آپ نے بھی محسوس کیا ہوگا کہ کچھ لوگوں سے ملتے ہی خواہ مخواہ دل میں ان کے بارے میں اچھے اچھے خیالات آنے لگتے ہیں۔ بغیرانہیں جانے بوجھے ان سے اچھی توقعات وابستہ ہوجاتی ہیں۔ ایک بارکسی کے بارے میں یہ تاثر قائم ہوجائے تو پھرآپ ایسے شخص کے بارے میں منفی ترین بات سن کر بھی یقین کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ میرے ساتھ یہی معاملہ جہانگیر خان ترین کے حوالے سے ہوا ہے۔ کوئی بیس برس ہوتے ہیں کہ میں کراچی سے معیشت کی رپورٹنگ کیا کرتا تھا۔ ایک بار میرے ایڈیٹر نے ذمہ داری لگائی کہ لاہورجاؤ اور زراعت کی صورتحال کے بارے میں رپورٹ کرو۔ لاہور آکر دوست صحافیوں سے پنجاب کے ماہرینِ زراعت کی فہرست مانگی تو اس میں جہانگیر خان ترین کا نام بھی تھا۔ میں ان سے اتنا ہی واقف تھا کہ وہ مسلم لیگ (ق) کے ایک ایم این اے ہیں اور بس۔ اس وقت وہ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ کام کررہے تھے اور نوے شاہراہ قائداعظم (مال روڈ) کے ایک کمرے میں بیٹھا کرتے تھے۔ میں وقت لے کر ان کے پاس چلا گیا اور جیسے ہی ان سے ملا، میرے ذہن پر ان کے بارے میں ایک مثبت تاثر قائم ہوگیا۔ اس ملاقات کے کچھ ہی عرصے بعد وہ وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار بن گئے۔ ان کی وزارت چونکہ معیشت سے متعلق تھی اس لیے میں ایک رپورٹر کے طور پر انہیں پہلے کراچی اور پھر لاہور میں کور کرتا رہا۔ انہوں نے اپنی وزارت میں بہترین لوگوں کی ایک ٹیم بنائی اور دیگر وزرا کے مقابلے میں کافی بہتر کام کرکے دکھایا۔ ان کے بارے میں کبھی کسی نے دبی زبان میں بھی کسی مالی سکینڈل کی بات نہیں کی یا کم ازکم ایسی کوئی مضبوط بات نہیں کہی کہ مجھے اس پر یقین آجاتا۔ میں انہیں سیاستدان سے زیادہ ٹیکنوکریٹ سمجھتا تھا اوراس وقت وہ شاید خود کو بھی ٹیکنوکریٹ ہی سمجھتے تھے۔
ان کی سیاست کا باقاعدہ آغاز جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ہوا اور اتفاق سے میں بھی معیشت سے سیاست کی رپورٹنگ کی طرف آگیا۔ سیاست میں ان کی حیثیت ہرچند کہیں کہ ہے نہیں ہے والی تھی۔ صرف تین سال بعد انہیں تحریک انصاف کا کارواں مل گیا تو فوراً ہی ان کا شمار اس جماعت کے شہ دماغوں میں ہونے لگا۔ عمران خان اور انکے درمیان تعلق اتنا گہرا ہوگیا کہ من وتو کا فرق ہی مٹ گیا۔ اس تعلق کی سزا انہیں عدالت سے تاحیات نااہلی کی صورت میں ملی مگر ان کے ماتھے پر شکن نہیں آئی۔ انہوں نے تحریک انصاف کو پاکستان کی سب سے بڑی جماعت بنانے میں اہم ترین کردار ادا کیا اور عمران خان کو وزیراعظم بنا کر ہی دم لیا۔ اقتدار میں آئے توحاسدوں کی فتنہ انگیزیاں، پارٹی کے اندر انفرادی اختلافات اور چھوٹے لوگوں کی عمران خان تک رسائی نے اتنی پیچیدگیاں پیدا کردیں کہ وہ عمران خان سے دور ہوتے چلے گئے۔ ناقص معلومات کی بنیاد پر عمران خان ان سے اتنے بدگمان ہوئے کہ صرف ان کو پھنسانے کیلئے چینی انکوائری کمیشن بنا‘ جس نے ایک ردی رپورٹ تیارکرکے جہانگیر ترین کو سٹہ بازی، ذخیرہ اندوزی اور نجانے کس کس کا ملزم قرار دیا۔ یہ ایسے دن تھے کہ وہ وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کے پھیلائے ہوئے قانونی جال میں اذیتیں جھیل رہے تھے۔ انہی دنوں میں ان سے ملا اور ان کے مستقبل کے عزائم جانچنا چاہے۔ میرے ٹیڑھے میڑھے سوالوں کے جواب دینے سے پہلے تو وہ گریز کرتے رہے پھر کہا، ''لوگ جانتے نہیں کہ میرا عمران خان کے ساتھ تعلق کیا ہے، میں کبھی ان کی حکومت کے خلاف نہیں جاسکتا چاہے کچھ بھی ہوجائے اور یہی بات میں اپنے دوستوں کو بھی سمجھاتا ہوں‘۔ اس کے بعد میرے سوالات ختم ہوگئے۔
چینی انکوائری رپورٹ کا انجام بھی سرکاری دفتروں کی ردی سے زیادہ کچھ نہیں ہوا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ اس کے بعد عمران خان اور ان کے مابین معاملات درست ہوجاتے لیکن کچھ غلط فہمیاں ایسی گہری ہوگئیں کہ تجدید تعلقات کی نوبت ہی نہ آسکی۔ دو ایک بار ہلکے پھلکے پیغامات کا تبادلہ ہوا لیکن بات آگے نہیں بڑھی‘ وجہ وہی کہ عمران خان اپنی ہی پارٹی کے بونوں کے نرغے میں آئے ہوئے تھے۔ چند ہفتے پہلے جب عدم اعتماد کی بات شروع ہوئی تو میرا خیال تھا جہانگیر ترین اس کھیل کا حصہ نہیں بنیں گے۔ اب ان کے حوالے سے تو نہیں لیکن ان کے اردگرد جمع پی ٹی آئی سے ناراض اراکین اسمبلی کے ذریعے سے بار بار خبر ملتی ہے کہ ان کے نام پر بنا یہ گروپ عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ دینے کی سوچ رہا ہے۔ ظاہر ہے یہ لوگ ہمارے اکثر اراکین اسمبلی کی طرح اپنی ذات اور اپنے حلقے سے اوپر اٹھ کر سوچنے سے ہی معذور ہیں، اس لیے ان سے کسی اعلیٰ مقصد کی توقع ہی نہیں کی جاسکتی۔ یہ لوگ اپنے مفاد کی خاطر وفاداری بدلنے کو بھی کچھ غلط نہیں سمجھتے مگر جہانگیر ترین کا معاملہ دوسرا ہے۔
انہیں جب بھی حکومت ملی انہوں نے کچھ اچھا کرنے کی کوشش کی۔ تحریک انصاف میں رہ کر انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا بہترین دور دیکھا اور شاید بدترین بھی۔ اب ان کے نام پر بنا گروپ آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹوں کیلئے بیتابی دکھاتا ہے تو مجھے کچھ عجیب سا لگتا ہے کیونکہ جہانگیر ترین کا جو عکس میرے ذہن میں ہے ان کے ساتھیوں کی یہ حرکت اس سے کہیں نیچے کی ہے۔ کیا وہ لوٹا بننے کیلئے بیتاب چند لوگوں کے ہاتھوں میں یرغمال ہوچکے ہیں؟ ظاہر ہے وہ اپنی سیاست کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں لیکن میرے ذہن میں یہ سوال ضروراٹھتا ہے کہ اب کیا وہ مسلم لیگ (ن) یا پیپلزپارٹی کے تیسری چوتھی صف میں شامل ہوکر اپنی ہی بنائی ہوئی جماعت کو تباہ کریں گے؟ ایمانداری کی بات ہے کہ میرے ذہن میں بیس برس پہلے ان کا جو تاثر قائم ہوا تھا وہ آج تک برقرار ہے۔ شاید اسی لیے سیاست کی بے رحمی سے کافی حد تک آگاہ ہونے کے باوجود میں یہ ماننے کیلئے تیار نہیں کہ جہانگیر ترین ایسا کریں گے۔
جہانگیر ترین کیلئے بہترین راستہ یہی ہے کہ وہ اس مشکل وقت میں تحریک انصاف میں واپس چلے جائیں، چاہے تحریک انصاف ہار جائے مگروہ تو جیتے ہوئے نظرآئیں گے۔ واپسی کے اس راستے کے دوہی طریقے ہوسکتے ہیں، جن میں سے ایک ان کیلئے دشوار ہے اور دوسرا عمران خان کیلئے ۔ ان کیلئے دشوار طریقہ یہ ہے کہ کھل کر تحریک انصاف کی حمایت کا اعلان کردیں اور بتادیں کہ یہ ان کی بنائی ہوئی جماعت ہے جس کا ٹوٹنا انہیں گوارا نہیں۔ عمران خان کو تردد یہ کرنا ہوگا کہ فون اٹھائیں اور بدگمانیاں دور کرکے اپنے دوست کوپوری عزت کے ساتھ واپس لے آئیں۔ جہانگیرترین پر جتنے الزامات لگے تھے وہ بنیادی طورپر حسد کی پیداوار تھے، قانونی طورپر ان کی کوئی حیثیت نہیں اوروہ ان الزامات کا سامنا بھی عدالتوں میں کرچکے ہیں لہٰذا اصولی طور پر بھی انکی واپسی ممکن ہوسکتی ہے۔ سوال بس یہ ہے کہ پہل کون کرے گا؟ کتابوں میں پڑھا ہے اور بزرگوں سے سنا ہے کہ ایسی صورتحال میں پہل بڑے آدمی کو ہی کرنا ہوتی ہے۔ اس وقت عمران خان بڑے ہیں تو پہل کرنا بھی انہی کی ذمہ داری ہے۔ ایک موہوم سا امکان ہے کہ جہانگیر ترین ان کی بات نہ مانیں‘ لیکن ایسا کرنے کے بعد جہانگیرترین کسی کے سامنے اپنے دوست کا شکوہ تو نہیں کرسکیں گے۔ یوں بھی عدم اعتماد سے نمٹنے کیلئے اگرعمران خان اپنے اتحادیوں کے پاس چل کر جاسکتے ہیں توپرانے دوستوں کا یہ حق فائق ہے کہ ان کے پاس بھی چل کر جایا جائے۔ اگر عمران خان کے ناراض دوست مان جائیں تو سیاست میں بھی بہت کچھ بدل جائے گا۔ دوستوں کو منانے سے کوئی چھوٹا نہیں ہوجاتا۔ ہار جیت سیاست میں ہوتی ہے، دوستی میں نہیں۔