تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     20-03-2022

غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر

عربی کا مقولہ ہے : تلوار کا زخم بھر جاتا ہے مگر زبان سے لگا گھاؤ ہمیشہ ہرا رہتاہے ۔ زبان وہ خنجر ہے جو سخت سے سخت جسم کاٹ دیتی ہے اور پتھر سے پتھردل انسان کو توڑنے پر قدرت رکھتی ہے ۔ دنیا کا سب سے بڑا فن زبان پر کنٹر ول حاصل کرنا ہے۔ جو یہ ہنر سیکھ جاتا ہے وہ کبھی میدانِ زیست میں ہارتا نہیں ۔وہ ڈوب کر بھی پار نکل جاتا ہے ۔
جاوید احمد غامدی صاحب کا ماننا ہے کہ غصہ ‘جذبات کی حدت یا شخصی ردعمل کوئی بری چیز نہیں ہوتی بلکہ یہ اپنی ذات میں کسی نعمت سے کم نہیں۔انسان غصے کے ذریعے اپنے کردار‘ سیرت اور عزتِ نفس کی حفاظت کرتا ہے ۔انسان میں خودداری اورانا کا احساس بھی اسی سے پیدا ہوتا ہے۔ یوں کہہ لیجیے کہ غصہ خوداحتسابی کا نام ہے۔انسان کو اگر اپنے لہوکی آگ میں جلنا آجائے تو شخصیت نکھرجاتی ہے ‘ ذات کی تطہیرہوتی ہے اور پھر جو انسان کے اندر ہوتا ہے وہی باہر ظاہر ہونے لگتا ہے ۔علامہ اقبال نے بال ِ جبریل میں نصیحت کی ہے کہ
ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام
سخت کوشی سے ہے تلخ زندگانی انگبیں
جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزا ہے اے پسر!
وہ مزا شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں
انسانی غصے کا دائرہ باطن ہوتا ہے خارج نہیں ‘مگر حضرت ِ انسان کو اس کا ادراک ہی کہاں ہے ۔غصہ اپنے تک محدود رہے تو کمال درجے کی شے ہے مگریہ اخلاقی مسئلہ تب بنتا ہے جب ہم اس بھڑکتی آگ کو اپنے اندر رکھنے کی بجائے اسے دوسروں سے متعلق کردیتے ہیں ۔بسا اوقات غصے کی شدت اتنی ہوتی ہے کہ جو منہ میں آئے وہ بول دیا جاتا ہے ۔ اس وقت انسان اپنے عہدے کا خیال رکھتا ہے نہ دوسرے کے مرتبے کا ۔ جنس کی تمیز کرتاہے نہ معاملے کی نزاکت کا ۔اپنے کا لحاظ رکھتا ہے نہ مخالف کا۔ خلیل جبران کا قول ہے :دلکش اور مضبوط شخصیت کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ غصے کا اظہار کیسے کرتا ہے ۔ خاموش رہتا ہے یا اپنے ناقدین اور مخالفین کو روند ڈالتا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ انسان کو غصہ کب اور کیوں آتا ہے ؟ اس عقدے کا جواب شیکسپیئر نے دیا ہے یا ہمارے حکمران دے سکتے ہیں۔ شیکسپیئر کہتا ہے '' جب کسی شخص کو اس کی زندگی بھر کی کمائی لٹ جانے کا احساس جلاتا ہے تو اسے غصہ آتا ہے اورجب کسی حکمران سے اس کی سلطنت چھیننے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ غصے سے بھڑک اٹھتا ہے اور خود آتش دان بن جاتا ہے‘‘۔ حکمرانی میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اچھے بھلے انسان کو زعمِ عظمت میں مبتلا کردیتی ہے ۔ مسندِ اقتدار پر بیٹھنے والا ہر شخص خود کو ناگزیر سمجھنے لگتا ہے۔یہ اس کا وہم ہوتا ہے یا حقیقت ‘ اس کی پرتیں تب کھلتی ہیں جب اقتدار ہاتھ سے ریت کی مانند پھسلنے لگتا ہے۔ پھر وہ غصہ کرتاہے اور اپنے مخالفین پر الزامات کے نشتر چلاتا ہے۔ آج کے پاکستان کو بھی اسی صورتحال کا سامنا ہے ۔ جب سے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہوئی ہے ۔ حکومت کا پارہ تیزی سے چڑھا ہے۔ وزرا اپنے جذبات پر کنٹرول رکھ پارہے ہیں نہ زبان پر ۔ حکومت اور اپوزیشن نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے جھوٹ اور سچ کی دکانیں کھول لی ہیں ۔جتنے منہ اتنی باتیں ۔ دونوں اطراف سے الزامات کی پٹاری کھلی ہے ۔شور اس قدر ہے کہ عوام کو سمجھ ہی نہیں آرہا کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا ۔اب بات الزامات سے نکل کر گالم گلوچ تک جاپہنچی ہے ۔کسی کو ملک دشمن قرار دیاجارہاہے تو کوئی بے وفائی کے طعنے سہہ رہاہے ۔
