کیا سرمایہ دارانہ نظام اب اپنے لیے ہی خطرہ بن رہا ہے؟ مغرب نے سرمایہ دارانہ نظام کو اُس کی منطقی انتہا تک پہنچادیا ہے۔ آج تک دنیا اصلاً کھلے بازار کی معیشت کے اصول کی بنیاد پر چلتی آئی ہے۔ ہر دور میں وہی نظامِ سیاست و معیشت کامیاب رہا ہے جس میں کھلے بازار کی معاشی سرگرمیوں پر کوئی قدغن نہ لگائی گئی ہو اور سب کو اپنی اپنی صلاحیت و سکت کے مطابق کام کرنے یعنی کمانے کی مکمل آزادی دی گئی ہو۔ اسلام بھی اِس اصول کی نفی نہیں کرتا۔ ہاں! چند شرائط ضرور اطلاق پذیر رہتی ہیں۔ ایک اخلاقی پہلو بھی ہے۔ اسلام نفع کمانے سے نہیں روکتا مگر منافع خوری کا قائل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے معاشی نظام میں اُنہیں عظیم و برتر مانا ہے جو کاروبار کے نام پر اندھی منافع خوری کا بازار گرم نہ کریں اور کمانے کے عمل میں اُن کا خیال رکھیں جو زیادہ کما نہیں پاتے اور تھوڑی بہت رعایت کے طالب رہتے ہیں۔
مغرب نے فطری علوم و فنون کے حوالے سے پیش رفت کا سفر شروع کیا تو اُس کی طاقت میں اضافہ شروع ہوا۔ ایجادات و اختراعات نے مغرب کو بہت سے معاملات میں برتری دلائی۔ عسکری قوت میں ناقابلِ یقین حد تک اضافہ ہوا۔ یہ معاملہ جب بہت بڑھا تو دنیا کی امامت مغرب کو نصیب ہو گئی۔ دنیا کی امامت ایک بڑی ذمہ داری ہے۔ یہ عنایت بہت سے معاملات میں ذمہ داریوں کا بوجھ متعلقین کے کاندھوں پر ڈالتی ہے۔ مغرب پر بھی اخلاقی اعتبار سے ذمہ داریوں کا بوجھ تھا۔ اُسے دیگر خطوں کی بہبود کے لیے کام کرنا تھا۔ مغرب نے طاقت پاکر یہ سمجھ لیا کہ وہ ہر معاملے میں حرفِ آخر ہے۔ اس نے فطری علوم و فنون میں ترقی کے ساتھ ساتھ دہریت کو بھی ایک نظریے اور فلسفے کے طور پر اپنایا۔ مغرب کے عمومی ذہن میں یہ بات ٹھونس دی گئی کہ اس کائنات کا بنانے والا کوئی نہیں، یہ سب کچھ خود بخود چل رہا ہے۔ دہریت یعنی دنیا کی زندگی ہی کو سب کچھ سمجھنا اور مرنے کے بعد کسی کے سامنے جواب دہ نہ ہونے کا تصور اصلاً مذہب بیزاری سے پیدا ہوا تھا۔ یورپ میں کلیسا نے کروڑوں انسانوں کو صدیوں غلام بنائے رکھا۔ کلیسا کی اشرافیہ نے سب کچھ اپنے ہاتھوں میں لے رکھا تھا۔ عام آدمی کی تو بساط ہی کیا تھی‘ بادشاہ تک کو مطیع و فرماں بردار بناکر رکھا گیا تھا۔ صدیوں کی غلامی سے تنگ آئے ہوئے لوگوں نے جب کلیسا کے خلاف بغاوت کی تو حد سے گزر گئے۔ ردِعمل مظالم کی نوعیت سے مطابقت رکھتا تھا۔ معاملہ مذہب کے نام پر ذاتی منفعت کا بازار گرم کرنے والوں اور معاشرے کو دبوچ کر رکھنے والے کلیسائی عہدیداروں کو خیرباد کہنے کا تھا مگر مغرب کے لوگوں نے مذہب ہی کو خیرباد کہنا شروع کر دیا۔
بیسویں صدی میں مغرب نے لبرل ڈیموکریسی اور کھلے بازار کی معیشت کا ماڈل دنیا کے سامنے رکھا اور اِسے انتہا تک پہنچایا۔ اس نظام میں کمزوروں کے پنپنے کی گنجائش نہیں رکھی گئی۔ اس نظام کے تحت کسی بھی ریاست کے لیے منتہائے مقصود یہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ طاقت کا حصول یقینی بنایا جائے۔ اس کے لیے لازم تھا کہ سیاست اور معیشت‘ دونوں کو بُری طرح اپنے حق میں استعمال کیا جائے۔ جب سیاست اور معیشت ہی کو سب کچھ گرداننے کا چلن عام ہوا تو مغرب نے لادینیت اور مذہب بیزاری کو ایک بنیادی قدر کے طور پر پیش کیا اور اِسی کے مطابق اپنی زندگی کا ڈھانچہ بھی تبدیل کیا۔ آج کا مغربی معاشرہ لادینیت کے ستونوں پر کھڑا ہے۔ عام آدمی کی زندگی میں مذہب کا کچھ خاص کردار نہیں رہا۔ لوگ کہنے کو کیتھولک یا پروٹسٹنٹ مسیحی ہیں مگر اُن کی زندگی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔ اِس کے برعکس ایسا بہت کچھ اپنالیا گیا ہے جو دینی تعلیمات کے سراسر منافی ہے۔ مغرب نے اپنی مادّی ترقی کے زعم میں ''تاریخ کا خاتمہ‘‘ جیسی کتب لکھوائیں جن میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ دنیا اپنا تاریخی، فکری اور معاشی سفر مکمل کرچکی ہے۔ لادینیت اور مذہب بیزاری پر مبنی لبرل ڈیموکریسی اور کنزیومر اِزم کے نمایاں ترین مظہر کے طور پر متعارف کرائے جانے والے کھلے بازار کے اصولوں پر مشتمل معاشی نظام کو دنیا کی حتمی تقدیر کے طور پر پیش کیا گیا۔ مغرب نے باقی دنیا کو یقین دلانے کی بھرپور کوشش کی کہ جو کچھ اُس نے حاصل کیا ہے‘ وہی حقیقت اور حرفِ آخر ہے، باقی سب کچھ دکھاوا اور آنکھوں کا دھوکا ہے۔
کنزیومر اِزم پر مشتمل معاشی نظام یا ڈھانچے نے جو گل کھلائے ہیں وہ اب ڈھکے چھپے نہیں۔ دنیا بھر میں سیاسی و معاشی خرابیاں پیدا کرکے مغربی معاشروں نے اپنے لیے انتہائی قابلِ رشک معیارِ زندگی ممکن بنایا۔ فلاحی ریاست کا تصور بہت اچھا ہے اور اُس کی عملی شکل بھی لاجواب ہے مگر اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ مغرب نے اپنے باشندوں کو جو بے مثال سہولتیں فراہم کی ہیں وہ دنیا بھر کے اربوں افراد کے حقوق پر ڈاکے ڈال کر یقینی بنائی گئی ہیں۔ امریکا اور یورپ باقی دنیا پر زور دیتے آئے ہیں کہ لبرل سیاسی نظام یعنی جمہوریت اور کھلے بازار کی معیشت کا نظام اپنائیں مگر حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر کے خطوں میں خود امریکا اور یورپ ہی نے اس حوالے سے رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں۔ مقصود صرف یہ رہا ہے کہ کہیں بھی استحکام پیدا نہ ہو اور قدرتی وسائل پر جی بھرکے قبضہ جمایا جائے۔ امریکا اور یورپ نے مل کر کئی خطوں کو عشروں تک انتہائی بُری حالت میں رکھا۔ خانہ جنگیاں کرائیں، بین الریاستی تعلقات میں کشیدگی پیدا کی تاکہ دنیا بھر میں جنگ و جدل کا بازار گرم رہے اور امریکا اور یورپ کا اسلحہ فروخت ہوتا رہے۔ اپنے ہاں تحقیق و ترقی کا معیار بلند رکھ کر امریکا اور یورپ نے باقی دنیا کو پس ماندہ رکھنے پر زور دیا تاکہ فرق بڑھتا ہی رہے۔ اب مغرب کے عام باشندے کو بھی اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ جو قابلِ رشک معیارِ زندگی وہ حاصل کرچکا ہے وہ دراصل ان گنت انسانوں کی لاشوں پر سے گزر کر یقینی بنایا گیا ہے۔ متعدد خطوں کو کمزور رکھ کر، جنگیں کراکے، خانہ جنگیوں کا بازار گرم رکھ کر امریکا و یورپ نے اپنے لیے پنپنے کی راہ نکالی۔ یہ سب کچھ اس لیے کہ راہ روکنے کے لیے مذہب اور اخلاقیات کی دیوار تھی ہی نہیں۔ دین سے دوری نے مغرب کے عام باشندے کو مادّہ پرستی کے پنجرے میں بند کردیا۔ اب اُسے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ جس مادّی ترقی کے لیے وہ اپنا سب کچھ داؤ پر لگا بیٹھا‘ اُس نے تو کچھ بھی نہیں دیا۔ زندگی کھوکھلی ہوکر رہ گئی۔ اب رشتے اور تعلقات صرف اور صرف زر سے وابستہ ہوکر رہ گئے ہیں۔
اس حقیقت کو جھٹلانا حماقت کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ مغرب میں عام آدمی نام نہاد ترقی، مذہب بیزاری، دنیا پرستی اور کنزیومر اِزم سے تنگ آچکا ہے۔ وہ اِس تصور کے تحت ضمیر کی خلش بھی محسوس کرنے لگا ہے کہ جو ترقی اور خوش حالی اُس کے لیے یقینی بنائی گئی وہ در حقیقت ان گنت انسانوں کی ایسی بدحالی کا ثمر ہے جو مغرب نے پیدا بنائی۔ مغرب پر باقی دنیا کا بہت بڑا قرض باقی ہے۔ اُسے اپنے نام نہاد لبرل ڈیموکریٹک اور اوپن مارکیٹ سسٹم کو تج کر کوئی ایسا نظام اپنانا چاہیے جس میں کمزوروں کے لیے بھی زندہ رہنے اور پنپنے کی گنجائش موجود ہو۔ اندھا کنزیومر اِزم انسان کی روح کو کچلنے کی حد تک چلا جاتا ہے اور اس سفر کی واپسی بہت مشکل ہوتی ہے۔ اب مغرب کو واپس آنا ہے۔ عام مغربی باشندہ محسوس کر رہا ہے کہ اُس نے دنیا سے بہت کچھ لیا ہے۔ اب کچھ واپس بھی کرنا چاہیے۔ مغرب کی حکومتوں کو اپنی پالیسیوں کا جائزہ لے کر اُن سے نجات پانے پر متوجہ ہونا ہے۔ مغرب کے مسلط کردہ نظام سے ایک دنیا تنگ آئی ہوئی ہے۔ یہ اندھا سرمایہ دارانہ نظام پوری دنیا کو عدم استحکام کا شکار کر رہا ہے۔ تنگ تو خود مغرب کے باشندے بھی آئے ہوئے ہیں مگر وہ کچھ کر نہیں پارہے۔ اُن کی حکومتیں اب بھی باقی دنیا کو تاراج رکھنے پر بضد ہیں۔ یہ راہ مکمل تباہی کی طرف جاتی ہے۔ ایسی تباہی جس سے بچنا کسی کے لیے بھی ممکن نہ ہوگا۔