یہ صرف بہار کی نیرنگی‘ پھولوں کی خوش بو اور تازہ‘ اجلے سبز پتوں کا موج میلہ نہیں کہ ہماری طبیعت میں بھی یہی کیفیت نظر آتی ہے‘ اس سے زیادہ‘ کئی گنا زیادہ‘ آج کل ضمیر جاگنے کے چرچے ہیں جس کے سبب ہم باغ باغ ہیں۔ یہ درویش‘ اور وہ لوگ جو ملک کی آزادی کے بعد سے ہی سیاسی مدوجزر دیکھتے آئے ہیں‘خوش گوار حیرت میں ہیں کہ ضمیر کا انقلاب آ چکا ہے۔ ہمارے عام معصوم لوگ بھی اٹھتے بیٹھتے‘ سوتے جاگتے‘ چلتے گھومتے بس صرف ایک ہی لفظ کی گردان کر رہے ہیں۔ ہم تو اس نا پائیدار اعلیٰ انسانی قدر کے بارے میں مایوس ہو گئے تھے۔ یہی حال ان کا بھی ہے جو سیاست اور تاریخ کا گہرا مشاہدہ اور وسیع مطالعہ رکھتے ہیں۔ نہ جانے ہم نے خواہ مخواہ اس مایوسی میں کیوں زندگیاں گنوا دیں کہ اس ملک میں ضمیر سویا رہے گا‘ گونگا اور بہرہ رہے گا بلکہ اندھا بھی‘ اور اگر کبھی کہیں دھیمی سی کوئی آواز نکلی بھی تو بے ضمیروں کے شور میں دب جائے گی۔ خود پہ ترس بھی آ رہا ہے کہ ہم اس ملک کے لوگوں اور خصوصاً تین سو حکمران گھرانوں سے معافی کے طلب گار ہیں کہ ہم یہ فضول خیال دل میں پالتے پالتے بال سفید کر بیٹھے ہیں۔ موجودہ حالات میں‘ اور جب سے پاکستان تحریکِ انصاف کے منحرف اراکینِ اسمبلی‘ ان کو سلامتی کے حصار میں محفوظ کرنے والوں اور بے شمار لکھاریوں اور تبصرہ نگاروں نے ضمیر کے مطابق عدم اعتماد کی تحریک میں ووٹ ڈالنے کی تبلیغ شروع کر رکھی ہے‘ ہم اپنی ہی سوچ پر اور زیادہ شرمندہ ہو رہے ہیں۔
برس ہا برس کی سیاسی تبدیلیوں‘ بدلتے سیاسی موسموں اور پارٹیوں میں نئی بھرتیوں اور پھر سبز چراگاہوں کی کشش کو دیکھ کر پیدا ہونے والی پھرتیوں کو دیکھتے دیکھتے‘ غلطی سے یقین کی کیفیت میں مبتلا ہو گئے تھے کہ اس ملک اور معاشرے سے ضمیر صاحب طویل چھٹی لے کر کسی اور ملک منتقل ہو گئے ہیں۔ ہمیں یہ بھی غلط سلط خبریں ملتی رہیں کہ وہ باہر جا کر خوش ہیں اور ان کا واپسی کا کوئی ارادہ نہیں۔ ہمیں ضمیر کو اپنے درمیان‘ حکمرانوں کی پُر زور فرمائش پر واپس لوٹ آنے اور آتے ہی ملک کے کونے کونے میں چھا جانے پہ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ہم حیرانیوں کے کالے وسیع سمندر میں ڈبکیاں لگا رہے ہیں۔ ویسے کبھی کبھار میرے دل میں امید کی چنگاری جل اٹھتی تھی کہ ہو سکتا ہے‘ ضمیر پھر سے ہمارے سیاسی افق پر جلوہ گر ہو‘ مگر میرے دائمی قنوطیت پسند احباب کا خیال تھا کہ اسے ہمیشہ کے لیے کالے پانی نکالا جا چکا ہے‘ لہٰذا اب وہ کبھی نہیں‘ کبھی نہیں آئے گا۔ کچھ اور یار لوگ اس وہم اور مغالطے میں سر کھپاتے رہے کہ ہمارے ملک کے اندر موجود تو ہے‘ مگر وہ نیند کی گولیاں بھاری مقدار میں گرم لیموں پانی کے کئی گلاسوں سے نگل کر گہری نیند میں خراٹے لے رہا ہے۔ اپنے ڈبل بیڈ کے ساتھ نمایاں حروف میں لکھ بھی رکھا ہے کہ ہم اب دنیا کی فکر سے آزاد اور ملک کی معاشرت اور سیاست سے تنگ آ کر سو چکے ہیں‘ ہمیں جگانے کی زحمت نہ کی جائے۔ اس کے کچھ حامیوں اور حمایتیوں نے کوشش بھی کی کہ ضمیر ساری قوم کی شناخت اور اس کا فخر ہے‘ اگر یہ اسی طرح سویا رہا تو ہماری بربادی یقینی ہے‘ لہٰذا جگانے کی کوشش میں مصروف رہے‘ مگر زرِ کثیر خرچ کر کے حاصل کی گئی طاقت ور گولیوں کا اپنا اثر تھا۔ وہ یہی سوچتے رہے کہ ا ب تو بس یونہی بستر پر نیم مردہ حالت میں دراز رہے گا۔ لیکن ہم سب غلط تھے‘ اب ضمیر اور ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے اس کے سب خیر خواہوں سے شرمندگی کے ساتھ معافی کے طلب گار ہیں۔معافی مانگنا بنتا بھی ہے ۔ یہ کوئی چھوٹی موٹی غلطی نہ تھی۔
سن رکھا ہے کہ سیانے کہتے ہیں‘ اپنی غلطی تسلیم کر لی جائے اور تہہ دل سے‘ تو سمجھیں آپ نئی زندگی کا آغاز کر رہے ہیں۔ آج ہم نے بھی فیصلہ کر لیا ہے کہ اب ہم بھی ضمیر کے انقلاب کے رنگ میں رنگے جائیں گے۔ ہم تو انقلابوں کو بھی محبت کے سوکھے پھولوں کی طرح کتابوں کے صفحوں میں دبا کر بھول چکے تھے۔ اب تو یہ سب مایوسیاں ختم ہو گئی ہیں‘ کیونکہ ضمیر ہے اور اس کی ہر سو گونجتی ہوئی آواز اور ہم سب آواز رکھنے والوں کی آواز میں فقط ایک ہی آواز میں مل چکی ہیں۔ ہر طرف خوشی کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں‘ مٹھائی گلیوں میں اتنا تقسیم ہو رہی ہے کہ چینی اب مزید مہنگی ہو رہی ہے‘ لیکن ہمارے سیاسی گھرانوں کی شوگر ملوں کی تو چاندی ہو گی کہ ضمیر جاگنے پر بھی وہ فائدے میں رہے ہیں۔ دھڑا دھڑ عوام جشن منا رہے ہیں کہ اب آئندہ ہمارے نمائندے جس سیاسی جماعت کی ٹکٹ سے انتخابات میں حصہ لے کر کامیاب ہوں گے‘ اسمبلیوں میں فیصلے صرف اور صرف ضمیر کی آواز کے مطابق ہی کریں گے اور یوں سب ٹھیک ہو جائے گا۔
ایک اور غلط فہمی بھی ہماری دور ہو گئی ہے بلکہ آج کے بعد ہمیں تمام غلط فہمیوں سے پاک صاف سمجھیں کہ ایسے انقلاب عوام کی طاقت سے آتے ہیں۔ وہ تمام سیاسی مفکر کتنے غلط نکلے اور وہ سیاسی اکابرین بھی جو اس خام خیالی میں مبتلا رہے کہ طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں۔ ہم بھی جو لکیر کے فقیر ٹھہرے‘ خواہ مخواہ جمہوریت‘ اور نمائندہ حکومت اور احتسابی عمل کی حمایت کرتے رہے۔ اب یہ ہماری تاریخ سے ثابت ہو گیا ہے کہ کم از کم ضمیر قوم کا جگانا ہے تو کسی بڑی اخلاقی‘ مذہبی‘ تہذیبی اور سماجی تحریکوں کی ضرورت نہیں‘ صرف اور صرف دس‘ بیس یا مطلوبہ تعداد میں حکمران سیاسی گھرانوں کے عوامی نمائندوں پر کام کریں‘ ان کا ضمیر جونہی ہڑبڑا کر گہری نیند سے اٹھے گا‘ قوم کی تقدیر بدل کر رکھ دیں گے۔ ہم سب بہت خوش ہیں اور ہمارا خوش ہونا بنتا بھی ہے کہ ہماری سیاست میں‘ جو اب تک اخلاقی کمزوریاں تھیں‘ اب بالکل نہیں رہیں گی۔ ہم اب تک محسوس کرتے ہیں کہ عوام اور معاشرے کے رویے حکمرانوں کے رویوں سے مرتب ہوتے ہیں‘ تو اب یہ گمان بھی ہے کہ ہم سب اسی طرح سدھر جائیں گے جیسے ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے والے تحریکِ انصاف کے محترم اراکینِ اسمبلی۔
دل میں کچھ سوالات بھی بار بار بد ہضمی کے مروڑ کی طرح اٹھتے رہتے ہیں‘ مگر جواب ہیں کہ کم از کم اس درویش کی محدود فکر بنا نہیں پا رہی۔ جاتے جاتے کچھ ان کا بھی ذکر ہو جائے۔ ضمیر ایک ہے یا اس کی بھی سستی‘ مہنگی‘ دیسی‘ ولایتی قسمیں ہیں؟ یہ موسمی ہے‘ یا سارا سال بازارِ سیاست میں دستیاب رہتا ہے؟ اگر اتنا عرصہ سویا رہا‘ اور ہم جگانے کی کوشش بھی کرتے رہے لیکن نہیں جاگا‘ تو اچانک تحریکِ انصاف کے اراکین میں کیونکر جاگا؟ اور بھی کئی سوال ہیں مگر وہ ہماری پریشانیوں میں اضافہ کریں گے‘ اس لیے انہیں ابھی رہنے دیتے ہیں‘ پھر کبھی بات کر لیں گے۔ ابھی ہم ضمیر کی بہاریہ فصل کے رنگ دیکھتے ہیں‘ اور جھنڈا اٹھا کر ضمیر جگانے والوں کی خوشیوں میں بغیر کسی دعوت کے شریک ہوتے ہیں۔