میں ہی بوڑھی بی بی نصیحت ہوں۔
کیوں شور مچا کر ہلکان ہو رہے ہو؟ یہاں مجھے اب کوئی نہیں جانتا۔یوں سمجھو کسمپرسی سی کسمپرسی ہے ۔ نصف صدی ہو گئی اس اندھیری بھری کوٹھڑی میں پڑی ہوں۔زمانے ہو گئے ہیں یہی صورت حال ہے ۔ کسی کو میرا خیال نہیں کوئی میرا پرسان ِ حال نہیں۔
آج کل مجھ پر ایسا زمانہ آیا ہوا ہے کہ ہر کوئی مجھ سے نالاں ہے ۔یوں سمجھو مجھے معاشرے نے بارہ پتھر کر دیا گیا ہے ۔کیا زمانہ تھا کہ سارے لوگ مجھ پر فریفتہ تھے ۔ کیا بڑے کیا چھوٹے سارے میرے دیوانے تھے ۔صبح سویرے مجھے یاد کیا جاتا تھا۔بسا اوقات تو میرا ذکر پہلے ہو جاتا تھا۔گھر کے بزرگ سورج نکلنے سے پہلے ہی مجھے یاد کرتے تھے اور کہتے تھے اٹھ جا کیا سوتے ہی رہو گے ؟
صبح سویرے اٹھنا سو بیماریوں کا علاج ہے ۔میں اپنے ذکر پر پھولے نہ سماتی تھی۔گھر اور باہر میری ہی باتیں ہوتی تھیں۔ میرے چچازاد غصہ بھائی اور بھابی کدورت رانی کو کوئی گھاس ہی نہیں ڈالتا تھا۔سارا سارا دن بولائے بولائے پھرتے تھے ۔ کبھی ایک گھر کبھی دوسرے گھر کبھی ایک گلی کبھی دوسری گلی جاتے اور جوتیاں چٹخاتے وہاں سے نکل آتے ۔وہ پھٹکار پڑتی کہ کوئی انہیں منہ نہ لگاتا۔ان کی پھپھو نفرت بیگم سے خوب نبھتی تھی۔جہاں دیکھو ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے پھرتے۔ اگرچہ غصہ میاں رشتے میں ان کے سگے بھتیجے تھے لیکن یہ کیا حماقت ہے کہ گلیوں گلیوں پھوپھی بھتیجا ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے پھریں۔تف ہے ایسی قرابت داری پر اور توبہ ہے ایسے گلیوں گلیوں پھرنے سے ۔
غصہ میاں کی دیورانی خوشامد بی کوئی آفت کی پرکالا تھی۔جہاں میرا قیام ہوتا وہیں حیلے بہانے سے آ دھمکتی۔کئی بار گھر والوں نے اسے ڈرایا دھمکایا مگر کوئی ایسی لیسدار بی بی تھی وہیں دوبارہ مکھی کی طرح بھنبھناتی پھرتی۔اَے ہے اس نگوڑی کی آنکھوں کا پانی ہی مر گیا تھا۔کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔ جہاں پر اس کو لعن طعن کیا جاتا وہاں تو وہ اور خوش ہوتی۔کیسی بری عادت تھی اپنی عزت کا کوئی خیال ہی نہ تھا۔جو اسے پیچھے ہٹاتا وہ اتنی نزدیک ہو جاتی۔کم بخت ماری پتہ نہیں کہاں سے جادو ٹونہ سیکھ کر آئی تھی۔رفتہ رفتہ سارے اسے کوئی خاندانی شخصیت سمجھتے ۔رنگ کی تو گوری تھی مگر عادتیں کچھ نہ پوچھو۔ایسے ایسے نکتے بیان کرتی تھی کہ اگلا صم بکم ہوتا چلا جاتا۔ایک حاکم کی آنکھیں ذرا ٹیڑھی تھیں۔اس کو کہنے لگی: دیکھو میاں آنکھیں تو بس دو لوگوں کی مجھے بھاتی ہیں ایک رانی مکھر جی کی اور ایک آپ کی۔حاکم زمین پر گرتے گرتے بچا۔خوشامد بی آگے بڑھیں اور کشیدہ بھنووں پر نرم ملائم ہاتھ پھیرتے ہوے گویا ہوئی: یہ آئی بروز تو محبوب کی تلوار ہیں۔جو سامنے آے گھائل ہو جائے ‘ زمین پر لیٹنیاں لینے لگے ۔ایک پل اس کو قرار نہ آے ۔مجنوں تو لیلیٰ پر بے سود عاشق ہوا تھا۔ اس نے ان بھنووں کو دیکھا ہوتا تو صحرا میں دیوانہ مارا مارا نہ پھرتا بس دیکھتا اور جان جان ِ آفرین کو پیش کر دیتا۔
سنو تو حالانکہ وہ آئی بروز نہیں تھیں کسی خونخوار دیو کے بھروٹّے تھے ۔حاکم نے ایک عشرہ اسے اپنے پاس رکھا۔حد ہے اس کو اپنا مشیر ِخاص بنا لیا اور ایوان اقتدار میں رہنے کی درخواست تک کر دی۔
خوشامد بی کا جوبن دیکھنے والا تھا ظالم نے دنوں میں وہ قد کاٹھ نکالا کہ سارے دانتوں تلے انگلیاں دبا کر بیٹھے رہتے ۔نہ ہوں ہاں کہنے کی ہمت نہ بولنے کا یارا۔وہ یہیں تک نہ رکی اس نے اپنے سارے دور قریب کے رشتہ دار بلوا لیے اورایوان ِاقتدار میں مسند آرا ہو گئی۔اے ہے مسند آرا ہی سمجھو حاکم آتے اور چلے جاتے وہ وہیں مقیم رہی۔سب سے پہلے اس نے ریاست ماں کے خلاف ریشہ دوانیاں شروع کیں۔ریاست ماں صرف نام کی ماں نہیں تھی سچ مچ ماں تھی۔تب وہ میرے کہے سننے میں تھی‘ کوئی مسئلہ ہوتا ماں مجھے بلا بھیجتی۔میں شاہی کروفر کے ساتھ ایوان میں داخل ہوتی ایک کو سمجھاتی دوسرے کوہلکی سی پیار اور شفقت بھری چپت رسید کرتی۔ وہ معافی کا خواستگار ہوتا۔ میرا بھی مقصد یہی ہوتا کہ معافی تلافی ہو اور اماں ریاست بیگم اپنے کام کاج میں دوبارہ مصروف ہو۔دونوں کو گلے لگاتی دعائیں دیتی وہ احتراماً جھک جھک جاتے میں اقبال مندی کی دعائیں دیتی۔یوں ریاست اماں پھر اپنی ڈگر پر چل پڑتی۔
اس خوشامد نگوڑی نے سب سے پہلے سیاست چچی ‘پھر بددیانتی تائی کو ایوان ِ اقتدار میں بلوا لیا۔از خود میں نے تو اس اقتدار کے کوچے کی طرف جانا نہیں تھا‘ حاکم بلاتا تو جاتی۔پر اندر سے میں کٹ کٹ جاتی تھی۔خود کو کوستی برا بھلا کہتی کہ از خود ہی چلی جاؤں مگر عزت کا خیال آتا اور اپنی عزت احترام اور بھرم کی خاطر ادھر نہ جاتی۔خبریں تھیں کہ مسلسل پریشان کر رہی تھیں۔ریاست ماں کے دل کا سکون غارت ہو گیا تھا۔کبھی ریاست ماں کے ایک بیٹے کی خبر آتی کہ چاقو سے لیس ہو گیا ہے۔سب بھائیوں کو آنکھیں دکھاتا ہے‘ کسی کے کہنے میں نہیں۔جو منہ میں آتا ہے بک دیتا ہے ‘کسی کی شرم ہے نہ لحاظ۔دوسرے سارے بھائی پہلے تو اس کے ناروا رویے کو برداشت کرتے رہتے مگر تابکہ۔ سیاست چچی نے اپنا کھیل شروع کر دیا تھا۔
پانچوں بھائی ایک دوسرے کو آنکھیں دکھانے لگے ۔ایک راضی ہوتا اور ہنسی خوشی رہنے لگتے تو سیاست چچی ایک دوسرے کے کان میں وہ بے پر کی اڑاتی کہ سننے والے کا خون کھول اٹھتا۔چاقو والا بیٹا کسی کے کہنے میں نہیں تھا۔کیا دوسرے چار بھائی اور کیا ریاست اماں۔ریاست اماں نے بڑے مان اور چا ء سے پالکی اور کہار بھیجے کہ نصیحت بی بی کو لے آ ؤ۔ اس کے کان مروڑے تو اس کو چین پڑے ۔میں محل میں پالکی سے کیا اتری وہی بیٹا چاقو لے کر میرے سر ہو گیا۔ غضب خدا کا ایسی دیدہ دلیری ایسی شوخی کبھی سنی نہ دیکھی۔بولا یہیں سے واپس ہو جا بڑھیا ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا۔ اس کی لال لہو بھری آنکھیں دیکھ کر میرا تو اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔میں نے دنیا دیکھی ہوئی تھی اور سمجھ گئی تھی کہ معاملہ بہت خراب ہے ۔دو بھائی باہر آے اور چاقو والے کو کچھ کہنے کی کوشش کی مگر وہ تو ہوا کے گھوڑے پر سوار تھا۔چاقو لہراتا بولا :کیا بھائی ‘کیا ریاست اور کیا نصیحت سب کے گلے کاٹوں گا۔میرے ہاتھ سے کوئی بھی نہیں بچنے والا۔دو بھائی اور ایک میں تینوں کی ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم والی حالت تھی۔ایک بھائی بولا: نصیحت بی بی کی بات تو سن لو آگے تمہاری مرضی مانو نہ مانو۔وہ اپنی ہٹ کا پکا کیسے پیچھے ہٹتا۔میں خود آگے بڑھنے والی تھی کہ جھروکوں میں سے مجھے خوشامد بی‘ سیاست بی اور غصہ میاں نظر آئے ۔ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہو رہے تھے ۔ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے اور ایک دوسرے کے واری صدقے جاتے نظر آئے ۔میں نے ایک اچٹتی سی نظر ان پر ڈالی اور واپسی کی راہ لی۔اب سنا ہے کسی بھائی کی دوسرے بھائی سے سلام دعا نہیں ہے ۔ان میں جو سب سے کمزور اور دانشور بیٹا تھا انہی کی ریشہ دوانیوں سے کب الگ ہو گیا ہے ۔اپنی زندگی میں خوش بخوش ہے ۔ ایک حاکم نے اس بھائی کی علیحدگی کا رونا رویا تو سیاست چچی آنکھیں سرخ کر کے بولی: دور دفعہ دفعان۔اس کا ذکر دوبارہ مت زبان پر لائیو۔
اے ہے کیا زخم ہرے کر رہے ہو ابا‘ تحمل میاں تو بیسویں صدی کے اواخر میں ہی چل بسے تھے ۔چند دن سوگواری کا عالم رہا۔رحلت سے پہلے ہی غشی کے دوروں نے مرحوم کو ادھ موأ کر دیا تھا۔کیا کہوں اس خوشامد بی کے باب میں۔ سبھی بوڑھے ہو گئے ۔ کسی کا منہ پوپلا ہو گیا کوئی بہرا ہو گیا۔ سب کو بڑھاپا چاروں طرف سے مکمل گھیر چکا ہے ۔میرا کیا بھروسا آج ہوں کل نہیں۔سانس کا اعتبار نہیں۔ مگر لوہے کی لٹھ‘ وہ خوشامد رانی جوان کی جوان۔ جو حاکم آتا ہے یہ اس کے آس پاس منڈلائے پھرتی ہے ۔ جو یوسف آتا ہے اس کو دیکھتا ہے تو وہ زلیخا کی طرح پھر جوان ہو جاتی ہے ۔
بھائی الگ رہنے لگا تو باقی چار خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے ۔ سنا ہے کم زور بھائی آج کل لاکھوں میں کھیل رہا ہے باقی ایک دوسرے کو اب بھی کوستے برا بھلا کہتے زندگی گزار رہے ہیں۔