وزیراعظم صاحب نے فرمایا ہے کہ میں اپوزیشن کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مہنگائی کا مدعا ہی ختم کر دیا ہے‘ عوام میری حمایت میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ وزیراعظم صاحب کا یہ بیان اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ واضح پیغام دے رہا ہے کہ شاید مہنگائی کم یا زیادہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ حکومت کا مقصد عوام کی توجہ ہٹانا تھا‘ جو پورا ہو گیا ہے۔ یہ صرف آج کی بات نہیں ہے بلکہ قیام پاکستان سے لے کر موجودہ دور تک‘ اکثر حکومتیں اسی پالیسی پر گامزن رہی ہیں۔ پاکستان کی حرمان نصیبی یہی رہی ہے کہ حکمران وسائل اور طاقت کا استعمال عوام کو حقیقی ریلیف دینے کے بجائے انہیں دیگر غیر ضروری امور میں مصروف رکھنے کے لیے کرتے آئے ہیں۔ سرکار اربوں روپے جلسوں اور جلوسوں پر خرچ رہی ہے۔ 27 مارچ کو دس لاکھ لوگ اسلام آباد لانے کے لیے پیسوں کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔ سرکار کا خیال ہے کہ اس طرح حکومت بچ جائے گی لیکن طاقت کی سیاست میں عوامی رائے کی زیادہ اہمیت نہیں ہوتی ہے۔ پاور گیم میں نمبر پورے ہونا ضروری ہیں۔ کیا اسمبلی کے 172 ارکان ڈی چوک پر کھڑے 10 لاکھ لوگوں سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں؟ ہم شاید ماضی سے سیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ پچھلے دورِ حکومت میں نواز شریف نے عوامی رائے بدلنے کے لیے ملک کے طول و عرض میں کامیاب جلسے کیے۔ قرضوں میں ڈوبے عوام کا اربوں روپیہ خرچ ہوا‘ عوام کی توجہ کرپشن کیسز سے ہٹانے میں بھی وہ کسی حد تک کامیاب رہے‘ لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ نواز شریف اپنی وزارتِ عظمیٰ بچانے میں ناکام رہے بلکہ جیل کی ہوا بھی انہیں کھانا پڑی۔ اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو بھی عوامی جلسوں میں عوام کے کروڑوں روپے خرچ کرتے رہے۔ عوامی ہمدردی ان کے ساتھ تھی لیکن نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ حکومت سے گزارش ہے کہ وہ ماضی سے سبق سیکھے اور غریب عوام کے ٹیکس کے پیسوں کے ضیاع سے گریز کرے۔
اس وقت معاشی صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی ٹیکس آمدن تقریباً 6 ہزار ارب روپے ہے جس میں سے تقریباً 4500 ارب روپے قرضوں کی ادائیگی میں چلے جاتے ہیں‘ لگ بھگ 3400 ارب روپے اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کی جھولی میں ڈالے جاتے ہیں۔ تقریباً 1300 ارب روپے دفاعی ضروریات کے لیے درکار ہوتے ہیں‘ لگ بھگ ایک ہزار ارب روپوں کی پنشنز ادا کرنا ہوتی ہیں‘ تقریباً 800 ارب روپے کے کارپوریشنز کے نقصانات ہیں۔ ان کے علاوہ سرکاری تنخواہیں اور دیگر اخراجات بھی ہیں سو مالی سال کے پہلے دن ہی آمدن ختم ہو جاتی ہے اورخالص نقصان کے ساتھ بجٹ کا نیا سال شروع ہوتا ہے یعنی پورا سال قرضوں پر ملک چلانا ہوتا ہے۔ اسی لیے ہر دوسرے دن حکومت کسی ملک یا ادارے سے قرض مانگ رہی ہوتی ہے۔ سعودی عرب، چین کے علاوہ موٹرویز گروی رکھ کر قرض لینے اور خرچ کر لینے کے بعد حکومت کا اب اگلا ہدف جی 20 ممالک ہیں۔ حکومت نے ان ممالک سے گزارش کی ہے کہ 400 ملین ڈالرز کے قرضوں کی مدت بڑھا دی جائے۔ پاکستان جی 20 ممالک سے تقریباً 10 ارب ڈالرز قرض لے چکا ہے۔ دنیا یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ہماری اکنامک پالیسی کیا ہے اور فارن پالیسی کن اصولوں کے تحت چل رہی ہے۔
وزارتِ خزانہ اور وزارتِ خارجہ کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے‘ خاص طور پر جب سے دنیا گلوبل وِلیج بنی ہے‘ بیرونی ممالک سے معاشی تعلقات بنانا اور قائم رکھنا اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ایک طرف ہم جی 20 ممالک سے قرض مانگ رہے ہیں اور دوسری طرف یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ ہم اپنی خودمختاری پر سودا نہیں کریں گے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کون سی خودمختاری کا سودا نہ کرنے کا عزم کر رکھا ہے؟ مانگنے والوں کی بھلا کوئی خودمختاری ہوتی ہے؟ جس ملک میں پیدا ہونے والا ہر بچہ تقریباً اڑھائی لاکھ روپے کا مقروض ہو‘ اس کے حکمرانوں کو سینہ چوڑا کر کے خودمختاری کا دعویٰ کرنے سے پہلے گہرائی تک سوچنا ہو گا کہ اگر ان ممالک نے قرض واپس مانگ لیے تو وہ کیسے ادا کریں گے۔ پاکستان کو بیرونی قرضوں کا 70 فیصد ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور آئی ایم ایف نے دے رکھا ہے۔ اگر مزید قرضے ملنا بند ہو گئے تو ملک دیوالیہ ڈکلیئر کر دیا جائے گا۔ مجھے یہاں سابق وزیر خزانہ شبر زیدی کا بیان یاد آ گیا جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ معیشت حقیقی معنوں میں دیوالیہ ہو چکی ہے‘ اس کے علاوہ موجودہ وزیر خزانہ شوکت ترین بھی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان تکنیکی طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے‘ گو کہ بعدازاں وہ اس بیان سے مکر گئے لیکن 6 ہزار ارب آمدن اور اس سے تین گنا سے بھی زیادہ اخراجات والی معیشت کو دیوالیہ سمجھا جائے یا نہیں‘ اس کافیصلہ عوام نے کرنا ہے۔
حالات یہ ہیں کہ ای سی سی کے اجلاس میں آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو پٹرولیم کی مد میں تقریباً 12 ارب روپے کی جو گرانٹ دی جا رہی ہے‘ وہ بھی جی 20 ممالک سے ملنے والے قرضوں کی مرہونِ منت ہے۔ حکومت بڑے اعلانات اور فیصلے تو کر رہی ہے لیکن عوام کو یہ بتانے سے گریزاں ہے کہ یہ عنایتیں کیسے ممکن ہیں۔ ای سی سی کے اجلاس میں تقریباً 8 ارب 30کروڑ روپے کے رمضان پیکیج کی منظوری دی گئی ہے۔ پہلے صرف دو کروڑ لوگوں تک احساس راشن پروگرام کے ذریعے امداد پہنچانے کا منصوبہ تھا لیکن وزیراعظم صاحب کی ہدایت پر اسے پورے ملک تک پھیلا دیا گیا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ممکنہ طور پر امداد بھی انہی ممالک کے باعث ممکن ہو رہی ہے جنہیں جلسوں اور جلوسوں میں للکارا گیا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا۔ ایک اندازے کے مطابق صرف مارچ کے مہینے میں پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی کی مد میں تقریباً 32 ارب روپے خرچ کیے جا چکے ہیں۔ سرکار کا دعویٰ ہے کہ پٹرولیم پر سبسڈی کی رقم ٹیکس آمدن سے ادا کی جا رہی ہے لیکن حقائق اس سے مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق یہ رقم بھی حاصل کیے گئے مہنگے قرضوں سے ادا کی جا رہی ہے۔ حکومت نے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان تو کر دیا لیکن وہ شاید یہ بھول گئی کہ اس کا بوجھ اٹھانے کے لیے مزید قرض لینا پڑیں گے۔
28 فروری کو جب وزیراعظم صاحب نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا تھا تو فی لیٹر ڈیزل کی قیمت میں 2 روپے 38 پیسے کا فرق تھا۔ روس‘ یوکرائن جنگ میں شدت کے باعث یہ فرق بڑھ کر آج 25 سے 30 روپے فی لیٹر تک ہو چکا ہے۔ اس وقت عالمی مارکیٹ میں کروڈ آئل کی قیمت 118 ڈالر فی بیرل ہے جبکہ 28 فروری کو یہ قیمت 101 ڈالر فی بیرل تھی۔ 15 دنوں میں 17 فیصد اضافہ پاکستان جیسی کمزور معیشت کے لیے کسی سونامی سے کم نہیں۔ مستقبل قریب میں تیل کی قیمتوں میں کمی آتی ہے یا نہیں‘ اس بارے میں کوئی دعویٰ کرنا قبل از وقت ہے۔ اس وقت چین میں کورونا وائرس کے نئے کیسز میں اضافے کے باعث کاروبار دوبارہ بند ہو رہے ہیں۔ تیل کی درآمدات میں کمی ہو رہی ہے۔ امریکہ وینزویلا کے آئل ذخائر سے فائدہ اٹھانے کے لیے اس پر عائد پابندیاں ختم کرنے کے بارے میں سنجیدہ دکھائی دے رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے بھی تیل کی پروڈکشن میں اضافہ کیا ہے اور ایران پر سے بھی پابندیاں نرم ہونے کی نوید دی گئی ہے۔ اگر سب کچھ اسی منصوبے کے تحت چلتارہا تو تیل کی قیمتیں کم ہو سکتی ہیں جس کا فائدہ پاکستانی معیشت کو پہنچ سکتا ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھیانک ہے جس سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں۔ اگر ان منصوبوں پر عمل درآمد نہ ہو سکا تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے اور اگر روس‘ یوکرین جنگ یونہی جاری رہی تو ایک ماہ میں فی بیرل پٹرول 150 ڈالر سے تجاوز کر سکتا ہے۔پاکستان کے تمام سٹیک ہولڈرز کو ان معاملات کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے۔