عدلیہ کی بحالی کے بعد عمران خان نے ایک انٹرویومیں کہا تھا: ’’چیف جسٹس آف پاکستان ایک نابغہ ٔ روزگار شخصیت ہیں۔ ذراا نتظار کرو اور دیکھو، اب وہ کیا کرتے ہیں۔ میںنے اس تحریک میں کسی سیاسی مقصد کے لیے حصہ نہیںلیا تھا۔‘‘جب صدر ِ پاکستان آصف علی زرداری نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب کو غیر فعال کرنا چاہا تو ایسا لگا جیسے ساراپاکستان کسی گہرے خواب سے جاگ کر حکومت کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو گیا ہے۔ باقی تاریخ ہے۔ اُس ہنگامہ خیز دور کے اخبارات یا ٹی وی ریکارڈنگ دیکھیں تو ایمان تازہ ہوجاتا ہے۔ چیف صاحب کی بحالی اور سپریم کورٹ میں اپنے منصب پر واپسی ہماری قومی زندگی کا ایک اہم ترین واقعہ ہے۔ اپنے اعصاب پر کنٹرول رکھنے والے چیف جسٹس صاحب نے خدا کو حاضر ناظر جان کر وعدہ کیا کہ وہ اپنے فرائض ایمانداری، سچائی اور غیر جانبداری سے سرانجام دیںگے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اُنھوںنے اپنا وعدہ نبھایا۔ ملک میں عمومی رائے یہی ہے کہ چیف صاحب نے بہت سی خرابیوںکے خلاف اقدامات کرتے ہوئے ملکی مفادات کا تحفظ کیا ہے؛ تاہم اب ایک شخص نے زبان کھولی ہے اور اس پر فوراً ہی توہین ِ عدالت لگادی گئی ہے۔ اس شخص نے معافی مانگنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے۔۔۔’’جب میںنے کوئی توہین کی ہی نہیں، تو کس بات کی معافی مانگوں۔‘‘ افتخار محمد چوہدری صاحب کی سربراہی میں قائم ہونے والے بنچ نے تحریک ِ انصاف کے لیڈر پر الزام لگایا کہ اُس نے اپنے ایک بیان میں سپریم کورٹ کے خلاف نفرت پھیلانے کی کوشش کی۔ اس پر غیر لچکدار رویہ رکھنے والے عمران کا کہنا ہے:۔۔۔ ’’مجھے ریٹرننگ اور پریذائیڈنگ آفیسرز کے رویّے پر مایوسی تھی۔ میں نے ایسی کوئی بات نہیںکی جو قانون شکنی کے زمرے میں آتی ہو۔ وہ بیان ملک میں جمہوریت کے مفاد میں دیا گیا تھا۔‘‘اس پسِ منظر میں ، میں ایک جملے کا اضافہ کرنا چاہتی ہوں۔ یہ جملہ امریکہ میں آج کل بہت مقبول ہے۔۔۔’’ میں کسی کو جانچنے والا کون ہوتا ہوں؟‘‘ یہ بیان دراصل پوپ فرانسس کی طرف سے آیا تھا۔ جب کسی صحافی نے اُن سے استفسار کیا تھا کہ کیا کوئی ہم جنس پرست پادری بن سکتا ہے تو اس پر پوپ،جو دنیا کے ایک بلین سے زائد لوگوں کے مذہبی سربراہ ہیں، نے کہا تھا کہ وہ کسی کو جانچ نہیں سکتے ہیں۔ یہ یقینا نہایت اعلیٰ عاجزی کا مظاہرہ تھا اور اس میں ان کے لیے نصیحت ہے جو سمجھتے ہیںکہ صرف اُن کی سوچ ہی درست ہے۔ کوئی بھی شہری عدلیہ کی طرف سے کیے گئے فیصلوں پر تبصرہ کر سکتا ہے۔ جج حضرات سے غلطی ہوسکتی ہے کیونکہ وہ بھی ہماری طرح کے ہی انسان ہیں۔ چناچہ جب تک کوئی شخص عدالت پر سنگین قسم کا الزام نہ لگائے یا اس کے احکامات کی صریحاً خلاف ورزی نہ کرے، یا بنچ کی ہدایت کی تضحیک نہ کرے، توہین ِ عدالت کا الزام عائد نہیں کیا جانا چاہیے۔ جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے تو وہ اور ان کے بے شمار حامی گزشتہ انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن پر تنقید کرتے رہے ہیں کہ اُس نے انتخابات میں دھاندلی روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیںکیے۔ ان الزامات پر کوئی اورجماعت ان کی ہم آواز نہیں تھی ۔ چیف جسٹس صاحب کی بحالی کے لیے چلائی جانے والی تحریک میں عمران خاں کے کردار کو نظر اندازنہیں کیا جاسکتا۔ ہر شام وہ ٹی وی چینلز پر پرویز مشر ف کے خلاف بولتے ہوئے افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے لیے سینہ تان کر سامنے کھڑے دکھائی دیتے تھے۔ جب چیف صاحب بحال ہو گئے تو میں نے عمران کا انٹرویو کیا ۔ اس موقع پر ایسا لگتا تھا کہ اُنہیں نظر انداز کر دیا گیا ہے اور عدلیہ کی بحالی کا سہرا کچھ اور افراد کے سر باندھ دیا گیا ہے ۔ اعتزاز احسن تو ان کے کردار کو تسلیم کرنے کے لیے بھی تیار نہ تھے کیونکہ اُس تاریخی دن جب کارواں کامونکی کے قریب تھا تو اعتزاز احسن نے نواز شریف کو ’’کچھ ‘‘بتاکر لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان کیا تھا جبکہ اس موقع پر اُن (عمران ) سے مشاورت تک نہ کی گئی۔ میںنے عمران سے پوچھا کہ کیا یہ رویہ توہین آمیز نہیں؟ پی ٹی آئی کے قائد نے کہا۔۔۔ ’’تحریک ِ انصاف تو ہے ہی انصاف کی سر بلندی کے لیے۔ میںنے اس تحریک میں کسی سیاسی مقصد کے لیے نہیں بلکہ نظام میں تبدیلی کے لیے حصہ لیا تھا۔ مجھے امید ہے کہ اگلے چھ ماہ کے اندر اندر آزاد عدلیہ ملک میں عدل و انصاف کا بول بالا کر دے گی۔ ‘‘ جب چیف صاحب اس دسمبر میں اپنے منصب کو خیرباد کہہ دیںگے تو پھر بہت سے لوگ ، جن میں ہم بھی شامل ہیں، ان کے بارے میں تبصرے کیا کریںگے ۔ کچھ لوگ اُن کو سراہیں گے ،جبکہ ان پر تنقید کرنے والوں کی بھی کمی نہیںہوگی۔ اُس وقت وہ بھی اپنے دل کی بھڑاس نکالیںگے۔ ایک مرتبہ پھر ٹی وی پر عدلیہ کا موضوع حمایت اور مخالفت کے ترازو میں تولا جائے گا۔ انسانوںکی دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ کسی بھی شخصیت پر تنقید کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب کوئی بڑی شخصیت منصب سے ہٹتی ہے تو اس کے لیے پھولوں کے گلدستے کم ،تنقید ی کلمات زیادہ ہوتے ہیں۔۔۔یہ سب چلتا ہے کیونکہ یہ فرشتوں کی نہیں ، انسانوںکی دنیا ہے۔ تاہم ایک بات طے ہے کہ سابق چیف جسٹس صاحبان کے برعکس افتخار محمد چوہدری صاحب کو طویل عرصے تک یادرکھا جائے گا کیونکہ اُنھوںنے ملک میں کینسر کی طرح پھیلی بدعنوانی کے خلاف ایک طرح کا جہادکیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان پر یہ تنقید بھی کہ جائے کہ اُنھوںنے پی پی پی کے رہنمائوںکو تو آڑے ہاتھوں لیا جبکہ ان کے سیاسی مخالفین کے لیے نرم گوشہ رکھا۔ ہو سکتا ہے کہ اس بات میں کوئی صداقت نہ ہو، لیکن الزام لگانے والوںکی زبان نہیں پکڑی جاسکتی۔ بہرحال مستقبل کے نقاد چیف جسٹس صاحب کو جس نظر سے بھی دیکھیں، ابھی اُن کے پاس کرنے کے بہت کام ہے۔ ان کے دور میںبہت سے اہم کیسز شروع کیے گئے ہیں اورابھی ان پر فیصلہ آنا باقی ہے۔ ایسے ہی کیسز میں سے ایک سوئس کیس بھی ہے جو زرداری صاحب، جن کا صدارتی استثنا ختم ہونے کے قریب ہے، کی مبینہ منی لانڈرنگ کے حوالے سے ہے۔ عدالت کی طرف سے سابق سفیر حسین حقانی کو بھی ایک ماہ کے دوران حاضر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ کچھ دنوں تک وہ ڈیڈ لائن بھی ختم ہونے والی ہے۔ کیا آٹھ ستمبر کے بعد سپریم کورٹ اس ضمن میں کوئی کارروائی کرنے کا حکم دے گی؟ملک کے ایک مشہور انگریزی اخبار کے مطابق ۔۔۔’’ گزشتہ دو سال عدلیہ کے حوالے سے اتنے اچھے ثابت نہیںہوئے ہیں۔ اس کے امیج کو بہت سے کیسز ، جیسا کہ میمو گیٹ اسکینڈل، نے داغدار کر دیا ۔ اس کے علاوہ یہ تاثر بھی ملا کہ عدلیہ اوردفاعی اداروںمیں تصادم ہونے جارہا ہے۔ ‘‘ابھی عدلیہ ان معاملات سے سنبھلی ہی تھی کہ ارسلان کیس نے سر اٹھا لیا۔ آئینی ماہر ڈاکٹر عبدالباسط اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں۔۔۔’’عدالت انقلاب نہیں لا سکتی۔۔۔ یہ دور عدالت کے حوالے سے بہت سے مثبت اور منفی معروضات سے عبارت رہا ہے‘‘ اُن کا کہنا ہے کہ عدالت نے بدعنوانی کے خلاف بہت عمدہ رویہ دکھایا لیکن بہت سے سوئو موتو نوٹس لینے سے دیگر اداروںمیں مداخلت کا تاثر بھی ملا۔ اس وقت ، جبکہ چیف صاحب کی مدت تمام ہونے والی ہے، اُنہیں چاہیے کہ موجودہ حکومت کی بداعمالیوںپر بھی نظر رکھیں۔ میںنے گزشتہ کالم میں اس بات کا ذکر کیا تھا کہ طرح سپیشل کمیٹی بناکر من پسند افراد کو اعلیٰ ملازمتوںسے نوازنے کا پروگرام بنایا جارہا ہے۔ اگرچیف صاحب ان معاملات کو بھی دیکھ لیںتو ان پر ان کے ناقدین اس حکومت کی جانبداری کا جوالزام لگاتے ہیں،وہ زائل ہوجائے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved