استنبول میں میرا ڈھائی دن کا پروگرام تھا۔ 4 مارچ سے 7 مارچ دوپہر تک‘ لیکن آئی یو آئی بی پی کی ایک میٹنگ کی وجہ سے مجھے 9 مارچ تک رکنا پڑا۔ میٹنگ اس نوزائیدہ تنظیم کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تھی۔ ڈاکٹر بولوت نے مجلس کی صدارت کی۔ بنیادی طور پر کچھ اہم فیصلوں کے لیے اس میٹنگ کی ضرورت تھی‘ اور یہ میٹنگ بہت کامیاب رہی۔
دیار غیر میں پرواز سے چند گھنٹے پہلے آپ کا موبائل فون غائب ہو جائے تو آپ مسافر کی پریشانی کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ پرانے وقتوں میں دیو کی جان طوطے میں ہوا کرتی تھی۔ اب جدید دور کے آدمی کی جان موبائل میں ہے۔ یہ طوطا پُھر سے اڑ جائے یا بالکل غائب ہوجائے تو انسان پریشانی میں ایسے پھرتا ہے جیسے میلے میں اس کا بچہ کھو گیا ہو۔ میں میٹنگ سے واپسی پر رات گئے ایک ترک دوست کی گاڑی میں ہوٹل پہنچا تھا۔ کمرے میں آتے ہی موبائل کا خیال آیا۔ جیبیں ٹٹولیں تو موبائل غائب تھا۔ کافی تلاش اور ناکامی کے بعد یہی ذہن میں آیا کہ شاید میٹنگ والے دفتر میں رہ گیا ہے۔ رات کافی گزر چکی تھی اور یقین تھا کہ دفتر بھی اب بند ہوچکا ہوگا۔ ایک بڑامسئلہ یہ تھا کہ سب ترک دوستوں کے نمبر اسی موبائل میں تھے جو غائب تھا، لہٰذا نمبر کیسے ڈھونڈے جائیں؟ یہ دریا کیسے پار ہوا‘ یہ الگ داستان ہے‘ لیکن اس وقت پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی جب پتہ چلا کہ دفتر میں تلاش کیا گیا‘ لیکن کہیں موبائل نہیں ملا۔ موبائل نمبر پر مسلسل کال کرنے سے گھنٹی بج رہی تھی، سو آخر میں یہی خیال آیا کہ ہو نہ ہو، اس ترک دوست کی گاڑی میں رہ گیا ہے جس نے ہوٹل میں چھوڑا تھا۔ قصہ مختصر دعائیں مانگتے اور رابطے کرتے مزید ایک ڈیڑھ گھنٹہ بیت گیا‘ لیکن یہ ڈیڑھ گھنٹہ ایک صدی سے کم نہیں تھا۔ بالآخر جب گاڑی والے ترک دوست میرا موبائل ہاتھ میں لیے مسکراتے ہوئے ہوٹل کی لابی میں داخل ہوئے تو جیسے کسی نے جسم میں جان ڈال دی ہو۔ اللہ انہیں خوش رکھے کہ سخت سردی میں رات گئے دوبارہ آئے۔
مجھے ایسا لگتا ہے کہ اب جو دنیا میں نئے ائیر پورٹس بنے ہیں، ان کا بنیادی خیال یہ ہے کہ مسافروں کی سہولت نہیں، ائیر پورٹ انتظامیہ کی اپنی سہولت سب سے اہم ہے۔ مسافر کو کوئی دقت ہے تو ہوا کرے۔ وہ تو حل کرہی لے گا کسی نہ کسی طرح۔ مسئلہ ان لوگوں کا ہے جو روز یہیں ائیر پورٹ پر وقت گزارتے ہیں۔ بورڈنگ کی قطاروں سے لے کر جہاز کے گیٹ تک لمبے لمبے فاصلے۔ ایک نووارد کس فلائٹ کے لیے کہاں جائے؟ اس کی رہنمائی کی سخت کمی۔ فری انٹرنیٹ کا پیچیدہ نظام جو استعمال کرنا بھی ایک فن سے کم نہیں۔ انتہائی سخت سکیورٹی چیکنگ۔ مسافر اگر خرم اور شاداں ہے تو ائیر پورٹ میں داخل ہوتے ہی اسے پریشاں حال بنا دینا ان ائیرپورٹ والوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ استنبول ائیر پورٹ بھی اس میں کوئی استثنائی مثال نہیں ہے۔ مجھے شکاگو کی فلائٹ لینی تھی۔ سو اتنے سارے چیک ان کاؤنٹرز میں کس جگہ پہنچنا ہے کچھ پتہ نہ تھا۔ ائیر پورٹ پر بھی انگلش جاننے والے کم کم ہی تھے اور جو تھے انہوں نے گمراہ کرنے کا فریضہ سنبھال رکھا تھا۔ درست جگہ پہنچنے کی تلاش بھی خزانے کے تلاش جیسی تھی۔ سو میں تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا‘ اور صرف مارا مارا نہیں پھر رہا تھا‘ بجلی کے جھٹکے بھی کھاتا پھر رہا تھا۔ ایک ایسی ٹرالی کے ساتھ جو کسی تند خو حسینہ جیسی تھی۔ استنبول ائیر پورٹ پر مسافروں کے لیے سامان کی ٹرالیوں کا انتخاب کرتے ہوئے دو باتوں کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ ایک تو یہ کہ ٹرالی مفت نہ ہو بلکہ دس لیرا کا نوٹ اس عشوہ طراز کی نذر کیا جائے تو ساتھ چلنے پر تیار ہو، ورنہ انکار کردے۔ دوسرے یہ کہ ہر کچھ دیر بعد ایک ایسا کرنٹ مسافر کو مارے کہ لدھڑ سے لدھڑ اور کاہل سے کاہل مسافر بھی بجلی کی تیزی سے اپنا ہاتھ ٹرالی سے ہٹانے پر مجبور ہوجائے۔ بہت زوردار جھٹکا نہ سہی، اتنا ضرور ہے کہ بندے کے منہ سے ہلکی سی چیخ ضرور نکل جاتی ہے۔ میں ستمبر 2021 میں آیا تھا تو یہی بجلی کے جھٹکے کھائے تھے اور سوچا تھا کہ شاید میں نے کوئی غلط ٹرالی لے لی ہے جس کی سزا کے طور پر کرنٹ لگایا جاتا ہے۔ اب 4 مارچ کو جب استنبول آمد پر ٹرالی سنبھالی تو وہی بجلی کے جھٹکے اور اس دن 9 مارچ کو جاتے ہوئے پھر ٹرالی کا وہی بہیمانہ سلوک۔ پہلی بات تو یہی کہ بھئی اتنے مالدار ائیر پورٹ جو اربوں ڈالر کے خرچے سے بنے ہیں، مفت ٹرالی، مفت انٹر نیٹ کیوں نہیں دے سکتے؟ جو مسافروں کی بنیادی ضرورتیں ہیں۔ دوسرے یہ کہ دس لیرا خرچ کرنے کے بعد دس بار کرنٹ کے جھٹکے کھانا کیوں ضروری ہے۔ کوئی ہمدرد، انسان دوست ٹرالی کیوں منتخب نہیں کی جا سکتی؟ دراصل ٹرالی کے کچھ حصے سٹیل اور کچھ حصے پلاسٹک کے ہیں۔ اگر غلطی سے دھاتی حصے پر ہاتھ پڑ جائے، جو احتیاط کے باوجود پڑ ہی جاتا ہے، تو وہ اس طرح غصے کا اظہار کرتی ہے جیسے کسی حسینہ کو چھو لیا ہو۔ اپنے کاؤنٹر کی تلاش میں ادھر سے ادھر پھرنے اور سات آٹھ جھٹکے کھا چکنے کے بعد میں سکیورٹی پولیس کی ایک ترک حسینہ سے رہنمائی کے لیے رکا۔ اسے رہنمائی کے لیے انگلش الفاظ کے انتخاب میں مشکل پیش آرہی تھی، اس سوچ بچار میں اس نے اپنا دست نازک میری ٹرالی کے برہنہ حصے پر رکھ دیا۔ فوراً ہی اس کی چیخ سے اندازہ ہوا کہ ٹرالی نے طیش کا اظہار کیا ہے۔ یقین کریں اس چیخ سے ایک کمینی سی خوشی محسوس ہوئی۔ ایک تو یہ سوچ کر کے یہ صرف مرد کُش ٹرالی نہیں، صنفی امتیاز کے بغیر عورتوں سے بھی یہی سلوک کرتی ہے۔ دوسرے اس بات کی کہ صرف مسافروں کو ہی نہیں، ائیر پورٹ کے عملے کو بھی کرنٹ مارتی ہے۔ میں نے ٹرالی گزیدہ دوشیزہ سے معذرت کی لیکن سچ یہ ہے کہ معذرت میں میرا دل شامل نہیں تھا۔ اس عفیفہ نے بھی تکلیف اور آنسو ضبط کرکے کہا کہ کوئی بات نہیں۔ یہ بجلی کی ٹرالی ہے اور ایسا ہی کرتی ہے۔
مطلوبہ چیک ان کاؤنٹر بالآخر مل ہی گیا‘ لیکن ابھی کاؤنٹر تک نہیں پہنچا تھا کہ پولیس کے ایک صاحب نے پاسپورٹ دکھانے کو کہا۔ ساتھ ہی یہ بھی تسلی دی کہ میں زیر تربیت بندہ ہوں اور یہ ایک معمول کا عمل ہے۔ کچھ سوالات پوچھے‘ جن کی کوئی خاص ضرورت مجھے نہیں لگی کہ ہر مسافر کا ریکارڈ کمپیوٹر میں موجود ہوتا ہے۔ پھر کہا کہ مجھے آپ کا یہ پاسپورٹ اپنے سپروائزر کے پاس لے جانا ہوگا۔ میں نے کہا: ہرگز نہیں میں پاسپورٹ آپ کے حوالے نہیں کروں گا۔ آپ کو ضرورت ہے تو اپنے سپروائزر کو یہیں لے آئیے۔ سپروائزر صاحب آئے اور آکر غصہ کیا کہ آپ نے پاسپورٹ کیوں نہیں دیا۔ خیر انہوں نے ایک دو منٹ بعد مجھے کلیئر کردیا۔
چار چار جگہ ہاتھ کے بیگ کی تلاشی، جسمانی تلاشی، سکیننگ مشینوں سے گزرنے کی آزمائش، اور کاغذات کی چیکنگ کے سخت مرحلوں سے گزرنے کے بعد جب میں بالآخر بورڈنگ کے لیے جہاز کی طرف جارہا تھا تو میرا شک یقین کے درجے میں داخل ہوچکا تھا کہ ہو نہ ہو، میں نے کوئی جرم کیا ضرور ہے، جس کا مجھے علم نہیں، لیکن ان لوگوں کو سب پتہ ہے۔ بس میری مسافرت پر ترس کھا کر جانے دے رہے ہیں۔ میں نے ان لوگوں کی خدا ترسی پر ان کے لیے اجر کی دعا مانگی اور جہاز میں داخل ہوگیا۔