تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     16-03-2022

پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے لانگ مارچ

تحریک انصاف سندھ کے صدر علی حیدر زیدی نے گھوٹکی سے کراچی تک لانگ مارچ کے آخری مرحلے میں سو موٹو ایکشن لینے کی جو اپیل کی ہے‘ اسے صرف سندھ تک ہی محدود نہ رکھا جائے بلکہ اس کا اطلاق پورے ملک پر کیا جانا چاہیے تاکہ وہ گھنائونے جرائم کے کیسز‘ جو کسی بھی وجہ سے‘ کئی برسوں سے التوا کا شکار ہیں‘ ان کے متاثرین کو انصاف مل سکے۔ دیکھا جائے تو یہ مطالبہ ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے جس کی نمائندگی کرتے ہوئے علی زیدی درخواست گزار ہیں کہ ایسے تمام قتل کے مقدمات‘ جن میں مبینہ طور پر سیاسی نمائندے اور اراکین اسمبلی ملوث ہیں‘ دہری شہرت کے حامل افراد کے مقدمات‘ بڑے بڑے عہدوں کے حامل افراد کے مقدمات‘ جعلی اکائونٹس کے ذریعے اربوں روپے کی ٹرانزیکشنز کے سرد خانے میں پڑے ہوئے مقدمات‘ بوگس اور جعلی ڈگریوں پر انتخابات میں حصہ لینے والے افراد کے مقدمات اور میڈیکل کالجوں میں طالبات کی بے حرمتی اور قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات کے ملزمان کے سپیڈی ٹرائل کیے جائیں۔ بلاشبہ یہ مطالبہ اس وقت اہم ترین ملکی و قومی ضرورت بن چکا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف اسلام آباد اور کراچی میں ایک دوسرے کے سیاسی قلعوں پر یلغار کرنے کیلئے پوری طاقت سے نکلیں۔ سندھ میں تحریک انصاف کو مقامی انتظامیہ کی جانب سے جن رکاوٹوں اور مزاحمتوں کا سامنا کرنا پڑا‘ ان مسائل کا پیپلز پارٹی کو پنجاب میں کہیں بھی سامنا نہیںکرنا پڑا۔ سوشل میڈیا پر اس وقت کئی ایسی تصاویر اور وڈیوز وائرل ہیں ۔نیز انتظامیہ کی طرف سے مخصوص ہتھکنڈے بھی استعمال کیے گئے مگر اس کے باوجود مٹھی، عمر کوٹ، سانگھڑ، ٹنڈو الہ یار اور بدین میںہجوم کی تعداد حیران کن تھی۔ البتہ اس سے یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ اگلے عام انتخابات میں پی پی پی کو اندرونِ سندھ پی ٹی آئی کی وجہ سے کسی بڑی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت پورے ملک سمیت سندھ میں بالخصوص پی ٹی آئی ٹوٹ پھوٹ اور اندرونی اختلافات کا شکار ہے؛ تاہم اگر الیکشن سے قبل تحریک انصاف میں گروپ بندیاں ختم ہو گئیں اور تمام افراد یکجان ہو کر لڑے تو ایسے نتائج دیکھنے کو مل سکتے ہیں جو شاید پیپلز پارٹی کیلئے اچھے نہ ہوں۔ سردست تو اس کے امکانات بہت مدہم ہیں۔ اس وقت پی ٹی آئی سندھ میں سخت گروپ بندی کا شکار ہے۔ اگر کوئی لشکر ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملانے سے کترائے گا تو پھر اس کی کسی بھی قسم کی جنگ یا مزاحمت کامیاب نہیں ہو سکتی۔ کرکٹ کے مقامی اور بین الاقوامی میچوں میں جب ٹیم کے چند لوگ کپتان کو نیچا دکھانے کیلئے تکنیکی حربے استعمال کریں‘ غلط شاٹس لگائیں‘ ناقص فیلڈنگ اور بائولنگ کریں تو اس ٹیم کی شکست محتاجِ وضاحت نہیں رہتی۔ کچھ ایسے ہی حالات کا سامنا آج کل تحریک انصاف کے کچھ وزرا کی جانب سے دیکھنے کو مل رہا ہے۔
تحریک انصاف کے مقابل پیپلز پارٹی کے کراچی سے شروع ہونے والے مارچ کی بات کریں تو سندھ میں‘کراچی سے گھوٹکی تک وہ اچھا خاصا ہجوم اکٹھا کرنے میں کامیاب رہی (جسے کچھ لوگ سرکاری وسائل اور طاقت کا شاخسانہ سمجھتے ہیں) مگر جیسے ہی اس مارچ نے گھوٹکی کراس کر کے پنجاب میں قدم رکھا تو سندھ کے مقامی (بقول کسے‘ لائے گئے)افراد ‘جو درجنوں بسوں اور کوسٹروں میں سوار دور سے ہی پہچانے جاتے تھے‘ رحیم یار خان داخل ہوتے ہوتے نہ ہونے کے برابر رہ گئے تھے۔ رحیم یار خان کی ایک تحصیل کے سوا شرکا کی تعداد کہیں بھی متاثر کن نہ تھی۔ اس تحصیل میں جمع ہونے والے بڑے مجمع کی وجہ مخدوم احمد محمود کی دن رات کی کوششیں تھیں کیونکہ ان کا آج بھی اپنے علاقے میں اچھا خاصا اثرو رسوخ ہے۔ بہاولپور اور ملتان میں میڈیا کیمروں نے عوام کی مایوس کن حاضری عیاں کر کے دکھا دی تھی۔ ساہیوال اور اوکاڑہ‘ جو کبھی پنجاب میں پی پی کا لاڑکانہ سمجھے جاتے تھے‘ میں لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد بلاول بھٹو زرداری کو دیکھنے کیلئے سڑک کے دونوں اطراف موجودرہی اور بلا شبہ یہاں عوامی مجمع ہر کسی کو نظر بھی آیا۔ اوکاڑہ سے جیسے ہی بلاول لاہور کی جانب بڑھے تو تعداد دوبارہ گھٹنا شروع ہو گئی۔ لاہور میں کسی کھلے مقام کے بجائے ناصر باغ کے سامنے تنگ سڑکوں پر جلسے کو کچھ افراد شرکاکی تعداد کو بڑھا چڑھا کر دکھانے کی سٹریٹیجی کہتے ہیں۔
