تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     19-03-2022

میرٹ سسٹم اور سیلف میڈ لوگ

میرٹ سسٹم وہ نظام ہے جس کے تحت کالجوں میں داخلے، ملازمتیں اور فیصلے قابلیت اور انصاف کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اچھا افسر ترقی پاتا ہے خواہ اس کی خاندانی بیک گرائونڈ کمزور ہی کیوں نہ ہو۔ اگر امیر اور بااثر آدمی سے جرم سرزد ہو جائے تو بھی قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتا۔ یہ وہ نظام ہے جس میں برطانیہ کا وزیراعظم ٹونی بلیئر اپنے سولہ سالہ بیٹے پر شراب نوشی کے الزام پر پولیس سٹیشن معذرت کیلئے حاضر ہوتا ہے۔ اس سسٹم میں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے۔ کوئی اخلاقی جرم اگر امریکی صدر جیسے پاور فل شخص سے بھی سرزد ہو جائے تو وہ پوری قوم سے اعلانیہ معافی مانگتا ہے۔ اس نظام میں خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروقؓ کو پتہ چلتا ہے کہ مصر کا گورنر عیش و عشرت میں رہ رہا ہے تو مدینہ منورہ بلا کر سرزنش کی جاتی ہے۔ ایسے نظام میں قابل اور محنتی لوگوں کو ابھرنے کا چانس ملتا ہے خواہ ان کا خاندانی بیک گرائونڈ کچھ بھی ہو۔ ایسے نظام میں ایک پاکستانی نژاد ٹرک ڈرائیور کا بیٹا لندن کا میئر بنتا ہے۔
گزشتہ ماہ کے آخری تین روز اس مرتبہ لاہور میں گزرے۔ 26 فروری کو کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں مقبول احمد بلاک کا افتتاح تھا۔ گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور مہمان خصوصی تھے۔ یہ تقریب ہماری فیملی کیلئے بے حد مسرت کا باعث تھی۔ ایک ارب روپے سے زائد لاگت سے تعمیر شدہ یہ چار منزلہ شاندار عمارت کنگ ایڈورڈ کے طلبا و طالبات کے لئے ایک سابق طالب علم کا تحفہ ہے۔ ایک ہی شخص کا یہ عطیہ اس لحاظ سے بھی بہت اہم ہے کہ یہ بے حد فیاض ماہرِ امراض چشم 1972ء میں امریکا گیا تو اس کی جیب میں فقط پانچ ڈالر تھے۔ اس بات کا ذکر ڈاکٹر صاحب آج بھی بڑے فخر سے کرتے ہیں۔ تعمیر کی نگرانی پانچ سال تک میرے بھائی انجینئر کرنل پرویز حفیظ نے کی۔ بنیادوں کے لئے کھدائی ہوئی تو انجینئرنگ کے اعتبار سے بے شمار چیلنج سامنے تھے۔ متعدد تار اور پائپ تھے جنہیں نکالنا بھی تھا اور بچانا بھی۔
چونکہ آج موضوعِ سخن تین ایسے اشخاص ہیں جو اپنی قابلیت اور انتھک محنت سے ترقی کے بام عروج تک پہنچے اس لئے موضوع کی جانب واپس آتے ہیں۔ ڈاکٹر مقبول احمد نے 1968ء میں ایم بی بی ایس کرکے میو ہسپتال میں ڈاکٹر لطیف چوہدری کی نگرانی میں امراض چشم کے ڈیپارٹمنٹ میں ہائوس جاب کی۔ کچھ عرصہ سرکاری ملازمت کی۔ ان کے بڑے بھائی ڈاکٹر مسعود امریکا جا چکے تھے۔ دونوں بھائیوں کو محدود وسائل کے مالک مگر روشن دماغ والدین نے اعلیٰ تعلیم دلوائی تھی۔ ڈاکٹر مقبول احمد نے امریکا میں اپنے شعبے میں ہی کامیابی حاصل نہیں کی، وہاں کی لوکل کمیونٹی میں بھی ان کا خاص مقام ہے اور ایک عرصے سے ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ جنوبی اِلّی نائے کے فلاحی کاموں میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔ کاربن ڈیل کی جامع مسجد کی تعمیر میں وہ سب سے بڑے ڈونر تھے۔ پوشارڈ فائونڈیشن معروف این جی او ہے جو امریکا میں زیادتی کا شکار بچوں کی بحالی کا کام کرتی ہے۔ وہاں ڈاکٹر صاحب نے فراخ دلی سے عطیات دیئے۔ ایک لوکل تنظیم نے ان سے رابطہ کیا کہ ہم تینوں ادیان سماویہ یعنی اسلام، یہودیت اور مسیحیت میں رواداری پیدا کرنے کیلئے دستاویزی فلم بنانا چاہتے ہیں‘ ہمیں سپانسر کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے فوراً ہامی بھرلی۔ صومالیہ اور پاکستان میں ان کے فلاحی کاموں کی تفصیل کیلئے یہ کالم ناکافی ہے۔
ڈاکٹر مقبول احمد کے کلینک دو امریکی ریاستوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کے بیٹے ڈاکٹر فیصل اور ڈاکٹر عمر بھی امراض چشم کے ماہر ہیں۔ لاہور والے فنکشن میں ڈاکٹر لطیف چوہدری نے بتایا کہ ڈاکٹر مقبول آنکھ کے آپریشن میں تین منٹ سے زیادہ نہیں لگاتے تھے۔ ایک ہی سیشن میں تیس سے پینتیس آپریشن آرام سے کر دیتے تھے اور امریکی انہیں طوفانی مقبول (Maqbool the hurricane) کہتے تھے۔ یہاں یہ بات محل نظر رہے کہ امریکا میں ڈاکٹر کی معمولی غلطی پر بھی مریض عدالت میں چلے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر مقبول احمد کے خلاف اول تو کیس بہت کم ہوئے ہیں اور اگر کسی نے کیا بھی تو وہ جیت نہیں سکا۔ اس لئے ڈاکٹر صاحب اکثر کہتے ہیں کہ امریکی عدالتوں میں ہر ایک کو بلاامتیاز انصاف ملتا ہے۔ یہ امریکی میرٹ سسٹم کا ہی اعجاز ہے کہ تھرڈ ورلڈ سے وارد ایک عام شخص اتنی ترقی کی سیڑھیاں چڑھ گیا۔
ڈاکٹر مقبول فیملی مین ہیں۔ اس قدر مصروفیت کے باوجود بچوں کی بہت اچھی تربیت کی۔ نماز جمعہ کیلئے والدین اور بیٹے کاربن ڈیل کی مسجد ضرور جاتے ہیں۔ فلاحی کاموں میں ان کی نصف بہتر مسز ثمینہ احمد خاوند کے شانہ بشانہ نظر آتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے والد چوہدری بدرالدین غازی نے عمر کے آخری سال بیٹے کے پاس امریکا میں گزارے۔ ان کی والدہ کافی عرصہ پہلے فوت ہو گئی تھیں؛ البتہ امریکا میں دو چیزیں غازی صاحب Miss کرتے تھے۔ ایک حقہ اور دوسرے گپ شپ کیلئے دوست احباب؛ چنانچہ والد صاحب کیلئے امریکا میں حقے کا بندوبست کیا گیا۔ ڈاکٹر مقبول اور ثمینہ بہن روزانہ والد صاحب کے پاس بیٹھ کر حالات حاضرہ پر باتیں کرتے کیونکہ مرحوم کو سیاست میں خاصی دلچسپی تھی۔ والدین کی فرمانبرداری اور محنت ان کے بچوں کو ورثے میں ملی ہے۔
گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کے بارے میں سنا بہت تھا لیکن ان کے ملاقات کنگ ایڈورڈ والے فنکشن میں ہوئی۔ 1952ء میں پیر محل میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ نوجوانی میں برطانیہ چلے گئے۔ بلا کے محنتی تھے۔ شروع میں تھوک میں انڈے خرید کر گراسری کی دکانوں تک پہنچاتے تھے۔ اپنا کیشن اینڈ کیری سٹور بنا کر کامیابی سے چلایا۔ گلاسگو کی مقبول شخصیت بنے۔ برٹش پارلیمنٹ کے پہلے مسلم ممبر منتخب ہوئے۔ پاکستان کا نام روشن کیا۔ پاکستانی سیاست میں حصہ لینے کا شوق چرایا تو برطانوی شہریت چھوڑ دی۔ سینیٹ کے ممبر منتخب ہوئے، دوسری مرتبہ گورنری کر رہے ہیں اور عوامی قسم کے گورنر ہیں۔ ان کی انتھک کوشش سے پاکستان کو جی ایس پی پلس ملا جس سے یورپ میں ہماری برآمدات بڑھیں۔ فیصل آباد کے کارخانے اگر دن رات چل رہے ہیں تو اس میں چوہدری صاحب کا بھی حصہ ہے۔ اگر وہ جوانی میں برطانیہ نہ جاتے تو شاید ان کی ذاتی ترقی بھی ممکن نہ ہوتی۔ برطانیہ میرٹ سسٹم اور رول آف لا پر عمل پیرا ہے۔
27 فروری کو کور کمانڈر لاہور جنرل عبدالعزیز کے بیٹے کیپٹن عثمان کا ولیمہ تھا۔ گھر کے وسیع و عریض لان مہمانوں سے بھرے ہوئے تھے۔ آرمی چیف کی آمد کی وجہ سے سکیورٹی انتظامات بھی فول پروف تھے۔ جنرل صاحب کے خاندان سے ہمارے تعلقات ایک زمانے سے ہیں۔میاں منظور محمد جنرل صاحب کے دادا گوجرہ میں ہمارے سکول کے ہیڈماسٹر تھے۔ سبحان اللہ کیا شخصیت تھی۔ ایم اے انگلش تھے اور راسخ العقیدہ مسلمان بھی۔ لمبی سفید داڑھی‘ نہایت سادہ لباس، تہجد گزار اور ہروقت باوضو۔ ہم انہیں احترام سے بابا جی ہیڈ ماسٹر کہتے تھے۔ انتہائی متواضع اور منکسرالمزاج تھے لیکن رعب ایسا کہ کسی کو ان کے سامنے اونچی آواز سے بات کرنے کی ہمت نہ تھی۔ شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ کے خلیفہ مجاز تھے۔ بروقت تکبر سے دور رہنے کی نصیحت کرتے تھے۔ وہ یقینا اپنے وقت کے ولی اللہ تھے اور یہ رائے صرف میری نہیں۔ ہمارے ہی ضلع کی ایک نہایت معتبر شخصیت جسٹس محمد افضل چیمہ صاحب کی بھی یہی رائے تھی۔
جنرل عبدالعزیز اپنے عظیم اسلاف کی روایت پر عمل پیرا ہیں۔ حافظ قرآن ہیں اور بے حد بااخلاق بھی۔ اپنے والد میاں عبدالکریم صاحب کی پیرانہ سالی میں قابل تقلید خدمت کررہے ہیں۔ جنرل صاحب میری رائے میں اس اعلیٰ عہدے پر بزرگوں کی دعائوں سے اور میرٹ سسٹم کی وجہ سے پہنچے۔ میرٹ سسٹم ہی پاک فوج کی طاقت ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved