تحریر : محمد عبداللہ حمید گل تاریخ اشاعت     21-03-2022

23مارچ یوم پاکستان :حقیقی تجدیدِ عہد کا متقاضی

شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ ٔخورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمۂ توحید سے
شاعر مشرق علامہ اقبال نے 1918ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب'' رموزِ بے خودی‘‘ میں اسلامی معاشرے کے اصول وضوابط نہایت دقت نظر کے ساتھ پیش کیے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ انہی سالوں میں ہندوستان میں اسلامی معاشرے کی تشکیل کیلئے ایک آزاد اسلامی ریاست کا تصور اپنے ذہن میں رکھتے تھے۔ اس حوالے سے ان کی ولولہ انگیز نظمیں:شکوہ‘ جواب شکوہ‘ خضر راہ اور طلوعِ اسلام وغیرہ نے برصغیر کے مسلمانوں کے دلوں میں ایک ہیجان پیدا کر دیا۔ مایوسی اور ناامیدی کی فضا چھٹنے لگی اور ایک روشن مستقبل کی امید پیدا ہونے لگی۔ بلاشبہ قراردادِ پاکستان 23مارچ 1940ء تشکیل تحریک پاکستان کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس قرارداد کی منظوری نے ہندواور انگریز کے ایوانوں میں تہلکہ مچاد یا۔ گاندھی پکار اٹھا تھا کہ گائوماتا کے دو ٹکڑے نہیں ہوسکتے‘ نہرو نے اسے مجذوب کی بڑ اور پٹیل نے دیوانے کا خواب قرار دیا لیکن اس کے باوجود دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ وہ عظیم مملکت معرضِ وجود میں آکر رہی جس کے قیام کی جدوجہد کی باقاعدہ منصوبہ بندی کا آغاز 23مارچ کو فرزندانِ توحید کے اجتماع میں تیار کیا گیاتھا ۔ 23مارچ کو جس منزل کا تعین کیا گیا اس کا حصول کوئی معمولی کام نہ تھا‘ اس تک رسائی کیلئے رکاوٹوں آزمائشوں اور امتحانوں کے جان گسل اور حوصلہ فرسامراحل سے گزرنا پڑا ‘بالآخر اپنے قائد کی ولولہ انگیز قیادت میں اپنی منزل کو جالیا۔ یہی وہ تاریخ ساز دن ہے جب منٹوپارک لاہور میں قائداعظم کی زیر صدارت مسلم لیگ کے عظیم الشان اجتماع میں قراردادِ لاہور منظور ہوئی اور دو قومی نظریے پر قیام پاکستان کی بنیاد رکھی گئی جس کے بعد سات سال کے مختصر عرصہ میں برصغیر کے مسلمانوں نے اپنی پرامن جمہوری جدوجہد کے ذریعہ 14 اگست 1947 ء کو تشکیل ِپاکستان کے خواب کو حقیقت میں بدل دیا۔یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے پیش کی گئی قرار داد کو اُس وقت ''قرار دادِ لاہور‘‘ کا نام دیا گیا تھا جس کو دشمنان ِاسلام و پاکستان نے طنزیہ طور پر ''قرار دادِ پاکستان‘‘ کے نام سے پکارنا شروع کر دیا۔ اسی دن سے قرار دادِ لاہور ‘ قرار دادِ پاکستان کے نام سے مشہور ہو گئی اور مسلمانوں نے اس نئے نام یعنی ''قرار دادِ پاکستان‘‘ کو بخوشی قبول کیا۔23مارچ کا دن ہر سال اہلِ پاکستان کو اس جذبے کی یاد دلاتا ہے جو قیام پاکستان کا باعث بنا۔
قیام پاکستان کیلئے سندھ‘ بلوچستان‘ سرحد‘ پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں نے بے پناہ قربانیاں دیں‘ اب پاکستان کو اغیار کی بد نظری سے بچانے کیلئے اسی اتحاد کی ضرورت ہے جس کے ایمان افروز مناظر 23 مارچ 1940ء کے دن مینار پاکستان کے میدان میں دیکھے گئے۔نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تاریخی جدوجہد اور لاکھوں جانوں کے نذرانے دے کر حاصل ہونے والا پاکستان آج مسائل کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔چاروں طرف کرپشن اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے ۔جس مادرِ وطن کیلئے قربانیاں دی گئیں‘ اسے مفاد پرست حکمرانوں نے کچھ ہی برسوں بعد دو لخت کر دیا۔طالع آزمائوں کی اقتدار کی ہوس نے مغربی پاکستان ہم سے جدا کر گیا۔ ہمارے ازلی دشمن بھارت نے توآج تک ہمیں قبول نہیں کیا اور وہ مسلسل ہمیں ہڑپ کرنے کی مذموم کارروائیوں میں سرگرم رہتاہے ۔ ہماری سالمیت و خودمختاری پر حملہ کرتے ہوئے مشرقی پاکستان ہمارا بازو کاٹ لیا گیا اور ایک بار پھر وار کرتے ہوئے 5 اگست 2019ء کومقبوضہ کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرتے ہوئے اسے ہتھیا لیا گیا۔ کشمیری محصور ہیں اور دوسری جانب ہم ہیں کہ یوم پاکستان پر تقاریر ‘ کانفرنسز کے نعقاد سے آگے نہ بڑھ سکے ۔
قائداعظم نے یہ بھی باور کرادیا تھا کہ اسلام اور ہندوازم در حقیقت دو مختلف معاشرتی نظام ہیں‘ اس لئے اس حقیقت کو خواب و خیال ہی کہنا چاہیے کہ ہندو اور مسلمان مل کر ایک مشترکہ قومیت تخلیق کر سکیں گے۔ قائداعظم نے اس کی وضاحت یوں کی کہ ایسی دو قوموں کو ایک ریاست اور ایک حکومت کی مشترکہ گاڑی کے پہیے بنانے اور انہیں باہمی تعاون کے ساتھ قدم بڑھانے پر آمادہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دونوں کے دلوں میں بے صبری روز بروز بڑھتی رہے گی جو انجام کار تباہی لائے گی۔ اسلامی حکومت کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا ''اسلام بحیثیت ایک نظامِ سیاست کے اصولِ توحید کو انسانوں کی جذباتی اور ذہنی زندگی میں ایک زندہ عنصر بنانے کا عملی طریقہ ہے اس کا مطالبۂ وفاداری خدا کیلئے ہے‘ نہ کہ تخت وتاج کیلئے‘‘۔ریاست کے اسی موضوع پر قائد اعظم نے فرمایا ''اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفا کشی کا مرجع خدا کی ذات ہے‘ جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے‘ نہ پارلیمنٹ کی‘ نہ کسی شخص اور ادارے کی۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست ومعاشرت میں ہماری آزادی کی حدود متعین کر سکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اسلامی حکومت قرآن کے اصول واحکام کی حکومت ہے‘‘۔علامہ اقبال نے کہا ''مسلمانوں اور دنیا کی دوسری قوموں میں اصولی فرق یہ ہے کہ قومیت کا اسلامی تصور دوسری اقوام کے تصور سے بالکل مختلف ہے۔ ہماری قومیت کا اصول نہ اشتراکِ زبان ہے‘ اشتراکِ وطن‘ نہ اشتراک ِاغراض ِاقتصادی‘ بلکہ ہم لوگ اس برادری میں ہیں جو رسالت مآب ﷺنے قائم فرمائی تھی ‘ہم سب کے معتقدات کا سرچشمہ ایک ہے۔
پاکستان ہمارے نبی آقا دوعالم حضرت محمد ﷺ کی بشارت کے نتیجے میں ملا ہے۔پاکستان اور اسلام ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔ عالمی استعماری طاقتوں نے پاکستان کو تجربہ گاہ بنا رکھا ہے جہاں کبھی عورت مارچ کا تجربہ ہوتا ہے اور کبھی اعتدال پسندی اور روشن خیالی کی آڑ میں لال انقلاب کو ہم پر مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کیلئے نوجوان طبقے کو جھانسے میں لایا جا رہا ہے ۔ان کی ذہن سازی کی جارہی ہے کہ جو پاکستان کے خلاف آواز اٹھائے گا اسے اتنی ہی پذیرائی ملے گی۔ باقاعدہ ایک منظم سازش کے تحت نوجوانوں کے دل ودماغ سے نظریۂ پاکستان کو مٹایا جا رہا ہے تاکہ ان میں جذبہ حب الوطنی ماند پڑ جائے۔اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں چانکیائی سازشوں کو سمجھنا ہو گا جس کے مطابق آپ کا پڑوسی آپ کا دشمن ہے اور پڑوسی کا پڑوسی آپ کا دوست۔ ہمارا ازلی دشمن بھارت اسی اصول پر مسلسل عمل پیرا ہے۔ لمحۂ فکریہ تو یہ ہے کہ اقتدار کی بھوکی اشرافیہ نے مملکت خداداد کو کرپشن‘ لوٹ مار‘ اپنے مفادات‘ اقرباپروری‘ فرقہ واریت اور دہشت گردی و لاقانونیت کی آماجگاہ بنادیا۔ بدقسمتی سے ہمیں قائد اعظم کی رحلت کے بعد ایسی قیادت نصیب ہی نہ ہو سکی جس میں میں قائد جیسا عزم و حوصلہ ہو۔ قائداعظم آزادی کشمیر کیلئے انتہائی متحرک تھے ‘ آپ نے جنرل گریسی کو کشمیر کی آزادی کیلئے فوج کشی کا حکم دیا تھا جس پر بوجوہ اُس وقت عمل نہ ہو سکا۔ قائداعظم کو زندگی نے مہلت دی ہوتی تو وہ آزادیٔ کشمیر کو یقیناً اپنی پہلی ترجیح میں رکھتے۔ ان کے جانشین ہونے کے دعویداروں نے کشمیر پر قبضہ کرنے والوں کے ساتھ تعلقات قائم کرلئے حالانکہ بھارت کے مسئلہ کشمیر کے حل تک منافع بخش تجارت بھی گوارا نہیں ہونی چاہیے۔
ایک طرف بھارت سے اپنے حصے کا پانی واگزار کرانے کی کوشش نہیں کی جاتی‘ دوسری جانب کالاباغ ڈیم جیسے آبی ذخائر کی تعمیر کو سیاسی تنازع بنا دیا گیا۔ ہمیںآج پھراپنے اندر تحریک پاکستان کے جذبے اور ولولے کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔اُس دور میں مسلک بھی ایک تھا ‘مقصد بھی ‘ ذات کی بجائے ملک کی سربلندی مطمح نظر تھی۔ اسی لئے اس دور کے لیڈروں کی جیبیں بوقتِ مرگ خالی ہوتی تھیں۔پاکستان اپنی منزل کے حصول کیلئے سرگرداںہے ۔ یوم پاکستان کے موقع پر روایتی تجدید عہد سے آگے نکل کر اس اسلامی فلاحی جمہوری پاکستان کیلئے انفرادی اور اجتماعی ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرنا ہو گا جو بانیانِ پاکستان نے عملاً کرکے دکھایا۔ آج کے پاکستان کو ایک بار پھر قومیتوں سے ایک قوم بننے کی ضرورت ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved