پیروڈی اس کی توہین کے زمرے میں آتی ہے۔ وہ ''قیاس آرائیاں‘‘ کو ''قیاس رائیاں‘‘ کہتے آئے تھے اور نوشتۂ دیوار میں 'نون‘ کی حرکت استعمال نہیں کرتے اور نوشتہ بر وزن 'پوستہ‘ بولتے ہیں۔ استاد جو ہوئے۔
ایک دن فرمانے لگے کہ پیروڈی جائز ہے مگر اس کی ایک شرط ہے۔ ہم نے عرض کیا: وہ کیا استاد؟ فرمایا: ایسے پیروڈی کرو کہ شعر ہی اپنا ہو جائے۔ عرض کیا: وہ کیسے؟ فرمانے لگے: دیکھتے جائو مگر یاد رہے کہ کلام مرحومین شعرأ کا ہی ہونا چاہیے۔ بہت سارے ہمارے بھائی بند شعرأ مرحوم شعرا کو خاطر میں نہیں لاتے بلکہ خود کو ہی شاعرِ اعظم سمجھتے ہیں۔ آج سے ہم شاعرِ اعظم ہیں۔ ہم نے سرِ تسلیم خم کیا اور آمنا و صدقنا کہہ دیا۔ مجھے کہنے لگے: تم مشہور شعرأ کے شعر سناتے جائو‘ استاد اس میں تبدیلی کرتا جائے گا اور شعر کے مالکانہ حقوق کا دعویٰ بھی کر دیں گے۔
ہم نے ناصر کاظمی کی غزل‘ جو نور جہاں نے گائی ہے‘ کا مطلع سنایا:
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا
اس میں استاد نے تھوڑی سی تبدیلی کر دی۔ ''تبدیلی‘‘ ملاحظہ کریں:
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری داد تھی اب یاد آیا
اب اگرآپ کا دھیان اس تبدیلی کی طرف جائے جو حکومت کی وجہ سے آئی ہے‘ ا ور جہاں جائیں تبدیلی پر لوگ تبصرے کرتے ملتے ہیں‘ تو عرض ہے کہ تبدیلی ملکی حالات میں بھی نہیں آئی۔ ہمارے اور استاد کے بھی حالات دگرگوں ہیں۔ استاد شعر تبدیل کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں‘ کچھ کرنے اور کام کو اہمیت نہیں دیتے اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ رخصتی کا پورا اہتمام ہو چکا ہے۔
کسی زمانے میں اقبال ساجد کا بڑا غلغلہ تھا۔ ان کا یہ شعر زبان زد ِ عام ہوا تھا:
فراقؔ و فیضؔ و فرازؔ کچھ بھی نہیں
نئے زمانے میں ان کا جواز کچھ بھی نہیں
روایت ہے کہ فراز نے ہنستے ہوئے اقبال ساجد سے کہا کہ بھئی! میں تو خود نئے زمانے کا ہوں‘ میرا نام کیوں لیا؟ تب جواب ملا کہ آپ شعر کی شانِ نزول میں قافیے کی وجہ سے آئے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ شعر میں ایک آدھ تبدیلی سے ہی بہترین پیروڈی بنتی ہے۔ اب خدا جھوٹ نہ بلوائے‘ طبیعت رواں ہو گئی ہے اور اقبال ساجد کے شعر
جہاں بھونچال بنیادِ فصیل و در میں رہتے ہیں
ہمارا حوصلہ دیکھو ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں
کی پیروڈی ملاحظہ کریں:
جہاں قوال بنیادِ فصیل و در میں رہتے ہیں
ہمارا حوصلہ دیکھو ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں
اس کے بعد ہم استاد کے منہ کی طرف دیکھنے لگ پڑے۔ بولے:
دیکھتا کیا ہے مرے منہ کی طرف
قائداعظم کا پاکستان دیکھ
پاکستان سے یاد آیا‘ ہم سب نے سوچا تھا کہ 2018ء کے الیکشن تاریخ کا دھارا بدل دیں گے‘ جو نہیں ہو سکا ‘وہ اب ہو گا۔ جو کوئی نہیں کر سکا‘ ہمارا لیڈر کرے گا۔ جو خواب شاعرِ مشرق نے دیکھا تھا‘ اس کی تعبیر ملنے والی ہے‘ جو ناممکن تھا اب ممکن ہو جائے گا۔ ہم سکول میں‘ بچپن سے ہی بانگِ درا کی مشہورِ عالم دعا اسمبلی میں پڑھتے اور سنتے آئے تھے۔ ساری عمر اس دعاکی تعبیر کے سر تا پا منتظر رہے‘ مگر تبدیلی بھی شعروں میں پیروڈی کی تبدیلی سے زیادہ نہ آ سکی۔
استاد کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے دیوانِ غالب نہ صرف زبانی یاد کر رکھا ہے بلکہ وہ اس کی تشریح اور معانی سے بھی آگاہ ہیں۔ بس ایک ''بُسکہ‘‘کی سمجھ نہیں آئی۔ ہم نے تو کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ ایسے شاعر کو کوئی بھی کماحقہٗ سمجھ سکا ہو مگر اپنی غالبؔ سے محبت کا دعویٰ ضرور کرتے ہیں۔ اسی لیے اس ناردِ رُوزگار شاعر کا کلام برکت کے لیے گنگناتے بھی ہیں لطف اندوز بھی ہوتے ہیں۔ ہم نے عرض کیا کہ دیوانِ غالب میں کہیں 'بسکہ‘ کا لفظ نہیں آیا بلکہ یہ کوئی لفظ ہی نہیں ہے۔ ہمیں اپنی کم علمی کا اعتراف ہے مگر ان کی استادی کے کیا کہنے۔ ہم اگر غالب ؔکا وہ شعر سنا دیں جس میں محیر العقول لفظ آیا ہے تو شاید کچھ کہہ سکیں۔ اب کیا کہیں شعر تو وہ تھا جس پر صدیاں بیت گئیں اورلوگ اب بھی سر دھنتے ہیں۔ استاد نے کہا: نامعقول! تم نے شعر نہیں سنا؟
بسکہ مشکل ہے ہر اک کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
اسی کو استاد موصوف ''بُسکہ‘‘ پڑھ رہے تھے۔
ایک دن گویا ہوئے کہ ہم نے فرازؔ کے کلام میں کی اغلاط دیکھی ہیں؟ اب ہمارا ماتھا ٹھنکا اور ہمہ تن گوش ہوئے ۔ کہنے لگے:
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فرازؔ
حالانکہ تکلف کی جگہ ''تخلص‘‘ استعمال کیا جاتا تو شعر چست ہو جاتا۔ ''وہ کیسے ؟‘‘ ہم رہ نہ سکے تو پوچھ لیا۔ بولے: شعر ہونا چاہیے تھا:
تم تخلص کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فرازؔ
دوست ہوتا نہیں 'ایک‘ ہاتھ ملانے والا
داغ کے اشعار پر بھی پیروڈی اور تصرف کی اجازت فرما دی۔ احتراماً آنکھیں بھیگ گئیں۔ ساری رات جاگ کر حضرتِ داغ کے چند اشعار پر ہاتھ صاف کیا۔ تڑکے استاد کی بزم میں حاضر ہوئے۔
استاد صاحب مسکرائے اور ارشاد فرمایا: عنایت کرو میاں! ہمارے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے‘ ہمیں 'عنایت‘ کرنے کا کہہ رہے ہیں استاد۔ خدا کا شکر ادا کیا‘ ورنہ ہم کس قابل تھے۔ شعر پیش کرنے سے پہلے استاد کے پلنگ کے ہر پائے کو بوسہ دیا‘ پھر استاد کا ہاتھ آنکھوں پہ لگایا‘ سینہ تانا اور حضرت ِ داغ کے ایک شعر کی پیروڈی پیش کی:
خبر سن کر مرے مرنے کی بولے وہ رقیبوں سے
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں 'دھرنے‘ والے میں
فوراً سمجھ گئے کہ مرنے کو دھرنے میں تبدیل کیا ہے۔