26 فروری کو گھوٹکی سے شروع ہونے والا تحریک انصاف کا ''حقوق سندھ مارچ‘‘ 6مارچ کو کراچی میں اختتام پذیر ہوا جبکہ 27فروری کو مزارِ قائد کراچی سے شروع ہونے والا عوامی لانگ مارچ سندھ اور پنجاب کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا 8 مارچ کو ڈی چوک اسلام آباد میں اپنی منزل پر پہنچ کر اختتام پذیر ہوا جہاں مسلم لیگ (ن) کے وفد نے بھی لانگ مارچ کو جوائن کیا؛ تاہم ہر دوسرے ہاتھ میں موجود کیمرے کی وجہ سے اب شرکا کی تعدادکسی سے پوشیدہ نہیں رہی۔ سوشل میڈیا کے ذریعے یہ موبائل کیمرے ہر شہر اور ہر تحصیل میں ریلی کے شرکا کی تعداداور ان کا جوش و خروش دکھاتے ہوئے پانی کو دودھ سے الگ کر رہے تھے۔ اگر دوسری جگہوں پر ڈنڈی ماری بھی گئی( جیسے وہاڑی میں وزیراعظم عمران خان کے جلسے کی تعداد کو کم کر کے دکھایا گیا) تو ہرپڑائو اور ہر منزل پر موبائل ہاتھ میں تھامنے والے اصلی اور نقلی تعداد کا فرق بتانے میںایک دوسرے سے بازی لیتے رہے۔ اس لانگ مارچ کی سب سے مضحکہ خیز کہانی دیکھئے کہ جو سندھ میں گزشتہ13 برس سے بلاشرکتِ غیرے اقتدار کے مالک ہیں‘ وہ پہلی مرتبہ‘ تین اتحادی بیساکھیوں کے سہارے بننے والی حکومت کے تین سال کا حساب مانگ رہے ہیں۔ اس سلسلے میںپی پی پی کو سنیارٹی کا ہی خیال کر لیناچاہئے تھا کہ 1972ء سے پاکستان پیپلزپارٹی اب تک مجموعی طور پر مرکز میں پندرہ سال اور صوبوں میں پچیس سال سے زیا دہ اقتدار کے مزے لے چکی ہے۔ پچیس اور پندرہ ملا کر چالیس سالہ حکومت کرنے والے تین سالہ حکومت کوملک کی تباہی اور معیشت کی بربادی کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔
کراچی سندھ کا نہیں‘ ملک کا بھی سب سے اہم شہر ہے اور وہاں کی جو حالت ہے‘ اس کا ہر زبان سے نکلنے والی دعائوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ 2008ء سے سندھ میں پی پی پی کی بلا شرکت غیرے حکومت ہے۔ وہ لوگ جو سندھ میں رہ رہے ہیں یا جن کا کسی بھی سلسلے میں سندھ میں آنا جانا ہوتا رہتا ہے‘ ان سے بہترکون جان سکتا ہے کہ عوام پر کیا بیت رہی ہے۔ یہی حال پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کا ہے جس کی بیڈ گورننس کی وجہ سے عوام انتہائی مایوس ہیں۔ اس پر تو دو رائے ہی نہیں کہ پنجاب‘ جو ملکی سیا ست میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے‘ اسے محض ضد کی وجہ سے کمزور کر کے رکھ دیا گیا۔ کسی بھی وجود کو ریڑھ کی ہڈی نے ہی سنبھالنا ہوتا ہے اور پنجاب کی گورننس ہے کہ دور د ور تک دکھائی نہیں دے رہی۔ اسی وجہ سے پنجاب میںپی ٹی آئی کا وجود نہایت کمزور ہو چکا ہے۔ پنجاب حکومت کی صورت میں تحریک انصاف کو جو چوٹ لگائی گئی‘ اس کا درد یقینا اب محسوس کیا جا رہا ہو گا مگر اب تک اس غلطی کا اعتراف اور اس کا ازالہ کرنے سے کنی کترائی جا رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ انسان اگر غلطی نہ کرے تو اسے انسان نہیں کہا جا سکتا مگر اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے والا انسان ہی کامیاب رہتا ہے۔ ہر غلطی میں اصلاح کی گنجائش ہوتی ہے اور یہ گنجائش بنانا پڑتی ہے۔ تحریک انصاف کے حامیوں اور مخلص لوگوں کو جس بیدردی سے دھتکارا گیا‘ وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ نجانے عمران خان کے مخلص لوگوں کو پنجاب اور مرکز میں فائز لوگ کس جرم کی سزا دے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے جس حامی سے بات ہوتی ہے وہ رندھی ہوئی آواز سے یہی سوال کرتا ہے کہ پنجاب کو کیوںنظر اندازکیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب سندھ پی ٹی آئی نے انتظامی مخالفت کے باوجود مٹھی، قمبر، شکار پور، ٹنڈو الہ یار، عمر کوٹ اور بدین میں عوام کا جو ہجوم اکٹھا ہے‘ اس نے صوبائی سیا ست میں ہلچل مچا دی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved