تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     08-08-2013

’’مگر یہ قانون ہے‘‘

طالب علم کو محمود غزنوی کا ژولیدہ فکر بھائی مسعود غزنوی یاد آیا ، غزنویوں کی سلطنت کو جس نے بکھیر دیا تھا ۔ اس کی کہانی پھر کبھی لیکن تاریخ کا سبق یہ ہے کہ متامل راہبر خود بھی بھٹکتے ہیں اور قوموں کے قافلے بھی برباد کر دیا کرتے ہیں ۔ ریاست کی سلامتی ایک ابدی قانون ہے اور اس قانون سے انحراف کا نتیجہ طوائف الملوکی! نیو یارک کے ہوائی اڈے پر امیگریشن کے نا تراشیدہ کلرک نے پاسپورٹ مجھے واپس کر دیاکہ جائے قیام کا پتہ درج نہ تھا ۔ میں نے اسے بتایا کہ اپنے بھائی کے گھر پہ مجھے قیام کرنا ہے اور پتہ پوچھنے کا خیال نہ رہا۔ کچھ دیر پہلے ایک ہم سفر نے کہا تھا : کسی بھی ہوٹل کا نام لکھ دو، قانون کا تقاضا پورا ہو جائے گا۔ طبیعت آمادہ نہ ہوئی ۔ اب میں ہوائی اڈے سے باہر نہ نکل سکتا تھا۔ ایک کے بعد دوسری دلیل پیش کی۔ ہر بار اس کا جواب یہ تھا \"But this is law\" کسی نے بتایا کہ فضائی کمپنی کے نمائندے سے مشورہ کیا جائے ، جو رہنمائی کے لیے موجود رہتاہے۔ وہ ایک الجزائری تھا اور نہایت خوش مزاج۔ پاسپورٹ کے اوراق اس نے پلٹ کر دیکھے اور بشاشت سے کہا ’’اور نیو یارک کے بعد آپ عمرہ کرنے حجاز جائیں گے؟ ابھی میں آپ کا مسئلہ حل کیے دیتا ہوں لیکن وادیء بطحا میں مجھے یاد رکھیے گا‘‘۔ پھر پوچھا ’’کیا ہوائی اڈے پر کوئی شخص تمہارے لیے موجود ہے؟‘‘ میں نے اسے نام بتایا ۔ فوراً ہی ایجنٹ پلٹ کر آیا اور اس کے ہاتھ میںکاغذ پر لکھا ہوا پتہ موجود تھا۔ رہنمائی کے لیے بتایا کہ خاندان کے کسی فرد کی بجائے، تمہارے بھائی کا ایک ملازم باہر کھڑا ہے ، ایک بڑی سی گاڑی کے ساتھ اور اس کا نام یہ ہے۔ پھر اس نے اپنے الفاظ دہرائے ’’جب تم مکہ پہنچو تو مجھے یاد رکھنا اور اگر ممکن ہو تو کسی طرح آبِ زم زم کا ایک گھونٹ میرے لیے بھیج دینا‘‘۔ ـ پلٹ کر دیکھا تو وسیع و عریض ہال خالی پڑا تھا۔ ہجوم کے بعد یکایک طاری ہو جانے والا سنّاٹا ، جو اداس اور حیران کر تا ہے ۔ ادھیڑ عمر کا ایک آدمی میری طرف بڑھا ۔ ایک پر اعتماد، آسودہ اور آسان سا آدمی ۔ قدرے اپنائیت کے ساتھ ا س نے کہا ’’کیا مسئلہ ہے؟ کیا مسئلہ ہے؟‘‘۔۔۔ ’’ایڈریس‘‘ میں نے اسے جواب دیا ’’ایڈریس‘‘۔ میرا ہاتھ تھامے ، وہ اس کلرک کے پاس پہنچا ۔ اشارہ پا کر برق رفتاری سے اس نے پاسپورٹ پر مہر لگائی ۔ پھر وہ سینئر افسر، جس کے لیے شاید سپرنٹنڈنٹ کا لفظ موزوں ہو، باہر کے دروازے پر مجھے چھوڑنے آیا۔ ایک بے نوا اور تنہا آدمی کو، جسے زندگی میں اسے دوبارہ کبھی نہ ملنا تھا ۔ ایک شائستہ اور کسی قدر معذرت خواہانہ لہجے میں اس نے کہا: یہ کوئی قضیہ نہ تھا ، مگر وہ سمجھ نہ سکا ۔ آپ کی تاویل اسے مان لینی چاہیے تھی۔ صحت مند اور جواں سال کلرک‘ افسر کے سامنے مودب رہا مگر زیرِ لب ایک بار پھر وہی جملہ \"But this is law\"مگر یہ قانون ہے ، قانون! قانون! جب تک آئین کو مقدس نہ مانا جائے گا او ردل کی گہرائیوں سے قوانین کا احترام نہ کیا جائے گا ، ملک کو قرار نصیب نہ ہوگا۔ بریگیڈئیر امام ، اللہ ان کی مغفرت کرے ، نہایت ہی جذباتی آدمی تھے ۔ خیالات کی ر ومیں بہہ جانے والے ۔ ٹی وی کے ایک مذاکرے میں انہوںنے یہ کہا: امیر المومنین ملّا عمر کا فرمان یہ ہے کہ طالبان سرحدوں کے پابند نہیں ۔میں دنگ رہ گیا ۔ وہ ایک تربیت یافتہ فوجی افسر ہے اور نہیں جانتا کہ سرحدیں کس قدر مقدس ہوتی ہیں۔ مودبانہ ان کی خدمت میں عرض کیا: اللہ کی کتاب یہ کہتی ہے کہ اوفوا بالعہدِ ان العہدَ کان مسئولا۔ پیمان کی پابندی کیاکرو کہ روزِ جزا وعدوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ پاکستان ایک ملک ہے اور افغانستان دوسرا۔ کوئی شخص کتنا ہی محترم کیوں نہ ہو ، وہ اس معاہدے کو پامال نہیں کر سکتا ، جو اقوام کے درمیان ہو ۔ریاست کی نافرمانی میں جن زاہدوں کے عاشق تھے، انہی کے ہاتھوں وہ قتل ہوئے۔ ایک نجیب مگر سادہ لوح آدمی! دوسروں کا حال بھی پتلا ہے ۔ حکمران اورطاقتور سیاستدان ضابطے پامال کرتے ہیں ، جاگیردار ، ریاست کو طاق پہ رکھ کر من مانے احکام صادر کرتے ہیں ۔ رشوت وصول فرما کر افسر قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہیں ۔ بعض مذہبی طبقات کا معاملہ مگر سب سے بدتر ہے ۔ مولوی صاحب کرنل قذافی سے روپیہ لیا کرتے اور صدام حسین سے بھی ۔ اردن سے ان کے رابطے رہے اور ایک عرب ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ سے دن دہاڑے انہوںنے ملاقات کی ۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنی کابینہ کو بتایاتھاکہ ایک بار وہ بھار ت سے بھی زرِ نقد لے کرآئے تھے ۔ بعد میں جنر ل کی ان سے مصالحت ہو گئی اور دونوں ایک دوسرے کے مدّاح ہو گئے۔ ان دنوں جنرل صاحب سے ان کے وزیرِ خارجہ نے جب یہ کہا کہ مولوی صاحب بدعنوان ہیں تو ان کا جواب یہ تھا ’’ثبوت تو کوئی نہیں‘‘۔ یہ بھی فرمایا کہ وہ ایک بڑے لائق سیاستدان ہیں اور حالات کے تیور خوب پہچانتے ہیں ۔ کچھ کارنامے مشرف نے انجام دئیے ، کچھ عظیم حماقتیں اس سے پہلے جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں برپا ہوئی تھیں ۔ دہشت گردوں کے راستے کی باقی رکاوٹیں مولوی صاحب اور ان کے ہم نفسوں نے دور کر دیں ۔ انہیں تو چھوڑیے ، عصرِ رواں کے شیر شاہ سوری ، جناب شہباز شریف کو یہ بات معلوم نہیں کہ سیاسی اقتدار کے لیے قانون کی رسوائی اگر گوارا کر لی جائے تو معاشرہ طاعون کا شکار ہو جاتاہے ۔ لاہو رکے بھرے جلسے میں ، طالبان سے انہوںنے اپیل کی تھی کہ پنجاب پر حملے کرنے سے انہیں گریز کرنا چاہیے۔ عمران خان ارشاد کرتے ہیں کہ یہ ہماری جنگ نہیں ۔ کیا کہنے ،کیا کہنے ۔بجا کہ امریکہ اصل مجرم ہے مگر طالبان ہماری فوجی تنصیبات ، ہمارے ہوائی اڈّوں ، مساجد ، مارکیٹوں اور مزارات پر بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلتے رہیں اور جواب میں ہم مودب رہیں؟ میاں محمد نواز شریف اس بدقسمت ملک کے وزیرِ اعظم ہیں اور تیسری بار وزیراعظم۔ فرمان ان کا یہ ہے کہ طالبا ن سے مذاکرات کرنے چاہئیں۔ شوق سے، کس نے روکا ہے آپ کو مگر کیا کبھی اپنے باغیوں سے استدعا کرنے والی کوئی ریاست زندہ رہ سکی ہے؟ یہی نوازشریف سعودی حکام کی اجازت کے بغیر سرور پیلس کے بڑے دروازے سے باہر نہ نکلتے تھے ۔ عمران خان لندن میں ٹریفک کے ایک ادنیٰ ضابطے کی خلاف ورزی نہ کریں گے ۔ طالبان پسپا تھے لیکن اب وہ پھر طاقتور ہیں ۔ اس لیے کہ دہشت گردی کے باب میں حکومت کی کوئی پالیسی ہی نہیں ۔ پالیسی کیا ، نقطہ نظر ہی نہیں ۔بخدا چند ماہ کے اندر یہ جنگ مکمل طور پر ہم جیت سکتے ہیں۔اب تک ہم اس لیے نہ جیت سکے کہ دہشت گردوں کی مخالف پیپلز پارٹی اور اے این پی کو مغرب نواز مانا جاتاہے اور جو نسبتا ًمقبول ہیں ، نواز شریف اور عمران خان ، وہ انشراحِ صدر سے محروم، یکسر محروم۔ کنفیوژن کے مارے ہوئے ،متذبذب اور متامل! طالب علم کو محمود غزنوی کا ژولیدہ فکر بھائی مسعود غزنوی یاد آیا ، غزنویوں کی سلطنت کو جس نے بکھیر دیا تھا ۔ اس کی کہانی پھر کبھی لیکن تاریخ کا سبق یہ ہے کہ متامل راہبر خود بھی بھٹکتے ہیں اور قوموں کے قافلے بھی برباد کر دیا کرتے ہیں ۔ ریاست کی سلامتی ایک ابدی قانون ہے اور اس قانون سے انحراف کا نتیجہ طوائف الملوکی!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved