تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     17-03-2022

ستاروں کی چال اور عدم اعتماد

اپوزیشن کی جانب سے اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائی گئی عدم اعتماد کی تحریک اور ملکی سیاست کے مستقبل کے حوالے سے ستاروں کی چال کے حوالے سے فیصل آباد سے مشہور ماہرِ نجوم حاجی آصف پیر نے دعویٰ کیا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہو جائے گی۔ ان کا یہ دعویٰ کس قدر درست ثابت ہوتا ہے‘ یہ تو اگلے چند دنوں میں پتا چل جائے گا مگر تجربہ یہی ہے کہ اس سے پہلے انہوں نے ملکی سیاست کے حوالے سے جو بات بھی کی‘ وہ سو فیصد درست ثابت ہوئی۔ جب ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان 2014ء میں وزیراعظم میاں نواز شریف کے خلاف اسلام آباد دھرنا دینے کے لیے لاہور سے روانہ ہوئے تھے تو میں نے حاجی صاحب سے حکومت کا مستقبل پوچھا، انہوں نے جو جواب دیا وہ کم از کم میرے لیے خاصا مضحکہ خیز تھا۔ ان کا جواب تھا کہ جب تک مصباح الحق پاکستان کی کرکٹ ٹیم کا کپتان ہے‘ نواز شریف کی حکومت ختم نہیں ہو گی۔ جس رات دھرنے کے شرکا ڈی چوک کی جانب بڑھنا شروع ہوئے تو میں نے ان سے دوبارہ استفسار کیا، ہر بار یہی جواب ملتا کہ جب تک پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کپتانی پر مصباح الحق فائز ہیں‘ میاں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کو کوئی خطرہ نہیں۔ اس پیش گوئی کا علم مریم نواز اور طلال چودھری سمیت کئی مسلم لیگی رہنمائوں کو تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جب بھی مصباح الحق کرکٹ ٹیم کی کپتانی چھوڑنے کی بات کرتے‘ انہیں روک دیا جاتا مگر پھر ان کے پٹھوں میں درد شروع ہو گیا اور وہ لاہور کے ایک پوش علاقے میں واقع ایک ہسپتال کے تہہ خانے میں فزیو تھراپی کیلئے جانے لگے۔ جس کمرے میں وہ فزیو تھراپی کراتے تھے‘ اس کے ساتھ والے کمرے میں میرا بیٹا داخل تھا۔ یہیں ان سے علیحدگی میں بھی کچھ بات چیت ہوئی۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب مصباح الحق نے ون ڈے کے بعد ٹیسٹ کرکٹ سے بھی ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔ جیسے ہی مصباح الحق نے مئی 2017ء میں کرکٹ کے تمام فارمیٹس سے ریٹائرمنٹ لی‘ چند ہی ہفتوں بعد میاں نواز شریف بھی وزیراعظم کے عہدے پر بر قرار نہ رہ سکے اور عدالت نے انہیں نااہل قرار دے دیا۔
ایک میگزین کے دسمبر1997ء کے شمارے کے لیے مشہور پامسٹ اور آسٹرولوجر صادق محمود ملک کاانٹر ویو کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ یہ انٹرویو ایسے وقت کیا گیا تھا جب اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور وزیراعظم میاں نواز شریف کے مابین مخاصمت اپنے عروج پر تھی اور لگتا تھا کہ کسی بھی وقت میاں محمد نواز شریف کی حکومت کو گھر بھیج دیا جائے گا۔ صادق ملک نے اس انٹرویو میں جو پیش گوئی کی‘ وہ آج بھی میگزین اور اخبارات کے صفحات میں ان الفاظ کے ساتھ محفوظ وموجود ہے کہ ''میاں نواز شریف کو کچھ بھی نہیں ہو گا‘ وہ اپنے عہدے پر قائم رہیں گے، ان کی راہ میں جو بھی رکاوٹ بنے گا‘ اسے اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑیں گے‘‘۔ بعد ازاں سب نے دیکھا کہ پہلے سجاد علی شاہ اور سردار فاروق لغاری رخصت ہوئے‘ پھر جنرل جہانگیر کرامت کو بھی جانا پڑ گیا۔ ملک صاحب نے اس انٹرویو میں انکشاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ 1999ء کے آخری مہینوں میں کوئی ایسا انہونا واقعہ رونما ہو گا جس کے بعد نواز شریف کی حکومت ختم ہو جائے گی اور ساتھ ہی ان پر‘ ان کی فیملی اور دوستوں کے لیے سخت قسم کے حالات شروع ہو جائیں گے۔ انٹر ویور نے پوچھا: کیا ان کی حکومت کے خاتمے میں بے نظیر بھٹو کا ہاتھ ہو گا؟ جواب ملا: نہیں! اس میں بینظیر بھٹو کا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا بلکہ انہیں تو پتا ہی بعد میں چلے گا اور اس صورت حال سے ان کو کسی قسم کا کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔
دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ سوائے چند افراد کے‘ کوئی بھی اس طرح کے واقعات پر یقین نہیں کرے گا لیکن جو کچھ ہوا‘ وہ آج اخبارات کے ریکارڈ کا حصہ بن چکا ہے۔ میں چونکہ ایسے کئی واقعات کا مشاہدہ کر چکا ہوں‘ سو اس سیاسی بے یقینی کے عالم میں حکومت کے مستقبل کے حوالے سے سوال کیا تو جواب ملا کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جائے گی اور عمران خان دسمبر 2022ء تک کہیں نہیں جا رہے؛ تاہم وہ الیکشن وقت سے پہلے کرا دیں گے۔ جب سے عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی ہے‘ ملک میں ہر جگہ سیاسی منڈیاں لگی ہوئی ہیں۔ ایسے ایسے چہرے بے نقاب ہو رہے ہیں کہ خدا کی پناہ! حرص و ہوس اور لالچ کی ایسی ایسی قلابازیاں ملکی سیاست میں دیکھنے اور سننے کو مل رہی ہیں کہ اس نے ہمارے معاشرے اور سیاست کو عریاں کر کے رکھ دیا ہے۔ وہ لوگ جو اپوزیشن کی داخل کی گئی اس عدم اعتماد تحریک کا حصہ بن رہے ہیں‘ چاہے ان کا تعلق کسی بھی گروہ یا جماعت سے ہو‘ اس ملک کی نئی نسل اور شعور رکھنے والے لوگوں کی نظروں میں ایسے افراد کا کوئی مقام باقی نہیں رہا۔ اس ایک تحریک نے مفاد پرستوں اور سیاست کے بکائو مال کی ذہنیت، سوچ اور اصلیت کو بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے۔
غیر ملکی نمائندے اور عہدیداران اپوزیشن جماعتوں کے ہر چھوٹے بڑے رہنما سے اسی طرح ملاقاتیں کر رہے ہیں جس طرح ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قومی اتحاد کے زیر اہتمام ''نظام مصطفی‘‘ کے نام سے چلائی جانے والی تحریک میں ملتے رہے تھے۔ یہ اسی طرح تھا کہ ''دُم نال دوستی تے گھوڑے نال ویر‘‘۔ لگتا ہے کہ آزاد خارجہ پالیسی اور امریکا کو اڈے دینے سے انکار کے بعد امریکیوںکو وزیراعظم عمران خان کے نام سے بھی چڑ ہو چکی ہے۔ ایک طرف غیر ملکی عہدیداران ہر ایرے غیرے کے گھر کا چکر کاٹ رہے ہیں اور دوسری طرف امریکا کے صدر جو بائیڈن وزیراعظم پاکستان سے ایک منٹ کے لیے فون پر بات چیت کرنے کو بھی تیار نہیں۔ ایف اے ٹی ایف، آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی اداروں کے ذریعے پاکستان پر دبائو برقرار رکھنے بلکہ اس میں اضافہ کرنے سمیت ہر حربہ آزمایا جا رہا ہے مگر خان صاحب ہیں کہ ڈٹے ہوئے ہیں اور کھل کر للکار رہے ہیں۔ ڈرون حملوں سے متعلق انہوں نے جو موقف اپنایا ہے‘ اس کی عوامی سطح پر تو خوب پذیرائی ہو رہی ہے مگر بہت سے طبقات کو یہ بھی خدشہ ہے کہ اس کے لانگ ٹرم میں منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ وجہ صرف یہی ہے کہ ابھی تک ہم گومگو کا شکار ہیں اور ایک قدم آگے بڑھ کر دو قدم پیچھے ہٹا لیتے ہیں۔ ابھی تک یہ واضح ہی نہیں کر سکے کہ ہمیں بدلتے عالمی نظام میں کہاں کھڑا ہونا ہے۔ موجودہ سیاسی منظر نامے میں جس چیز نے اس ملک کے پڑھے لکھے اور باشعور طبقے کو چونکا کر رکھ دیا ہے وہ غیر ملکی عہدیداران کی ملکی سیاست کے نمایاں کرداروں سے کہیں کھلم کھلا تو کہیں چھپ چھپا کر ملاقاتیں ہیں۔ جس کا مطلب یہی ہے کہ عمران خاں بطور وزیراعظم مغرب کو پسند نہیں اور ان کا مزید اس عہدے پر برقرار رہنا انہیں قطعی گوارا نہیں۔ مجھے اس خبر میں کوئی صداقت نظر نہیں آ رہی کہ غیر ملکی ایجنسیوں نے موجودہ حکومت ختم کرانے کیلئے 350 ملین ڈالر کی رقم مختص کر رکھی ہے کیونکہ یہ سب سنی سنائی باتیں ہیں جن کے کوئی ثبوت کسی کے بھی پاس نہیں لیکن کچھ تو ایسی بات ضرور ہے کہ ایسی خبریں انتہائی معتبر اداروں میں بھی گردش کر رہی ہیں۔ اس بات کا شک اس لیے بھی بڑھ جاتا ہے کہ کسی بھی ملک کے خلاف سازشوں کا آخری کھیل کھیلنے سے قبل ایک اطلاعاتی جنگ کا آغاز کیا جاتا ہے تاکہ اپنے ہدف کے خلاف عوامی ماحول تشکیل دیا جا سکے اور یہ ماحول ہمیں کچھ عرصے سے صاف نظر آ رہا ہے۔
1989ء میں محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد کی قیادت میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی تو اس وقت میاں نواز شریف کی پنجاب حکومت نے پیپلز پارٹی اور فاٹاکے اراکینِ اسمبلی کو لاہور کے ایک ہوٹل میں پولیس کے پہرے میں ٹھہرا رکھا تھا۔ پھر رات گئے ان کو چھانگا مانگا کے ریسٹ ہائوسز میں لے جایا گیا اور وہاں سے انہیں مری پہنچا دیا گیا۔ جب یہ سب لوگ وہاں پہنچ گئے تو نوابزادہ نصر اﷲ اور مصطفی جتوئی نے ارادہ کیا کہ ہمیں پریس کانفرنس میں پیپلز پارٹی اور فاٹا کے اراکین اسمبلی کو بٹھا کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اسی دوران لاہور‘ ماڈل ٹائون سے ایک فون کال میں پوچھا گیا: تحریک عدم ا عتمادکی کامیابی کے نتیجے میں وزیراعظم کون بنے گا؟ جواب ملا: مصطفی جتوئی۔ پھر ہلکی سی ڈانٹ آئی ''اس میں تمہیں کیا ملا؟‘‘۔ یوں بینظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ٹھس ہو گئی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved