مملکتِ خداداد میں حریفوں کو حلیف اور حلیفوں کو حریف بنتے دیر نہیں لگتی۔ جہاں مفادات پیش نظر ہوں تو کیسے کیسے جواز‘ عذر اور توجیہات گھڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ کل کے دوست آج کے دشمن اور آج کے دوست کل کے دشمن۔ یہ ہماری سیاست کا خاصہ ہے۔ ان کی ترجیحات ان کے نظریات اور اخلاقیات کو ہڑپ کر جایا کرتی ہیں۔ ملک بھر میں سیاسی سورج جھلسا دینے والی تپش کے ساتھ وہ آگ لگا چکا ہے جو کسی کو خاکستر اور کسی کوکندن بنا سکتی ہے۔ یہ منظرنامہ ہرگز نیا نہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ ایسے مناظر اور تماشوں سے بھری پڑی ہے۔ حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے سبھی کے بارے میں بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی عروج سے زوال اور زوال سے عروج کے اسباب پر نہ کبھی غور کیا اور نہ ہی کوئی سبق حاصل کرنے کی زحمت گوارا کی۔ برسر اقتدار آنے والوں کو معلوم ہی نہیں کہ ان کی سبکی اور جگ ہنسائی سے لے کر غیر مقبول ہونے تک وہ عناصر کارفرما ہوتے ہیںجن کا سیاسی جدوجہد میں کوئی کردار نہ ہونے کے باوجود وہ ہر دور میں شریک اقتدارہوتے چلے آئے ہیں‘ اور پھر منظر نامہ کچھ اس طرح بنتا چلا جاتا ہے کہ میرٹ پر آنے والے دربدر اور سفارش اور سازش کو زینہ بنا کر اقتدار میں نقب لگانے والے فیصلہ ساز بن بیٹھتے ہیں۔
حکومت کے غیر مقبول ہونے سے لے کر زوال پذیر ہونے تک ان چہروں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جنہوں نے حکومت کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ حلیف تو درکنار حکومتی پارلیمانی پارٹی بھی متحد نہیں رہ سکی۔ اندرونی مزاحمت اور دھڑے بندی کے اسباب پر تفصیلی بات کرنے کے لیے ایسے کئی کالم بھی ناکافی ہوں گے؛ تاہم یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے کے بعد منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے اور منزل تک پہنچانے والوں کی ناقابلِ تردید خدمات کو نہ صرف یکسر فراموش کر دیا گیا بلکہ ایک گیم پلان کے تحت ان کو وزیر اعظم سے متنفر اور دور کرنے کے لیے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ نقب لگا کر شریک اقتدار ہونے والوں کے کردار اور وارداتوں پر غور کریں تو کوئی چھوٹا موٹا معین قریشی تو کوئی ننھا منا شوکت عزیز لگتا ہے جو مخصوص ایجنڈے پلانٹ کرکے نہ صرف سارا سسٹم ہائی جیک کر لیتے ہیں بلکہ گورننس کے نام پر ایسا کھیل کھیلتے ہیں کہ انتظامی ڈھانچہ محض ڈھانچہ ہی دکھائی دیتا ہے۔
ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار سبھی لیڈر اخلاقی قدروں سے لے کر سیاسی بصیرت اور رواداری سمیت نجانے کیا کچھ تہ و بالا کرچکے ہیں۔ نہ کسی کو اپنے منصب کا لحاظ ہے نہ کسی کو اپنی حیثیت اور قد کاٹھ کا۔ اچھے خاصے قدوقامت اور اونچے شملے والے بھی بونے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ طرزِ سیاست ان کی اندرونی کیفیات‘ اخلاقیات‘ نیت اور ارادوںکے سبھی بھید کھول چکی ہے۔ ایسے میں یہ خیال ہی روح کو تڑپا دیتا ہے کہ ماضی کے حکمران اگر اقتدار میں واپس آ گئے تو اس ملک و قوم کے پلے کیا رہ جائے گا۔ قانون اور ضابطوں سے لے کر جزا اور سزا کے تصور کو شکست فاش دینے کے بعد جب یہ کوئے اقتدار میں داخل ہوں گے تو عوام کہاں جاکر سر پھوڑیں گے اور اسی طرح اگر حکومت اپنی وکٹ بچانے میں کامیاب ٹھہری اور اپوزیشن کو منہ کی کھانا پڑی تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟ پھر کون سی توپ چلائیں گے جو ابھی تک نہیں چلائی جاسکی؟ نامعلوم اہلیت اور صفر کارکردگی کے ساتھ میرٹ اورگورننس کا حشر نشر تو پہلے ہی ہوچکا ہے‘ اب مزید کیا کریں گے؟
سیاست آگے بڑھنے اور چلنے کا نام ہے۔ مذاکرات اور تبادلہ خیال سے لے کر افہام و تفہیم اور ایک دوسرے کو تسلیم کرکے ہی سیاسی عمل کو جاری رکھا جا سکتا ہے جبکہ ہوسِ اقتدار نے ڈیڈلاک پر بھی نجانے کیسے لاک لگا ڈالے ہیں۔ نہ کوئی کسی کی بات سننے کو تیار ہے نہ کوئی کسی کو تسلیم کرنے کو۔ بس 'میں نہ مانوں‘ کی پالیسی پر سبھی لیڈر اس غضبناک طریقے سے قائم ہیں کہ مخالفین کا نام و نشان ہی مٹا ڈالیں۔ سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنیوں میں بدلنے والے عوام کے مسائل اور غم دور کرنے اقتدار میں نہیں آتے بلکہ عوام پر شوقِ حکمرانی پورا کرنے کو آتے ہیں‘ غریبوںکا خون چوسنے اور موجیں اڑانے کو آتے ہیں۔ سرکاری وسائل سے لے کر کلیدی عہدوں کی بندربانٹ اور لوٹ مار کے لیے آتے ہیں۔ ان سبھی کی نیت اور ارادوں کا بھید جاننے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ہرگز ضرورت نہیں۔ عوام ان سبھی کو مینڈیٹ اور شوقِ حکمرانی کے مواقع باربار دے چکے ہیں۔ سبھی عوام کے آزمائے ہوئے ہیں۔ سبھی کی طرزِ حکمرانی اور من مانی سمیت کرتوتوں کے نجانے کیسے کیسے بھید کھل چکے ہیں۔ احساسِ عوام سے لے کر غیرتِ قومی تک‘ کسی کے پلے کچھ نہیں۔
اے پروردگار! اے خالق ومالک! یہ کیا ہو رہا ہے؟ اس ملک میں بسنے والوں نے ابھی اور کیا کچھ دیکھنا ہے؟ نسل در نسل خوار ہوتے یہ بندے کہاں جائیں؟ کہاں جاکر سر پھوڑیں؟ کس کے آگے دہائی دیں؟ کس سے فریاد کریں اور کس سے منصفی چاہیں؟ ان پر کیسے کیسے حکمران مسلط ہوئے‘ ووٹ کے لیے منتیں کرنے والے ان کے لیڈر اسمبلیوں میں جاکر کیسے کیسے گل کھلا رہے ہیں۔ ان کے تو بہروپ ہی ختم ہونے کو نہیں آتے۔ ایک چہرے پہ کتنے چہرے سجائے کس بے حسی سے ہر دور میں اللہ کی مخلوق کو کھلا دھوکہ دیتے چلے آرہے ہیں۔ عوام کے نصیب کی سیاہی آخر کب ختم ہوگی؟ بابائے قوم کی روح بھی ملک میں اس تماشے کو دیکھ کر بے چین ہوتی ہوگی۔ پون صدی ہونے کو آئی مگر بدقسمتی سے کوئی مائی کا لعل نصیب نہیں ہو سکا جس کو اپنے قول کی حرمت اور زبان کا پاس ہو۔ اپنے ہی دعووں اور وعدوں کی نفی اس قدر ڈھٹائی اور بے نیازی سے کرکے کیسے کیسے عذر اور جواز پیش کرتے ہیں۔
کوئے سیاست کا یہ ڈیڈ لاک ان سبھی لیڈروںکو پچھتاوے کے اس مقام پر بھی لے جاسکتا ہے جہاں ریڈ کارپٹ بچھائے یہ سبھی قطارمیں کھڑے ہو کرکسی نئے معین قریشی یا شوکت عزیز کو آداب بجا لاتے اور خوش آمدید کہتے نظر آئیں‘ کیونکہ یہ سبھی ایک دوسرے کے پول اور کالے کرتوت اس قدر کھول چکے ہیں کہ کسی کا بھی اقتدار میں آنے کا اخلاقی جواز اور قانون و ضابطوں میں گنجائش دکھائی نہیں دیتی۔ ماضی میں کیسے کیسے نامی گرامی‘ حسب و نسب‘ اونچے شملے والے اور اچکنیں زیب تن کیے ہوئے کبھی معین قریشی تو کبھی شوکت عزیز کو خوش آمدید کہہ چکے ہیں۔ ان میں سے نہ کسی کو اُس وقت جرأت اور مجال ہوئی کہ سوال کر سکے کہ درآمدی وزیراعظم ہی کیوں؟ اور نہ ہی آئندہ کسی کو یہ جرأت ہوسکے گی۔ باہمی اختلافات اور ذاتی دشمنیوں میں رنگنے کے بعد عناد‘ بغض‘ کینہ اور حسد کی آگ میں یہ سب کچھ اس طرح کرتے چلے جارہے ہیں کہ یہ سبھی مل کر کسی درآمدی نیتا کو ویلکم تو کر سکتے ہیں لیکن ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرسکتے۔ باہمی نفاق اور خواہ مخواہ کی دشمنی سبھی لیڈروں کو اس مقام کی جانب دھکیلے چلے جارہی ہے‘ جہاں سے نہ صرف واپسی ناممکن ہو گی بلکہ پچھتاوے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔ جس تیزی سے یہ ایک دوسرے کی بساط لپیٹنے جارہے ہیںکہیں انہیں مل کر ریڈ کارپٹ نہ بچھانا پڑ جائے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ ویسے بھی پاور سیکٹر سے لے کر اقتصادی و معاشی امور اور سٹیٹ بینک تک نجانے کتنے شعبے ننھے منے شوکت عزیزوں اور چھوٹے موٹے معین قریشیوں کے رحم وکرم پر ہیں۔