امریکا نے چین کو خبردار کیا ہے کہ اگر اُس نے روس کو فوجی اور معاشی مدد دی تو روس کے ساتھ ساتھ اُسے بھی اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ یہ انتباہ امریکا کے مشیرِ قومی سلامتی جیک سلیوان نے پہلے ایک ٹی وی انٹرویو میں اور پھر اٹلی کے دارالحکومت روم میں چین کے دفتر برائے امورِ خارجہ کے سربراہ سے میٹنگ میں کیا۔ یہ میٹنگ کم و بیش سات گھنٹے چلی۔ عینی شاہدین نے بعد میں بتایا کہ میٹنگ انتہائی کشیدہ ماحول میں ہوئی اور کوئی بھی فریق اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھا۔ فریقین نے متعدد معاملات پر سیر حاصل گفتگو کی۔ گفتگو کا بنیادی مقصد یوکرین کے بحران سے پیدا ہونے والے مسائل کا معقول حل تلاش کرنا تھا۔ امریکا نے چین پر واضح کیا کہ یوکرین کے معاملے میں اُس کا روس سے دور رہنا ہی بہتر ہے۔ امریکی مندوب شاید کہنا یہ چاہتا تھا کہ جس طور ہم ہم یوکرین سے دور رہے ہیں‘ بالکل اُسی طور تم روس سے دور رہو!
امریکی دھمکی خطرناک ہو نہ ہو، معلوم تو خطرناک ہی ہوتی ہے! یورپی یونین خود آگے نہیں بڑھ رہی۔ وہ امریکا کے ذریعے اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کی پالیسی پر عمل کر رہی ہے۔ امریکا کا چین کو دھمکی دینا اس امر کا صریح غماز ہے کہ اب وہ پہلی بات نہیں رہی۔ تاریخ کا ریکارڈ شاہد ہے کہ امریکا نے سات عشروں کے دوران جو کچھ بھی کرنا چاہا‘ کیا۔ وہ دھمکی دینے پر یقین نہیں رکھتا۔ چین کو دھمکی دینے اور روس کے ساتھ نہ چلنے کا مشورہ دینے کا واضح مطلب یہ ہے کہ اب وہ کسی بھی طاقتور ملک کے خلاف براہِ راست کوئی بھی کارروائی کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ سوال یہ نہیں کہ امریکا کی عسکری قوت کتنی ہے یا کتنی نہیں۔ کوئی بھی قوم محض عسکری قوت کی بنیاد پر ترقی نہیں کرسکتی اور نہ ہی عالمی امور میں آگے بڑھ سکتی ہے۔ امریکی قیادت بھی ایسی بودی تو ہرگز نہیں کہ اِس قدر سامنے کی بات بھی نہ سمجھتی ہو۔ جنہوں نے دنیا پر حکومت کی ہے اُنہیں اپنی طاقت کا بھرپور اندازہ ہوگا کہ کب کتنی تھی اور اب کتنی رہ گئی ہے۔
خبردار کرنے‘ دھمکانے اور انتباہ جاری کرنے کا مرحلہ اُسی وقت آتا ہے جب براہِ راست کچھ کرنے کی قوت ختم ہوچلی ہو۔ امریکا کو اچھی طرح معلوم ہے کہ روس سے ٹکرانے کی صورت میں اُس کے لیے کس نوعیت کی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ یوکرین پر روسی لشکر کشی کے بعد سے وہ صرف انتباہ جاری کرنے تک محدود رہا ہے۔ جب روس سے ٹکرانے کی ہمت پیدا نہیں ہوئی تو پھر چین سے کیونکر ٹکرایا جاسکے گا کہ وہ بہرحال روس سے طاقتور ہے۔ ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ امریکا کی گھٹتی ہوئی طاقت کا اندازہ ہو جانے پر کئی ممالک اُس کی بات ماننے سے انکار کر رہے ہیں۔ یوکرین پر روسی لشکر کشی کے بعد جب عالمی منڈی میں خام تیل کے نرخ بڑھنے لگے تو امریکا نے چاہا کہ یورپ کے ساتھ مل کر اس معاملے کو کنٹرول کرے اور دنیا بھر میں توانائی کا بحران پیدا ہونے سے روکے۔ اِس سلسلے میں اُس نے عرب حکمرانوں کو بھی فون کیے۔ امریکی صدر کا فون سننے سے کئی عرب حکمرانوں نے صاف گریز بلکہ انکار کیا۔ وہ اِس مرحلے پر خام تیل کے نرخ نیچے رکھنے کے حوالے سے کوئی کمٹمنٹ نہیں کرنا چاہتے۔ اُنہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ روس نے تیل اور گیس کی رسد بند کردی تو یورپ کے لیے آئندہ موسمِ سرما میں انتہائی نوعیت کی مشکلات پیدا ہوں گی۔ ایسے میں نرخوں کا بڑھنا فطری امر ہے۔ جب امریکا اور یورپ مل کر عالمی سیاست و معیشت کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھال سکتے ہیں تو پھر عرب دنیا نے کون سا گناہ کیا ہے کہ اُسے ایسا کرنے سے روکا جائے؟ اسے بھی تو بدلتے ہوئے حالات سے فوائد کشید کرنے کا حق حاصل ہے۔
اس وقت امریکا اور یورپ یہ چاہتے ہیں کہ دنیا بھر میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ ہوتا رہے، اُن کی بلا سے۔ ہاں! ان کے مفادات کو کسی بھی طور نقصان نہ پہنچے۔ یہاں اس نکتے پر بحث کی گنجائش نہیں کہ بھارت کا جو میزائل غلطی سے چل گیا اور پاکستان میں گرا وہ اگر کسی پرواز کو تباہ کر بیٹھتا یا کسی عمارت سے ٹکراکر بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا باعث بنتا تو دونوں ملکوں کے درمیان کس نوعیت کی محاذ آرائی شروع ہوتی مگر یہ بات ضرور ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اس معاملے میں بھی امریکا نے کنارہ کش رہنا پسند کیا ہے۔ امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نے پاکستان کی جانب سے اس واقعے کی بین الاقوامی تحقیقات کے مطالبے پر کہا ہے کہ فی الحال اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جاسکتا۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہی کوئی حادثہ پاکستانیوں کے ہاتھوں رونما ہوا ہوتا تو؟ کیا تب بھی امریکا اور یورپ کا ردِعمل ایسا ہی ٹھنڈا اور ماٹھا ہوتا؟ یہ سب کچھ بہت کچھ بیان کر رہا ہے۔ امریکا اور یورپ کو اس وقت اپنی پڑی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ جس نئے عالمی نظام کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے اُس میں اُن کے لیے بہت کچھ ہو۔ اِن دونوں خطوں نے مل کر کم و بیش آٹھ عشروں تک پوری دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق چلایا ہے۔ وہ چاہیں گے کہ اب بھی بہت کچھ اُن کی مرضی کے مطابق چلتا رہے۔ اپنی طاقت میں رونما ہونے والی کمی کا احساس اُنہیں بھی ہے مگر وہ پھر بھی یہی چاہیں گے جو مزے لگے ہوئے ہیں اُن کا بڑا حصہ باقی رہے۔
روس نے یوکرین کے معاملے میں طاقت کا جو مظاہرہ کیا ہے اُس نے دنیا کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ بہت کچھ بدل گیا ہے۔ دنیا پہلے ہی کیا کم منقسم تھی کہ اب مزید تقسیم واضح ہوچلی ہے۔ امریکا اور یورپ نے مل کر جو کچھ اب تک کیا ہے اُس کی بنیاد پر کچھ ممالک اُن کے طرف دار ہیں اور کچھ مخالف۔ یہ تقسیم اب زیادہ نمایاں اِس لیے ہوچلی ہے کہ چین اور روس کی شکل میں نئے آپشنز دستیاب ہیں۔ ترکی، ایران اور پاکستان مغرب سے گریزپا دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ فطری امر ہے۔
پاکستان کے بیشتر معاملات میں امریکی مداخلت نمایاں رہی ہے۔ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں امریکا کا کردار اتنا رہا ہے کہ اب عام پاکستانی بھی معاملات کو سمجھنے لگا ہے۔ کیا کسی بھی خود مختار ملک کو اس نوعیت کی مداخلت برداشت کرنی چاہیے؟
روس کی لشکر کشی نے دنیا کو اس اعتبار سے بھی دہلا دیا ہے کہ اگر طاقتور ممالک یوں کسی بھی کمزور ملک پر چڑھ دوڑیں تو روکنے والا کون ہوگا۔ کوئی مؤثر عالمی نظام نہ ہونے کی صورت میں تو پوری دنیا کا نظام خرابی سے دوچار ہو جائے گا۔ اقوامِ متحدہ کی حیثیت تو اب عضوِ معطل کی سی ہوچکی ہے۔ یہ ادارہ سات عشروں کے دوران بالعموم تماشائی ہی کا کردار ادا کرتا آیا ہے۔ ایسے میں کسی نئے سیٹ اپ کی ضرورت کچھ زیادہ ہی محسوس ہو رہی ہے۔ کئی خطوں کو امریکا اور یورپ سے یہ شکایت ہے کہ وہ اُن کے مفادات پر شب خون مارنے سے نہیں چوکتے۔ یوکرین کا بحران بہت سے بحرانوں کو جنم دینے کی پوزیشن میں آتا جارہا ہے۔ سوال ایک نئے بلاک کے بننے سے کہیں زیادہ بہتر اور مؤثر عالمی نظام کی تیاری کا ہے۔ یوکرین کے شہری آج بجا طور پر یہ سوچ رہے ہوں گے کہ ع
کس کے گھر جائے گا سیلابِ بلا میرے بعد
یوکرین پر جو کچھ بیتی ہے وہ کسی اور پر بھی بیت سکتی ہے۔ امریکا اور یورپ نے مل کر کئی ممالک کو بری طرح پامال کیا ہے۔ روس پر تنقید کرتے وقت مغربی میڈیا کو وہ وقت یاد رکھنا چاہیے جب پورے مغرب نے مل کر افغانستان جیسے نہتے اور انتہائی کمزور ملک کے لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح گھیر کر موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ یہ سوچنے اور فیصلے کرنے کی گھڑی ہے۔