یوں گمان ہوتا ہے کہ حکومت نے شکست کی پرچھائیوں کو دیکھ لیا ہے اسی لیے تو وزرا کا لب ولہجہ بدل گیا ہے ۔ وہ کبھی سندھ ہاؤس پر چڑھائی کرتے ہیں تو کبھی سندھ میں گورنر راج لگانے کا مشور ہ دیتے ہیں ۔وزیراعظم نے الزام لگایا ہے کہ سندھ ہاؤس میں نوٹو ں سے بھری بوریاں لا ئی گئی ہیں اور ایک ایک ایم این اے کو بیس بیس کروڑ میں خریدا جارہا ہے ۔ اس الزام کو سامنے آئے ابھی چوبیس گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ سندھ ہاؤس میں قیام کرنے والے دس سے بارہ حکومتی ایم این ایز سامنے آگئے ۔ یہ ایم این ایز ببانگِ دہل کہہ رہے تھے کہ وہ حکومت سے عاجز آچکے ہیں اس لیے ہر صورت وزیراعظم کے خلاف ووٹ دیں گے ۔یہی نہیں ‘ راجہ ریاض نے دعویٰ کیا کہ دو درجن سے زائد ایم این ایز حکومتی کشتی سے چھلانگ لگا چکے ہیں اور ڈاکٹر رمیش کمار کہتے ہیں کہ '' تین وفاقی وزیر بھی حکومت چھوڑ چکے ہیں‘ بس ان کا اعلان ہونا باقی ہے ۔ حکومت کے لیے یہ صورتحال انتہائی گمبھیر ہے جس کا ادراک حکومت کوبھی ہوچکا ہے اسی لیے تو سپیکر کو غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کرنے کے لیے کہا جارہاہے‘‘ ۔ حکومتی قانونی ٹیم آئین کی ناقابلِ فہم تشریح کررہی ہے جسے کوئی بھی غیر جانبدار ماہرِ قانون ماننے کو تیار نہیں ۔ وزیراطلاعات کہتے ہیں کہ حکومت ان بارہ ایم این ایز کے خلاف ریفرنس بناکر سپیکر کو بھیجنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ سپیکر ان باغی ارکان کو ووٹ دینے سے روک سکیں۔ کوئی جائے اور حکومت سے پوچھے کہ کس بات کا ریفرنس ؟ کیا منحرف ایم این ایز نے وزیراعظم کے خلاف ووٹ دے دیا؟ کیا صرف ارادہ ظاہر کرنے سے جرم سرزد ہوجاتا ہے ؟اور تو اور سپیکر قومی اسمبلی کو یہ قانونی رائے بھی دی جارہی ہے کہ آپ اجلاس بلا کر غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیں تاکہ وقت مل جائے اور حالا ت کوقابو کیا جاسکے ۔آئین میں صاف لکھا ہے کہ تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد سپیکرچودہ دن میں اجلاس بلاکر تین سے سات روزمیں ووٹنگ کروانے کا پابند ہے ۔
حکومت بتائے کہ آئین میں جو چیز واضح ہے اس کے بعداگر مگر کا سوال کیا ہے ؟حکومت اجلاس نہ بلاکر وہی غلطی کرے گی جوبرطانوی وزیراعظم نے کچھ عرصہ قبل بریگزٹ کے معاملے پر کی تھی ۔ پھرکیا ہواتھا؟ عدالت نے مداخلت کی اور برطانوی حکومت کو اجلاس بلانا پڑاتھا ۔ کیا اب ہماری حکومت بھی چاہتی ہے کہ عدالت مداخلت کرے تاکہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوسکے ؟ میرے نزدیک اگر ایسا ہوا تو یہ پارلیمنٹ کی توہین ہوگی ۔ پارلیمنٹ ریاست کا سب سے سپریم ادارہ ہے ۔ کیا اس کے ارکان اپنے مسائل خود حل کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے ؟
ابھی تک جتنے منحرف ایم این ایز سامنے آئے ہیں یہ تما م کے تما م اس کام کے ماہر ہیں ۔ ایک ایک کا تجزیہ کیا جائے تو پارٹی سے وفاداری ان کی سرشت میں ہے ہی نہیں ۔ یہ اپنے مفادات کے لیے ہر پانچ سال بعد پارٹی بدلتے ہیں ۔یہ افراد تحریک انصاف میں بھی مسلم لیگ (ن) ‘ پیپلزپارٹی اور قاف لیگ کو خیرباد کہہ کرآئے تھے۔ اُس وقت تحریک انصاف کے اکابرین کہتے تھے کہ یہ لوگ ضمیر کی آواز پر ہمارے ساتھ مل رہے ہیں‘ مگر اب جب یہ ارکان پارٹی چھوڑ رہے ہیں تو انہیں ''بکاؤ مال‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جارہاہے ۔ یوں لگتا ہے کہ اس معاملے پر بھی حکومتی زعما نے یوٹرن لے لیا ہے ۔ استادِ محترم اظہار الحق کا شعر ملاحظہ کریں:
غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر
محل پہ ٹوٹنے والا ہو آسماں جیسے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved