تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     21-03-2022

جلتا ہوا گھر سامنے ہے!

قسم ہے اس خاک و خون کی۔ قسم ہے ان لازوال قربانیوں کی۔ قسم ہے انسانی تاریخ کی ہولناک ترین ہجرت کی۔ قسم ہے خون کا دریا پار کرنے والوں کی بے سروسامانی کی۔ قسم ہے اس بے بسی اور فلک شگاف چیخوں کی۔ قسم ہے ان لرزتی کپکپاتی بہنوں اور بیٹیوں کی۔ قسم ہے اُن فریادوں اور آہ و بکا کی۔ قسم ہے اس دھرتی ماں کی جس کے حصول کے لیے مال و اسباب سے لے کر بہنوں‘ بیٹیوں اور معصوم بچوں تک کو قربان کر دیا گیا۔ قسم ہے ان سفید بالوں والوں کی جو زخم صاف کرتے اور لاشیں اٹھاتے اٹھاتے خون سے رنگے جا چکے تھے۔ اتنی قسمیں اس لیے اٹھائی ہیں کہ کسی طور عوام کو یہ یقین آجائے کہ ان کے رہبر و رہنما‘ ان کے نجات دہندہ‘ ان کے لیڈر‘ ان کے آئیڈیل‘ خاک و خون کی المناک داستان سے لے کر دہلا دینے والی قربانیوں اور دن کے چین سے لے کر راتوں کی نیندیں برباد کر دینے والی بربریت اور ہولناک مناظر تک سب کچھ فراموش کر چکے ہیں۔ ان کے لیے یہ مملکت خداداد محض ایک خطہ ہے جہاں وہ شوق حکمرانی سے لے کر اپنی تمام من مانیوں تک کو برابر پورا کر سکیں۔
عوام کے مینڈیٹ کو بیچنے سے لے کر سرکاری وسائل کو بھنبھوڑنے اور اس پر کنبہ پروری سمیت نجانے کیسے کیسے اللے تللے پورے کرنے والے یہ 'سماج سیوک‘ نیتا ملک کو بالآخر اس مقام پر لے آئے ہیں جہاں سیاست سے لے کر اخلاقیات‘ قانون اور ضابطوں سے لے کر جزا اور سزا کے تصور تک سبھی کچھ لیر و لیر ہو چکا ہے۔ نہ احترام آدمیت ہے نہ شرم و حیا۔ نہ کہیں برداشت ہے اور نہ ہی تحمل و بردباری۔ نہ منصب کا احترام ہے نہ مرتبے کا لحاظ۔ قول و فعل سے لے کر زبان و بیان تک انہوں نے کسی کے پلے کچھ نہیں چھوڑا۔ سبھی ایک سے بڑھ کر ایک اور نہلے پہ دہلہ ہی ثابت ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ سیاسی اکھاڑے کا منظرنامہ اس قدر تشویشناک ہے کہ یہ خوف بڑھائے جا رہا ہے کہ ان 'سماج سیوک‘ نیتائوں کی زبانوں سے اگلتے ہوئے شعلے کہیں وہ آگ نہ لگا ڈالیں کہ رہاسہا بھرم بھی خاکستر ہو جائے۔ ان کی بد زبانیاں ہوں یا اشتعال انگیز بیانیے‘ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سبھی سیاستدان نہیں بلکہ گلی محلوں کے گینگسٹر ہیں اور ان کے درمیان کوئی سیاسی معرکہ نہیں بلکہ گینگ وار چل رہی ہے۔ جوں جوں سیاسی اکھاڑے میں کشیدگی اور تنائو بڑھتا چلا جا رہا ہے توں توں اس اکھاڑے کے اثرات گلی محلوں اور سڑکوں پر نمودار ہونے کے خطرات بھی بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار آئندہ کسی سیاسی معرکہ میں ایک دوسرے کے بھائی بھائی اور حلیف تو بجا طور پر بن سکتے ہیں‘ لیکن ان کی یہ عیاری عوام کو ایک دوسرے سے دست و گریباں اور متشدد حالات سے دوچار کرنے کا باعث ہے۔ کس کو معلوم یہ آگ کہاں تک پہنچے۔ عوام کو تواتر سے دکھائے گئے خواب اور حالات کی سنگینی کے اظہار کے لیے افتخار عارف کا ایک شعر بطور استعارہ پیش خدمت ہے:
نہیں معلوم اب اس خواب کی تعبیر کیا ہو
میں نرغے میں ہوں اور جلتا ہوا گھر سامنے ہے
ایک بار پھر عوام کے مینڈیٹ کو بیچنے سے لے کر اقتدار اور وسائل کے بٹوارے کے لیے ایک دوسرے کو آسرے اور جھانسے دئیے جا رہے ہیں۔ ایک دوسرے سے بار بار ڈسے جانے والے ایک بار پھر ایک دوسرے کو آزمانے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ عدم اعتماد سے لے کر اگلے مراحل تک عوام کے لیے امتحان ہی امتحان ہیں۔ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ملک و قوم‘ عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والوںکا بوجھ اُٹھاتے اٹھاتے ہلکان ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اندیشوں اور وسوسوں کے سائے اتنے طویل ہوتے جا رہے ہیں کہ ان کے سامنے عوام تو بس بونے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ مایوسیوں کے گڑھے دلدل بن چکے ہیں۔ ان سے باہر نکلنے کی کوشش کرنے والا مزید دھنستا چلا جا رہا ہے اور اب یہ عالم ہے کہ عوام اس طرزِ حکمرانی کے اثراتِ بد سہتے سہتے حالات کے رحم و کرم پر ہیں۔ لگتا ہے‘ نہ حالات بدلیں گے‘ نہ ہی عوام کی حالتِ زار بدلتی دکھائی دیتی ہے۔ ہر گزرتا دن جہاں مایوسیوں کے اندھیروں میں اضافے کا باعث بن رہا ہے وہاں یہ سوال بھی دن بدن اہمیت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے کہ آخر ایسا کب تک چلے گا؟ من مانی طرز حکمرانی ماضی کے حکمرانوں کی ہو یا دور حاضر کے‘ عوام ان سبھی سے عاجز آ چکے ہیں۔عوام کی قربانیاں ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہیں۔
مجہول سیاست ہو یا حکمرانوں کے بلند بانگ دعوے‘ بیانات کی جگالی ہو یا وعدوں سے انحراف‘ مکافاتِ عمل کی پکڑ میں واویلا کرتی اپوزیشن ہو یا دھوکے پہ دھوکہ کھاتے نجانے کتنی دہائیوں سے بھٹکتے ہوئے عوام‘ کس کس کا رونا روئیں‘ کب تک روئیں‘ یہ رونا تو اب عوام کا مقدر بن چلا ہے۔ ہر نیا دور اور ہر نیا آنے والا حکمران کچھ کرے نہ کرے عوام کی ذلت اور دھوکوں میں ضرور اضافہ کر جاتا ہے۔ ان کی تکالیف مزید بڑھا دیتا ہے۔ جس معاشرے میں عوام زندہ درگور اور اچھی خبر کو ہی ترس جائیں وہاں کیسی گورننس اور کہاں کا میرٹ؟
جو طرزِ حکمرانی عوامی مینڈیٹ کو فروخت کر ڈالے‘ آئین اور حلف سے انحراف روایت بن جائے‘ حکمرانوں سے وفا اور بیماروں سے شفا چھین لے‘ داد رسی کے لیے مارے مارے پھرنے والوں سے فریاد کا حق چھین لے‘ اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود بنیادی حقوق سے محروم کر ڈالے‘ چہروں سے مسکراہٹ چھین لے‘ جذبوں سے احساس چھین لے‘ بچوں سے ان کا بچپن چھین لے‘ بڑے بوڑھوں سے ان کے بڑھاپے کا آسرا چھین لے‘ قابل پڑھے لکھوں اور ہنر مندوں سے ان کا مستقبل چھین لے‘ منہ زور اور طاقت ور کے سامنے غریب کی عزت نفس اور غیرت چھین لے‘ حتیٰ کہ وہ سہانے خواب بھی چھین لے جو ہر دور میں لوگوں کو تواتر سے دکھائے جاتے ہیں‘ جو سماجی انصاف کی نفی کی صورت میں اخلاقی قدروں سے لے کر تحمل‘ برداشت اور رواداری تک سبھی کچھ چھین لے‘ ایسے نظام کے تحت زندگی گزارنا کس قدر جان جوکھوں کا کام ہے‘ اس کا اندازہ لگانا عوام کے لیے مشکل نہیں۔ اکثر تو اس کی قیمت جان سے گزر کر ہی چکانا پڑتی ہے۔
نا امیدی اور خوف کا عالم یہ ہے کہ ماضی میں ملک و قوم کو ہر بار مہنگے پڑنے والے حکمران سستے چھوٹ کر صادق اور امین کے معنی الٹائے پھرتے اور برسر اقتدار آنے کے لیے بے چین اور بوکھلائے پھر رہے ہیں جبکہ ان کے احتساب پر مامور ایک حکومتی مشیر انصاف سرکار سے بھی ہاتھ کرکے دکان بڑھا چکے ہیں۔ میری تحقیق کے مطابق وزیر اعظم کو جہانگیر ترین اور علیم خان سمیت نجانے کتنے قریبی ترین ساتھیوں سے دور اور بد گمان کرنے کا سہرا جن حکومتی چیمپئنز کو جاتا ہے‘ سابق مشیر احتساب ان میں پیش پیش اور سر فہرست ہیں جبکہ دوسرے اہم کردار اپنی اہلیت اور قابلیت کے علاوہ دیانت پر بھی کئی سوالیہ نشان لیے ایک اہم ادارے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بننے جا رہے ہیں جسے میں محفوظ راستہ قرار دیتا ہوں۔ مالم جبہ کیس بند کرنے والے صاحب کے اعتراف فن کو پہلے ہی پذیرائی مل چکی ہے۔ اب دیکھنے سننے اور لکھنے کو کیا رہ جاتا ہے؟ سبھی آزمائے اور پرکھے جا چکے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved