لاہور میں بہار کا موسم ہے۔ ہر طرف خوش رنگ پھولوں کا بسیرا ہے۔ پنجاب میں بہار کے موسم کا اپنا حُسن ہے۔ بہار کی اسی رُت کی انگلی پکڑ کر میں اپنے بیٹے صہیب کے ہمراہ ننکانہ صاحب جا رہا ہوں۔ صہیب ٹورنٹو میں رہتا ہے، اور تقریباً اڑھائی برس بعد پاکستان آیا ہے۔ اسے بھی میری طرح تاریخ کی پُراسرار پگڈنڈیوں پر چلنے کا شوق ہے۔ لاہور سے ننکانہ صاحب کا فاصلہ تقریباً 75 کلومیٹر ہے۔ گاڑی سے باہر سرسبز کھیتوں اور درختوں کے دلرُبا مناظر تیزی سے گزر رہے ہیں اور میں صہیب کو بتا رہا ہوں کہ یہی بہار کا موسم تھا کہ لاہور سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ایک چھوٹا سا گائوں تلونڈی ہوا کرتا تھا۔ عام گائوں جیسا گائوں جہاں سرسبز کھیت، کھلا آسمان، مہکتی فضا اور اجلی زندگی تھی۔
یہی بہار کا موسم تھا۔ 1469 کا سال اور اپریل کی 15 تاریخ جب گائوں میں بسنے والے ایک گھرانے میں ایک بچے کی پیدائش ہوئی۔ بچے کا نام نانک رکھا گیا۔ کہتے ہیں‘ بچپن سے ہی گرو نانک سب بچوں سے مختلف اور نمایاں تھے۔ سکول میں ایک مسلمان استاد سے عربی اور فارسی پڑھی۔ نانک کو اپنی بڑی بہن نانکی سے خاص لگائو تھا۔ وہ بھی اپنے بھائی پر جان چھڑکتی تھی۔ پھر ایک دن نانکی کی شادی ہو گئی اور وہ گائوں سے دور سلطان پور چلی گئی جہاں اس کا خاوند سلطنت دہلی کے لاہور میں متعین گورنر کی ملازمت کرتا تھا۔ اس کی کوشش سے گرو نانک کو بھی سلطان پور میں نواب دولت خان لودھی کے پاس اکائونٹنٹ کی ملازمت مل گئی۔ یہیں پر پہلی بار لوگوں کو گرو نانک کے روحانی پہلو سے آشنائی ہوئی۔ ہوا یوں کہ گرو نانک لوگوں کو اشیا فروخت کرتے جب پیمائش کے پیمانے کی گنتی کرتے تو 13 کے بعد 14 اور 15 کہنے کی بجائے تیرہ تیرہ کی تکرار کرتے رہتے‘ یوں گاہکوں کو ان کی ادا کردہ قیمت سے زیادہ اشیا ملتی تھیں۔ جب لوگوں کو پتہ چلا تو ان کی دکان پر لوگوں کا ہجوم بڑھنے لگا۔ تب ایک حکومتی کارندے نے گورنر تک یہ شکایت پہنچائی کہ حکومتی خزانے کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ جب شکایت پر سارے معاملے کی تحقیق کی گئی تو خزانے میں کوئی بد انتظامی نہ پائی گئی۔
گرو نانک نے یہاں ایک طویل عرصہ ملازمت کی۔ جب وہ سلطان پور آئے تو ان کی عمر 16 برس تھی اور اب ان کی عمر 36 برس ہو گئی۔ ان کے دل میں ایک بے چینی نے گھر کر لیا تھا۔ کوئی آواز تھی جو انہیں اپنی طرف بلا رہی تھی۔ انہوں نے سلطان پور کو خیرباد کہا اور سب کچھ چھوڑ کر اس آواز کے پیچھے سچائی کی تلاش میں اجنبی بستیوں کے سفر پر نکل گئے۔ بالکل ایسی ہی کہانی مہاتما بدھ کی تھی۔ گرو نانک کو بھی سچ کی تلاش مختلف راستوں پر لے جا رہی تھی۔ سچ کی جستجو انہیں ملتان، پاکپتن، ایودھیا، مکہ، مدینہ اور بغداد تک لے گئی۔ وہ مسلمانوں اور ہندوئوں کے مقدس مقامات پر جاکر ایک خاص طرح کی تسکین محسوس کرتے تھے۔
پاکپتن میں بابا فرید شکر گنج کا آستانہ ان کیلئے خاص کشش رکھتا تھا۔ بارہویں صدی کے یہ صوفی بزرگ تصوف کے سلسلہ چشتیہ میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ بابا فرید کا شمار پنجابی کے اولین شعرا میں ہوتا ہے۔ گرو نانک بابا فرید شکر گنج کی تعلیمات سے متاثر تھے۔ بابا فرید کی شاعری کا موضوع دنیاوی چکا چوند سے بیزاری اوردل کی دنیا کی آبیاری ہے۔ سکھوں کی مقدس کتاب گرو گرنتھ صاحب میں بابا فرید کے 112 اشلوک شامل ہیں۔ گھر سے دور اجنبی قریوں کی خاک چھانتے ہوئے گرو نانک کو آٹھ برس گزر گئے۔ اس عرصے میں وہ کتنے ہی لوگوں سے ملے اور ان سے گفتگو کی۔ گرونانک کے چاہنے والوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا تھا۔ ان کی گفتگو میں کوئی سحر تھاکہ جو ان سے ملتا انہی کا ہوکر رہ جاتا۔
ان کی عمر پچپن برس کے قریب تھی جب انہوں نے کرتار پور میں قیام کا فیصلہ کیا۔ وہ خود کھیتی باڑی کرتے۔ ان کے چاہنے والوں میں ہر طبقہ فکرکے لوگ شامل تھے مسلمان، ہندو اور بدھ مت کے ماننے والے۔ گرونانک نے سکھ مذہب کی بنیاد رکھی جس میں ایک خدا کا تصور ہے‘ جس میں انسانیت کا درجہ سب سے ارفع ہے اور معاشرتی انصاف کیلئے جدوجہد مذہب کا حصہ ہے۔ بابا گرو نانک نے کبھی اپنے اوتار ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ انہیں اپنے فقیر ہونے پر ناز تھا اور وہ فقیر کہلانا پسند کرتے تھے۔
میں بول رہا تھا اور صہیب غور سے بابا گرو نانک کی کہانی سن رہا تھا۔ تب ہمیں دور سے گرو نانک کے جنم استھان کی سفید رنگ کی خوبصورت عمارت نظر آئی۔ یہاں ہمارے استقبال کیلئے میرے دوست ملک اللہ داد صاحب کھڑے تھے۔ ملک صاحب کا تعلق ننکانہ صاحب سے ہے اور وہ محکمہ تعلیم میں ایک اہم عہدے پر فائز ہیں۔ مرکزی دروازے سے داخل ہوں تو آپ پر حیرت کے دروازے کُھل جاتے ہیں۔ دائیں طرف رہائشی عمارت میں سال کے مخصوص دنوں میں سکھ یاتریوں کی بڑی تعداد یہاں آتی ہے۔ اس عمارت میں بیالیس سو کمرے ہیں۔ وی آئی پی مہمانوں کیلئے ایک علیحدہ عمارت میں رہائش کا بندوبست ہے۔ ہم آنکھوں میں حیرتیں سمیٹے ہوئے آگے بڑھتے گئے تب ہماری نظر لنگر خانہ پر پڑی۔ یہ ایک وسیع عمارت تھی۔ ہم لنگر خانے کے اندر چلے گئے۔ دوپہر کا وقت تھا۔ ہم فرش پر بچھی چٹائی پر بیٹھ گئے۔ سیواداروں نے ہمارے سامنے پلیٹیں رکھ دیں اور دو نوجوانوں نے چاول، چنے اور روٹی پلیٹوں میں سجا دی۔ لنگر کے باہر کچھ مرداور عورتیں لنگر کیلئے آلو چھیل رہے تھے۔ کچھ عورتیں مٹروں سے دانے نکال رہی تھیں۔ یہ سب یہاں کے سیوادار تھے۔
جنم استھان کی عمارت میں داخل ہونے سے پہلے جوتے اتارنے پڑتے ہیں اور پھر بہتے ہوئے شفاف پانی میں پائوں رکھتے ہوئے، سر کو ڈھک کر عمارت میں داخل ہوتے ہیں۔ یہیں پر ہماری ملاقات یہاں کے سیوادار دیال سنگھ سے ہوئی جنہوں نے دروازے کا قفل کھولا اور ہم اس جگہ پہنچ گئے جو بابا گرو نانک کی جائے پیدائش ہے۔ یہاں سے نکل کر ہم نے طویل برآمدے میں آتے جاتے لوگوں کو دیکھا‘ جن میں بیرونی ممالک سے آئے ہوئے سکھ یاتری بھی شامل تھے۔ تب مجھے وہ درخت نظر آیا جس کی مجھے تلاش تھی۔ اس درخت کی بھی ایک کہانی ہے۔ کہتے ہیں‘ ایک زمانے میں اس جنم استھان پر مرہٹوں کا قبضہ ہوگیا تھا۔ ان سے قبضہ چھڑانے کیلئے 1921 میں سکھ جتھے نے حملے کا منصوبہ بنایا‘ لیکن اس کی خبر پہلے ہی مرہٹوں تک پہنچ گئی جنہوں نے سکھ جتھے کا بے دریغ قتل عام کیا اور جتھے کے کمانڈر لچھمن سنگھ کو اس درخت سے لٹکا کر زندہ جلا دیا گیا۔ یہاں سے ہمارا گائیڈ ہمیں اس جگہ لے گیا جہاں وہ بس کھڑی تھی جس کی نمبر پلیٹ پر 1313 لکھا تھا، جو گرو نانک سے وابستہ اس واقعے کی یاد دلاتا ہے جس کا ذکر پہلے آچکا ہے۔ یہ بس بھارتی وزیرِ اعظم من موہن سنگھ نے یہاں تحفے کے طور پر دی تھی۔
ہم چلتے چلتے تھک گئے تھے۔ ایسے میں دور ہمیں جنم استھان کا وسیع تالاب نظر آیا۔ ہم اس کے کنارے آبیٹھے۔ تالاب صاف شفاف پانی سے لبالب بھر ا ہوا تھا۔ بہار کے موسم میں پانی کی لہریں آئینے کی طرح لرز رہی تھیں۔ تالاب کے کنارے موسمِ بہار کے خوش رنگ پھول کھلے تھے۔ میں سوچ رہا تھا‘ یہی بہار کا موسم تھا جب اس مٹی میں ایک پھول کھلا تھا جس کا نام نانک تھا اور جس کی محبت کی خوشبو دور دور تک پھیل گئی تھی۔