جمعہ کے روز پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں نے اسلام آباد میں سندھ ہائوس پر دھاوا بول دیا۔ تحریک انصاف کے 2 ممبران قومی اسمبلی کی قیادت میں کارکنوں نے ڈنڈے اور لوٹے اٹھا کر پہلے تو سندھ ہائوس کے باہر احتجاج کیا، پھر بپھرے ہوئے مجمعے نے دھاوا بول دیا اور مرکزی دروازہ توڑ کرکے اندر داخل ہو گئے۔ مشتعل کارکنوں کی قیادت کراچی سے منتخب ہونے والی رکن قومی اسمبلی فہیم خان اور عطااللہ نیازی کر رہے تھے۔ مشتعل کارکن پہلے مرکزی دروازے پر لاتیں چلاتے رہے اور پھر دروازے پر چڑھ کر اسے توڑ دیا۔ اسلام آباد کے ریڈ زون میں یہ ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ تقریباً 2 گھنٹے تک جاری رہی لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے کہیں نظر نہ آئے۔ سارا تماشا ہو جانے کے بعد وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے اسلام آباد پولیس کو ہدایات دے کر ہنگامے میں ملوث ارکان اسمبلی اور کارکنوں کو گرفتار کروایا‘ لیکن کچھ ہی دیر کے بعد وزیر اعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل متعلقہ تھانے پہنچے اور دونوں ارکان اسمبلی کو چھڑوا کر اپنے ساتھ باہر لے آئے۔ اپوزیشن کی تمام جماعتوں کی طرف سے اس سارے واقعے کی شدید مذمت کی گئی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ہفتے کے روز تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے اسلام آباد میں حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے کیے جانے والے جلسوں کے حوالے سے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست پر سماعت کے دوران تمام سیاسی پارٹیوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔
اپنے گزشتہ کالم میں انہی سطروں پر خبردار کیا تھا کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے بعد حکومت جس ڈگر پر چل پڑی ہے، وہ تصادم کا راستہ ہے۔ سندھ ہائوس میں حکومت کے منحرف اراکین کے انٹرویوز نشر ہوئے، تو حکومت مزید غضب ناک نظر آنے لگی۔ وزیراعظم کی جانب سے سوات جلسہ میں سندھ ہاؤس کو ہارس ٹریڈنگ کا محور قرار دینے اور چوہدری پرویز الٰہی کے ایک ٹیلی ویژن چینل کو دِئیے گئے انٹرویو میں 12 حکومتی اراکین کے اپوزیشن کی ''سیف کسٹڈی‘‘ میں ہونے کے انکشاف نے ایک بھونچال برپا کردیا۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اوورسیز پاکستانیوں کے جلسے سے خطاب میں ان اراکین کو سر عام دھمکی دی کہ کون مائی کا لعل 10 لاکھ کے مجمعے سے گزر کر عمران خان کے خلاف ووٹ دینے جائے گا، اور پھر واپس وہاں سے گزر کر جائے گا۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ انہوں نے سندھ ہائوس پر ریڈ کرنے جیسے بیانات اور وہاں پر سندھ پولیس کے 250 سے زائد کمانڈوز کی موجودگی کی بھی ''فیک نیوز‘‘اڑائی ۔ پھر وزیراعظم کے چہیتے ڈاکٹر شہباز گل اور عالیہ حمزہ نے ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر جس طرح منحرف اراکین پر الزامات لگائے، اس کے بعد پی ٹی آئی کے جذباتی کارکنان کا سندھ ہائوس پر دھاوا بولنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں، کیونکہ بظاہر یہ مخصوص ماحول اور ایک خاص تناظر میں کیا جا رہا تھا، تاکہ ایک تو اپوزیشن اور اپنے اراکین کو دھمکا کر رکھاجائے، اور ساتھ ساتھ اپنے آئینی دائرہ کار میں رہ کر فرائض سرانجام دینے والے ان حلقوں کو بھی پیغام دینا مقصود تھا کہ نیوٹرل نہ رہیں، بلکہ آکر ہم سے بات کریں ورنہ ہم خطرناک ہوتے چلے جائیں گے۔ یہ ہیں وہ عوامل جن کا نتیجہ سندھ ہائوس پر دھاوے اور ملک کے باقی شہروں میں منحرف اراکین اسمبلی کے گھروں کے سامنے احتجاج کی صورت میں نکلا۔ ڈاکٹر رمیش کمار‘ جو ایک اقلیتی رکن اسمبلی ہیں، کیخلاف ٹی وی پر ڈاکٹر شہباز گل نے جس طرح دشنام طرازی کی اس نے یقینا ہندو برادری کو تشویش میں مبتلا کیا ہوگا۔ وطن عزیز میں پہلے ہی جنونیت کا عنصر موجود ہے، خود کو ماڈریٹ کہلانے والے سرعام ایسی حرکتیں کریں گے تو اس کے نتائج بہت خطرناک ہو سکتے ہیں۔
سندھ ہائوس کے واقعہ میں دلچسپ بات یہ ہے کہ جن حملہ آور پی ٹی آئی عناصر کو وزیر داخلہ نے آئی جی سے کہہ کر اندر کروایا، شہباز گل نے تھانے پہنچ کر منٹوں میں ان کو چھڑوا بھی لیا۔ یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ موجودہ نظام حکومت میں ایسے مشیروں کی کمی نہیں‘ جو نہ تو منتخب ہوئے، اور نہ ہی پاکستان میں رہائش پذیر ہیں، لیکن اس حکومت کے آتے ہی فلائٹیں پکڑ پکڑ کر سیدھے پاکستان کے اقتدار کے ایوانوں میں اترے اور نظام کو تقریباً ہائی جیک کر لیا۔ اس میں شک نہیں کہ بعض غیر سیاسی مشیروں نے وزیراعظم کی ان مشکلات کو بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا، جن کے گرداب میں وہ بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم کے ناقدین کے مطابق انہی مشیروں نے ایک سپر سٹار سے وزیراعظم کے منصب تک پہنچنے والے نرگسیت پسند کرکٹر کو ان ہوائی قلعوں میں رکھا، جہاں ان سے پہلے حکمران بھی براجمان ہوکر ''سب اچھا‘‘ سمجھتے تھے۔ کوئی مشیر اور وزیر، عمران خان کی کلر سمائل کا دیوانہ ہے، تو کسی کو ملک میں زیادہ بارشیں ہونا وزیراعظم کی ذات مبارک کے مرہون منت لگتا ہے، کسی کو ان کا ہینڈسم ہونا بھاتا ہے تو کسی کو ان کی ایمان داری پر ناز ہے۔ مشیروں کے مخصوص ٹولے میں گھر کر کپتان نہ صرف زمینی حقائق سے دور ہوتے چلے گئے، بلکہ جن اراکین اسمبلی کی بنا پر وہ قائد ایوان منتخب ہوئے، ان سے بھی ناتا توڑ دیا۔ اتحادی جماعتیں تو دور کی بات، انہوں نے اپنے انتہائی قریبی افراد کو اپنا ممکنہ حریف سمجھتے ہوئے ناکوں چنے چبوائے۔ الیکٹ ایبلز‘ جنہیں جہاز کے ذریعے بنی گالہ بلا بلا کر پی ٹی آئی کے مفلر پہنائے، انہیں بھی اپنے خلاف کرلیا۔ یہ حقیت فراموش کردی کہ پاور پالیٹکس بہت ظالم ہوتی ہے۔ آپ جس طرح اپنے ہی وضع کردہ اصولوں سے انحراف کرکے طاقت کے ایوانوں میں پہنچے ۔ اسی طرح کوئی دوسرا بھی اپنی باری کے انتظار میں آپ کی تاک میں بیٹھا تھا۔ آپ نہ تو اپنے ساتھیوں کو راضی رکھ سکے اور نہ ہی اپنے اتحادیوں کو۔ اب گزشتہ چھ ماہ سے یہ کھچڑی پک رہی تھی تو کپتان یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ ماضی کی طرح اس بار بھی اپوزیشن کو دیوار سے لگانے میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن یہ انکی خام خیالی ثابت ہوئی۔ سیاسی مبصرین کے مطابق کپتان نے اپنی غلطیاں سمجھنے اور انہیں دور کرنے کے بجائے فاسٹ بائولر ہونے کا ثبوت دیا، اور جارحانہ انداز میں مخالفین کی وکٹیں اڑانے کے چکر میں بے تکان بھاگ کر بائونسر کروانے شروع کردئیے۔
کرپشن کے بیانیے کی ناکامی کے بعد کپتان نے اینٹی امریکہ اور حب الوطنی کا بیانیہ اپنایا ہے۔کپتان نے سابق امریکی صدر ٹرمپ کا ماڈل اپنایا جس کی شکست کو ان کے حامیوں نے قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کیپیٹل ہل پر حملہ کردیاتھا۔ اب تحریک عدم اعتماد کے موقع پر کپتان اور ان کے کھلاڑی وہی سوچ اپنائے نظر آتے ہیں جو 6 جنوری کو سابق امریکی صدر ٹرمپ اور ان کے حامی جتھوں نے اپنائی تھی۔ وہ بھی یہ کہتے تھے کہ جو ہمارے ساتھ ہے وہ حق پر ہے اور جو ہمارے خلاف ہے ، وہ باطل کا ساتھی ہے ۔ کپتان کے ساتھیوں نے بھی غیرملکی سازش کا راگ الاپنا شروع کر دیا ہے ‘ جس میں وقت کے ساتھ ساتھ غصے اور نفرت کے تڑکے لگائے جا رہے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ان کی ایمانداری، اینٹی امریکہ بیانات اور معاشی ترقی سے گھبرا کر ملکی و غیر ملکی طاقتیں ان کے خلاف اکٹھی ہوگئیں ہیں ۔ کچھ یہی نفرت اس وقت پی ٹی آئی کے کارکنوں میں دکھائی دے رہی ہے ، اور ان میں یہ آتش ان کی اپنی قیادت نے بھڑکائی ہے ۔ لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اس انتقام کے الائو میں جلتے ہوئے قوم میں جو خلیج پیدا ہوگی ، اس کے اثرات عرصہ دراز تک محسوس کئے جائیں گے ۔