بری کارکردگی سے بچنے کا طریقہ عدم کارکردگی نہیں ہوتا۔ خصوصاً حکومت کے لئے۔ حکومت کرنا وہ ذمہ داری ہے‘ جو کچھ کئے بغیر پوری نہیں ہوتی۔ غلطیوں سے بچنے کے لئے کچھ نہ کرنا‘ بری کارکردگی سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ ہمیں امریکہ سے جتنی بھی شکایات ہوں‘ اس کے ساتھ تصادم‘ محاذ آرائی‘ بے رخی یا لاتعلقی روا رکھنا‘ کسی طرح بھی ہمارے مفاد میں نہیں۔ وہ ایک سپرپاور ہے اور اس کے اتحادیوں کا گروپ عالمی امور میں بالادستی رکھتا ہے۔ وہ جس ملک کو چاہیں‘ بغیر کسی جنگ کے مشکلات میں مبتلا رکھ سکتے ہیں۔ ایران کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہاں کی انقلابی حکومت کا اس کے سوا کوئی قصور نہیں کہ وہ اپنے قومی مفادات کو تحفظ دینے کے لئے ایسی پالیسیاں اختیار کرتی ہے‘ جو امریکہ کے لئے قابل قبول نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے‘ ایرانی معیشت کو شکنجے میں جکڑ کے رکھ دیا ہے۔ وہ اپنی آمدنی کے واحد ذریعے تیل اور گیس کی فروخت کے لئے بھی امریکی این او سی کا محتاج ہے۔ جن ملکوں کو امریکہ نے ایران سے انرجی خریدنے کی اجازت دے رکھی ہے‘ وہی ایسا کر رہے ہیں۔ دوسرا کوئی چاہے بھی تو ایران سے خریداری نہیں کر سکتا۔ پاکستان اس کی واضح مثال ہے۔ہم مالیاتی اعتبار سے بھی امریکیوں کی اعانت کے محتاج ہیں۔ بے شک آئی ایم ایف اور عالمی بنک سے ہم قرضوں پر مذاکرات اور معاہدے کررہے ہیں۔ مگر عملدرآمد کے لئے امریکیوں کا اشارہ ضروری ہوتا ہے۔ امریکہ یا کسی بھی دوسرے ملک کے پالیسی سازوں تک اپنی بات پہنچانے کے لئے سفارتی رشتہ بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ موجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالے 60دنوں سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ یقین نہیں آتا کہ 60دنوں سے واشنگٹن میں ہمارا کوئی سفیر ہی نہیں۔ ہمارا سفارتخانہ عملی طور پر معطل ہے۔ جب ہمارا سفارتخانہ کام ہی نہیں کر رہا‘ تو امریکہ کے ساتھ تعلقات اور کمیونیکیشن کا ذریعہ کیا ہے؟ سفارتی امور کے ماہرین اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی بھی ملک میں جب کوئی حکومت اپنا قابل اعتماد سفیر متعین نہیں کرتی‘ تو اس کے مختلف مفاہیم نکالے جاتے ہیں۔ سفیر کا نہ ہونا ناراضی کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ سردمہری کا اشارہ بھی ہوتا ہے۔ میزبان ملک کو نظرانداز کرنے کی نشانی بھی ہوتا ہے۔ غرض اس کے جتنے بھی مطلب نکالے جائیں‘ ان میں دوستی کا کوئی پہلو نہیں ہوتا۔ واشنگٹن میں امریکی پالیسی سازوں پر پاکستانی سفیر کی عدم موجودگی کے یقینا اچھے اثرات نہیں پڑ سکتے۔ اس کے برعکس ضرورہو سکتا ہے اور شاید ہو بھی رہا ہے۔ ہماری اس بے رخی کا سبب اور نئی حکومت کا موڈ جاننے کے لئے آخر کار امریکہ کو پہل کرنا پڑی اور صدر اوباما نے خارجہ امور کے اعلیٰ ترین عہدیدار کو صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے پاکستان بھیجا۔ واضح طور سے نظر آ رہا تھا کہ جان کیری کسی ایجنڈے کے بغیر آئے ہیں۔ یہ ایک طرح کا فیکٹ فائنڈنگ مشن تھا۔ مگر یہاں انہوں نے کیا دیکھا؟ وزیرخارجہ ہی نہیں۔ انہیں وزیراعظم کے مشیر سے مذاکرات کرنا پڑے۔ وزیرخارجہ خود وزیراعظم ہیں۔ مگر ان کے ساتھ تبادلہ خیال کی جو تفصیل موصول ہوئی ہے‘ اس کے مطابق دونوں لیڈروں میں محض رسمی بات چیت ہوئی۔ اس طرح کے اعلیٰ سطحی دورے کے لئے بہت پہلے سے تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ ایک ایجنڈا تیار کیا جاتا ہے۔ طریقہ کار بنایا جاتا ہے۔ مذاکراتی ٹیموں کا انتخاب کیا جاتا ہے اور اس کے بعد جب اعلیٰ سطحی دورہ شروع ہوتا ہے‘ تو ہر میٹنگ اور اجلاس میں زیربحث آنے والے نکات پہلے سے تیار ہوتے ہیں اور انہی کی روشنی میں مذاکرات آگے بڑھتے ہیں۔ مگر یہاں تو کچھ بھی نہ ہوا۔ کیونکہ نہ مہمان وزیر خارجہ کے پاس کوئی ایجنڈا تھا اور نہ میزبان مشیرخارجہ کے پاس کچھ کہنے اور سننے کا اختیار تھا۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ نئی حکومت قائم ہونے کے قریباً 50دنوں کے بعد دنیا کی واحد سپرپاور کا وزیرخارجہ اپنے پہلے دورے پر پاکستان آیااور بے مقصد‘ بے سمت اور بے نتیجہ ملاقاتیں کر کے واپس چلا گیا۔ اسے عدم کارکردگی نہ کہا جائے‘ تو یہ کیا ہے؟ جناب نوازشریف انتخابی مہم شروع ہونے سے پہلے اور اس کے دوران بار بار اعلان کرتے رہے کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کا واضح پروگرام رکھتے ہیں۔ 60دن گزر چکے۔ ابھی تک واضح پروگرام سامنے نہیں آیا۔ ابتدائی سلسلہ جنبانی بھی شروع نہیں ہوا۔ بیک ڈور ڈپلومیسی متحرک ہونے کی خبریں ضرور آئی ہیں۔ اگر اس ذریعے سے کوئی پیش رفت ہوئی ہے‘ تو اسے اب تک باقاعدہ سفارتی چہروں پر منعکس ہوجانا چاہیے تھا۔ مگر نہیں ہوا۔جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ عدم کارکردگی‘ بری کارکردگی سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ بھارت کے گھاگ سیاستدان اور سفارتی امور کے ماہرین ‘ اب یہ کہنا شروع کر چکے ہیں کہ پاکستان میں اداروں کے درمیان ہم آہنگی موجود نہیں۔ نئی حکومت کا اگر کوئی ایجنڈا ہے‘ تو وہ اس پر عملدرآمد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ورنہ اب تک کسی نہ کسی سطح پر مذاکرات کی تیاریاں شروع ہو چکی ہوتیں۔ لیکن مذاکرات کیا‘ اب اعلیٰ سطحی رابطوں کا امکان بھی دھندلاتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ بھارتی اپوزیشن اور میڈیا‘ لائن آف کنٹرول کے مبینہ واقعات کو بنیاد بنا کر ‘ پاکستان مخالف فضا تیار کرنے میں‘ سرگرم ہو چکے ہیں۔ بھارتی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں‘ اپوزیشن نے ان مبینہ واقعات کی آڑ میں پاکستان کے خلاف خوب زہر اگلا۔ الیکشن میں نوازشریف کی کامیابی پر بھارت میں جو توقعات پیدا ہو گئی تھیں‘ وہ اب کمزور پڑنے لگی ہیں۔ 26نومبر 2011ء کو بھارت نے لائن آف کنٹرول پر اپنے سپاہیوں کے سر کاٹنے کا جو الزام لگا کر شور مچایا تھا‘ اس وقت بھی میڈیا اور اپوزیشن کی بھرپورمخالفانہ مہم کے باوجود سڑکوں پر مظاہرے نہیں ہوئے تھے۔ لیکن 5بھارتی سپاہیوں کی ہلاکت کے تازہ الزام پر ‘ بھارتی وزیر مملکت برائے دفاع کے گھر پہ‘ شدید احتجاجی مظاہرہ ہوا کہ حکومت‘ پاکستان کے خلاف جوابی اقدام کیوں نہیں کرتی؟ اور ایسے ہی احتجاجی مظاہرے دوسرے شہروں میں بھی ہو رہے ہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ نیویارک میں بھارتی اور پاکستانی وزرائے اعظم کی ملاقات کے پروگرام پر بھی عمل نہیں ہو پائے گا۔ اگر ایسا ہو گیا‘ تو یہ دونوں ملکوں کی خوش نصیبی ہو گی۔ اندرون ملک نئی حکومت کی کس پالیسی کو موثر اور عوامی امیدوں کے مطابق کہا جا سکتا ہے۔ میں نے یاد کرنے کی بہت کوشش کی۔ لیکن مجھے شہبازشریف کے چند فیصلوں اور اقدامات کے علاوہ وفاقی حکومت کی کوئی امیدافزاء پالیسی ڈھونڈنے میں ناکامی ہوئی۔ انرجی پالیسی کے خدوخال ضرور سامنے آئے۔ لیکن نتیجہ گزشتہ حکومت کے وزیروں کے بیانات سے بھی بدتر ہے۔ سابقہ حکومت نے بجلی کے نرخ کئی مرتبہ بڑھائے مگر یہ اضافہ بتدریج اور دھیرے دھیرے‘ عوام کی قوت برداشت کو دیکھتے ہوئے کیا گیا۔ لیکن حالیہ اضافہ کسی دہشت گرد کی کارروائی لگتا ہے۔ بجلی اس قدر مہنگی ہونے کے بعد‘ پاکستان کے بے لگام سرمایہ داروں‘ تاجروں‘ ٹرانسپورٹروں اور صنعتکاروں کو عام آدمی کا خون پینے سے کون روک سکتا ہے؟ دردناک حقیقت یہ ہے کہ نوازشریف نے عوام کو سختیاں برداشت کرنے کے لئے تیار ہی نہیں کیا۔ عوام کو ہوشیار کر کے چوٹ لگائی جائے‘ تو وہ برداشت کر لیتے ہیں۔ لیکن انہیں کچھ بتائے بغیر اچانک تھپڑ جڑ دیا جائے‘ تو اس کی تکلیف بہت زیادہ ہوتی ہے۔ بجلی کے نرخوں میں اضافہ غفلت میں مارا گیا تھپڑ ہے‘ جو عوام کے لئے کسی طرح بھی خوش گوار نہیں۔ عوام اور حکومت کے درمیان نان کمیونیکیشن کی اس فضا میں‘ اپوزیشن کے تیور ابھی سے بگڑنے لگے ہیں۔ زرداری حکومت کے خلاف پورے 5سال میں ایسی احتجاجی تحریک ابھرنے کے حالات پیدا نہیں ہوئے تھے‘ جو موجودہ حکومت کے دور میں ابھی سے پیدا ہوتے نظر آنے لگے ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن ‘ سب سے زیادہ مقبول لیڈر اور منظم عوامی طاقت رکھنے والے ایک مذہبی سیاستدان ‘ حکومت کی مخالفت میں قریب ہونے لگے ہیں۔ میری مراد پیپلزپارٹی‘ عمران خان اور پروفیسر طاہرالقادری سے ہے۔ یہ تینوں متحرک اور بھرپور احتجاج کرنے والوں کی بہت بڑی تعداد کو سڑکوں پر لا سکتے ہیں۔ کچھ بعید نہیں کہ عید کے فوراً بعد ہی یہ اپنی تیاریاں شروع کر دیں۔ نوازشریف اب بھی صورتحال کی نزاکت کو محسوس نہ کر پائے‘ تو پھر دیرہو جائے گی۔ نوٹ:- کل کے کالم میں بھارتی اداکار عامر خان کے بچے کی عمر ‘پیدائش کے تھوڑے عرصے بعد ہی 100 سال کر دی گئی۔ ایسی غلطی کا بھی کوئی جواز ہوتا ہے؟ بچہ 2011ء میں پیدا ہوا اور 1911ء لکھ دیا گیا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved