اتحادیوں کو کوئی گارنٹی نہیں دی : فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولا نا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''ہم نے اتحادیوں کو کوئی گارنٹی نہیں دی‘‘ کیونکہ کوئی گارنٹی تو ہمیں خود بھی حاصل نہیں ، ہم کسی دوسرے کو کیا گارنٹی دیں گے اور اگر کچھ دیا دلایا گیا بھی ہو تو یہ کارِ خیر( ن) لیگ اور بالخصوص زرداری صاحب ہی کا کارنامہ ہو سکتا ہے کیونکہ ہم نے جو دال دلیہ کیا ہے وہ ہم اس کام کی نذر نہیں کرسکتے ،جبکہ اس کام میں حصہ لینا ہماری مجبوری بھی تھی کیونکہ کرنے کا کوئی دوسرا کام ہمارے لئے رہ ہی نہیں گیا تھا؛ چنانچہ اپنی مجبوری کی وجہ سے یہ کام طوعاً و کرہاً کر رہے ہیں جس کیلئے ہم معافی کے بھی خواستگار ہیں ۔ آپ اگلے روزاسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
فوری فیصلہ نہ کریں، عزت دیں گے : پرویز خٹک
وزیر دفاع پرویز خٹک نے تحریک انصاف کے منحرف رہنما جہانگیر ترین سے کہا ہے کہ ''آپ فوری فیصلہ نہ کریں ہم آپ کو عزت دیں گے‘‘ اگرچہ عزت و احترام وغیرہ کے حوالے سے ہمارا اپنا ہاتھ خاصا تنگ ہے مگر ہم کوشش کریں گے کہ کہیں نہ کہیں سے کوئی عزت مہیا کر کے آپ کو پیش کرسکیں کیونکہ منحرف ارکان نے اپنے رویے سے ہماری عزت خاک میں ملانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اگرچہ ہم نے انہیں دھمکیاں تو کافی دی ہیں اور ان میں سے کئی کمزور لوگ واپس بھی آگئے ہیں جبکہ دوسروں کوتا حیات نا اہلی کی خوشخبری بھی سنا دی گئی ہے اور امید ہے کہ وہ بھی بہت جلد راہ راست پر آجائیں گے۔ آپ اگلے روز جہانگیر ترین سے ٹیلی فون پر رابطہ کر رہے تھے۔
زرداری کا ایم کیو ایم سے معاملہ طے پا گیا ہے : شہباز شریف
قومی اسمبلی میں قائدحزب اختلاف( ن) لیگ کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''زرداری کا ایم کیو ایم کے ساتھ معاملہ طے پا گیا ہے‘‘ اگرچہ یہ بات خود زرداری صاحب یا ایم کیو ایم کی طرف سے کی جانی چاہئے تھی لیکن وہ چونکہ پی ٹی آئی ارکان کے معاشی مسائل سدھارنے میں بے پناہ مصروف ہیں شاید اس لئے انہیں یہ بات خود کہنے کا موقع نہ ملا ہو جبکہ ایم کیو ایم کے لوگ ویسے ہی مرضی کے مالک ہیں، وہ کسی سے بشمول ہمارے سیدھے منہ سے بات ہی نہیں کرتے اس لئے یہ فریضہ میں سر انجام دے رہا ہوں، اگرچہ کسی طرف سے کوئی تردید وغیرہ نہ آ گئی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک انٹر ویو دے رہے تھے۔
خان کے پاس ترپ کا پتا ہے،سرخرو ہوں گے :گورنر سندھ
گورنر سندھ عمران اسماعیل نے کہا ہے کہ ''عمران خان کے پاس ترپ کا پتہ ہے ،سرخرو ہوں گے‘‘ اور آپ سب جیسا کہ جانتے ہیں کہ ترپ کا پتہ ہاری بازی ہی الٹ دیا کرتا ہے مگر یہ پتہ انہوں نے مجھے تو نہیں دکھایا لیکن ان حالات میں ان کے چہرے کے اطمینان سے ظاہرہوتا ہے کہ ان کے پاس کچھ نہ کچھ ہے ضرور کیونکہ یہ اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بجائے اس کے کہ منحرف ارکان کے ساتھ واپسی کیلئے پیار محبت کی بات کریں ، انہیں طرح طرح کی دھمکیاں دیتے چلے جارہے ہیں جبکہ ایک آدھ آئینی اقدام کے بارے میں بھی کہا جاسکتا ہے کہ عین وقت پر وہ اٹھا سکتے ہیں۔ آگے اللہ کی اللہ ہی جانے۔ آپ اگلے روز کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
دیکھتے ہیں او آئی سی کانفرنس کیسے ہوتی ہے: بلاول
چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''دیکھتے ہیں او آئی سی کانفرنس یہ کیسے کرتے ہیں‘‘لیکن میرے اس بیان پر حکومت نے سخت ردعمل دیا ہے بلکہ عوام نے بھی ، اس کے بعد یہی کہہ سکتے ہیں کہ اس بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے ۔کہنے کامطلب ہے کہ سیاست او آئی سی کانفرنس پر اثر انداز نہیں ہوگی ، اس طرح پہلے بھی کئی موقعوں پر اپوزیشن نے یہی کچھ کہا ہے۔ نیز یہ بھی یاد رکھیں کہ تحریک عدم اعتماد کا مالی بوجھ سارا ہم نے اٹھا رکھا ہے اور عدم اعتماد تحریک کو کامیاب بنانے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا رکھی ہے لیکن اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کو ہماری قربانیوں کا ذرا بھی احساس نہیں ہے۔ اس لئے اگر تحریک کے معاملے میں کوئی گڑ بڑ ہوگئی تو ہم ذمہ دار نہ ہوں گے کیونکہ تالی دونوں سے بجتی ہے۔ آپ اگلے روز اپوزیشن رہنمائوں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں عامر سہیل کی پنجابی نظم
سنت کبیرا
سنت کبیرا یار صغیرا
اے یاقوت دا حجرہ تیرا
بلھے شاہ دا مجرا تیرا
کون پریتاں گلمے پاوے
بلھے شاہ نوں چین نہ آوے
لمی زلفوں زلف عشا دی
فجروں فجر امامت کریے
باہمن عشق نشے دا ٹھوٹا
کونجاں وانگ ملامت کریے
اکھاں وچ سولی دا نقشہ
اُٹھ اُٹھ یار محمد بخشا
اج دی شام تے اج دا روزہ
بدلاں وچ افطار کراں گے
جیوندیا ں مردیاںآساں لے کے
سورج وچ وچکار کراں گے
ویکھ کے تیری تخت نشینی
ڈل ڈل پیندی رات کمینی
ہفت ا سمان تے ہفت ولایت
چودہ طبق شکار کراں گے
تیرے مکھ دا میلہ لگیا
رشماںدا بیوپار کراں گے
تینوں شیخ الشرم چ رکھئے
یا اکھاں دے حرم چ رکھئے
توں امبراں تو لتھی چٹھی
مٹی جگ تے میں وی مٹی
آج کا مقطع
کچھ اِس زمیں پہ اندھیرے ہیں آرزو کے ظفرؔ
کچھ آسماں پہ وہ ماہِ مبیں نہیں آتا