دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے پر جو عالمی نظام اپنایا گیا تھا وہ ملے جُلے اثرات کے ساتھ اب کم و بیش عضوِ معطل ہوچکا ہے۔ اقوام متحدہ اور اُس سے جُڑے ہوئے اداروں نے بین الاقوامی تنازعات کا موثر اور قابلِ عمل حل تلاش کرنے میں ایسی کارکردگی نہیں دکھائی جسے کُھل کر سراہا جائے۔ تاریخ سے شغف رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ دوسری جنگِ عظیم نے پہلی جنگِ عظیم میں یورپ کی متعدد اقوام کی تباہی کے بعد بنائے جانے والے عالمی اداروں کی ناکامی کے بطن سے جنم لیا تھا۔ پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے کے معاہدے میں جرمنی اور اُس کے حلیفوں سے انتہائی امتیازی نوعیت کا سلوک روا رکھا گیا تھا جس کے نتیجے میں جرمنی اور اُس سے ہم خیال ممالک میں یورپ کی برتر ریاستوں کے لیے نفرت پروان چڑھتی گئی۔ یہ بھرپور نفرت دوسری جنگِ عظیم کا باعث بنی۔ ایڈولف ہٹلر نے پہلی جنگِ عظیم کے اختتامی لمحات میں جرمنی سے روا رکھے جانے والے انتہائی اہانت آمیز سلوک کا بدلہ لیا۔
بہر کیف‘ دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا کو چلانے کے لیے جو سیٹ اپ تیار کیا گیا اُس میں اقوام متحدہ پیرنٹ ادارہ تھا۔ اس کے ساتھ جنگ سے تباہ حال ممالک کی تعمیرِ نو کے لیے عالمی بینک تشکیل دیا گیا۔ انٹر نیشنل مانیٹرنگ فنڈ (آئی ایم ایف) کا بنیادی مقصد کمزور معیشتوں کو مدد فراہم کرنا تھا تاکہ وہ ڈھنگ سے کام کریں اور متعلقہ ممالک کے عوام عزت و خوش حالی کے ساتھ جینے کے قابل ہوسکیں۔ بعد میں یہ ادارہ غریب اور کمزور ریاستوں کا خون نچوڑنے کے لیے استعمال ہونے لگا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔
سات عشروں کے دوران دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ اقوام متحدہ سے کسی بھی معاملے میں کوئی بھرپور کلیدی کردار ادا کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ ان سات عشروں میں دنیا نے بہت سے بحران دیکھے ہیں۔ کئی ممالک پر جنگ مسلط کی گئی۔ متعدد ممالک میں خانہ جنگی کو ہوا دی گئی۔ صرف ملک نہیں بلکہ پورے کے پورے خطے تباہی کی نذر کردیے گئے۔ بہت سے چھوٹے ممالک کے قدرتی وسائل کو جی بھرکے لُوٹا گیا۔ عراق اور لیبیا کی تیل کی دولت مالِ مفت دلِ بے رحم کے مصداق ہڑپ کی گئی۔ روکنے والا تو کیا‘ کوئی ٹوکنے والا بھی نہ تھا۔ متعدد دیرینہ تنازعات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اب تک موجود ہیں اور اُن پر کسی بھی نوع کی پیش رفت کا کوئی امکان نہیں۔ امریکا‘ یورپ‘ جاپان اور دیگر طاقتور ممالک عالمی اداروں کو اپنی مرضی کے مطابق چلاتے آئے ہیں۔ کسی بھی اتنی ہمت نہیں کہ اُنہیں مذموم ارادوں سے باز رکھے۔ اقوام متحدہ کے موجودہ سیٹ اپ میں تو کسی بھی بڑی مثبت تبدیل کا خواب بھی نہیں دیکھا جاسکتا۔ کشمیر کا مسئلہ سات عشروں سے سلامتی کونسل میں ہے۔ فلسطین کا مسئلہ بھی کم و بیش اتنی ہی مدت سے سلامتی کونسل کے سرد خانے میں پڑا ہے۔ بڑی طاقتیں اپنی سہولت کے مطابق کسی بھی قرارداد پر خوب عمل کراتی ہیں اور جس ملک کو کمزور کرنا چاہتی ہیں کمزور کرکے دم لیتی ہیں۔ انڈونیشیا سے مشرقی تیمور کو الگ کرکے باضابطہ‘ خود مختار ریاست کا درجہ دے دیا گیا۔ کوئی بھی اس معاملے میں بڑی طاقتوں کے آگے بند نہ باندھ سکا۔ ایسا ممکن ہی نہ تھا۔
اب یوکرین کے بحران نے بھی ثابت کردیا ہے کہ اقوام متحدہ مکمل طور پر عضوِ معطل ہے اور اُس سے کوئی بھی امید وابستہ نہیں کی جاسکتی۔ جنرل اسمبلی محض خانہ پُری کا ادارہ ہوا کرتی تھی۔ اب سلامتی کونسل بھی کچھ ایسے ہی ادارے میں تبدیل ہوچکی ہے۔ سلامتی کونسل میں بحث ہوتی ہے‘ ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ اور بس۔ معاملات یہیں تک رہتے ہیں۔ کوئی حل نہیں نکلتا یا نکلنے نہیں دیا جاتا۔ یوکرین کے بحران کو بھی اقوام متحدہ کے تحت کام کرنے والے عالمی اداروں نے محض تماشائی کی حیثیت سے دیکھا ہے۔ یورپی یونین اور معاہدۂ شمالی بحرِ اوقیانوس کی تنظیم (نیٹو) نے بھی اس معاملے میں کچھ کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی ہے۔ صورتِ حال کو بگڑنے دیا گیا اور جب روس نے لشکر کشی کی تب بھی کَکھ نہ ہِلیا! سوال یہ ہے کہ جب یہ ادارے کسی بھی بحران کو روک نہیں سکتے‘ کوئی حال تلاش نہیں کرسکتے اور متعلقہ لوگوں کے لیے بہتر اور آبرومندانہ زندگی کی راہ ہموار نہیں کرسکتے تو پھر ان کے وجود کا جواز کیا ہے۔ جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی کوکھ سے اگر کسی بھی تنازع کا کوئی آبرومندانہ حل برآمد نہیں ہوسکتا تو پھر اُنہیں مزید کیوں پالا جائے؟ عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اگر کسی بھی کمزور ملک کی معیشت کو سہارا نہیں دے سکتے تو پھر ان اداروں کو اب تک زندہ کیوں رکھا گیا ہے؟ امریکا اور یورپ نے سات عشروں تک عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے ذریعے دنیا بھر میں کمزور ممالک اور خطوں کو اپنی مرضی کے مطابق لُوٹا ہے۔ درجنوں ممالک کو قرضوں کے جال میں جکڑ دیا گیا ہے۔ بعض خطوں کا اتنا بُرا حال کیا گیا ہے کہ وہ اب بھی عشروں تک ابھرنے کے بارے میں سوچ نہیں سکتے۔ کیا عالمی اداروں کے قیام کا یہ مقصد ہوا کرتا ہے؟ دوسری جنگِ عظیم میں دنیا نے عجیب طرح کی تباہی دیکھی تھی۔ کئی ممالک مکمل طور پر تباہ ہوگئے تھے۔ جنگ کے شعلوں نے یورپ کے ساتھ ساتھ اُس سے ملحق خطوں کو بھی بہت حد تک بھسم کر ڈالا تھا۔ اس کے نتیجے میں لازم ہوگیا تھا کہ کوئی ایسا نیا سیٹ اپ لایا جائے جو دنیا کو جینے کے لیے بہتر بنائے۔ یورپ کے ساتھ مل کر امریکا داؤ چل گیا۔ اُس نے ایک ایسا سیٹ اپ تیار کیا جو صرف مغربی مفادت کو تحفظ فراہم کرتا تھا۔ باقی دنیا کو یکسر نظر انداز کردیا گیا۔ ایشیا‘ افریقہ‘ جنوبی امریکا اور یوریشیا کے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر عالمی اداروں کے ذریعے صرف مغربی مفادات کو پروان چڑھایا گیا۔ سلامتی کونسل‘ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کو نئے استعماری ہتھکنڈے کے طور پر بروئے کار لایا گیا۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد ابھرنے والی دنیا میں روس‘ چین اور دیگر مضبوط ریاستوں کو عالمی نظام میں کوئی بھرپور‘ موثر کردار ادا کرنے سے روکنے پر غیر معمولی توجہ دی گئی۔ سرد جنگ کے دور میں سوویت یونین کو مشرقی یورپ تک محدود رکھنا مغرب کا بنیادی مقصد تھا۔ تب چین ابھرا نہیں تھا اس لیے اُس کے حوالے سے کچھ زیادہ فکر کی بات کوئی نہ تھی۔ اب چین اور روس دونوں ہی ابھر چکے ہیں۔ چین نے معاشی طور پر انتہائی مضبوط حیثیت حاصل کرلی ہے۔ وہ اب اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں آچکا ہے۔ روس بھی اپنی تاریخ کے سنہرے دور کو دہرانا چاہتا ہے۔
دنیا نئے موڑ پر آچکی ہے۔ ایسے میں سیاست و معیشت کا نیا نظام ناگزیر ہے۔ یہ نیا نظام ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ چند ریاستیں سارے مزے لے اُڑیں۔ ناگزیر ہے کہ بڑی ریاستوں کے ساتھ ساتھ ابھرتی ہوئی اور پس ماندہ اقوام کا بھی خیال رکھا جائے۔ انسان اکیسویں صدی میں جی رہا ہے مگر اُس کی سوچ اب تک ڈیڑھ دو ہزار سال پہلے کے ماحول میں سانس لے رہی ہے۔ آج کے انسان کو بلند نگاہی اور وسیع النظری کا مظاہرہ کرنا ہے۔ مادّی ترقی تو بہت ہولی۔ اب اخلاقی اور روحانی معاملات پر بھی توجہ دی جائے۔ آج کی دنیا کو ایسے عالمی اداروں کی ضرورت ہے جو سب کی ضرورتوں کا خیال رکھیں۔ معاملات محض دعووں اور وعدوں تک محدود نہیں رہنی چاہئیں۔ باتیں صرف ہوا میں نہ ہوں‘ زمین پر بھی کچھ نظر آنا چاہیے۔
اقوام متحدہ کے تحت کام کرنے والے کلیدی ادارے جنرل اسمبلی‘ سلامتی کونسل‘ عالمی بینک اور آئی ایم ایف مجموعی طور پر عضوِ معطل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان اداروں کی کارکردگی سے دنیا بھر کے غریب اور پچھڑے ہوئے ممالک کا کچھ بھلا نہیں ہو رہا‘ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان اداروں کو جال کی شکل دے کر غریب ممالک کو پھانسا جاتا ہے۔ ناگزیر ہوچکا ہے کہ ایسے نئے عالمی ادارے معرضِ وجود میں لائے جائیں جن سے دنیا کا بھلا ہو‘ تنازعات کو ڈھنگ سے نمٹانا ممکن ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بڑی طاقتوں سے بات منوائی بھی جاسکتی ہو۔ اقوام متحدہ کا سیٹ اپ ناکام ہی اس لیے ہوا ہے کہ بڑی طاقتوں نے اسے اپنی جاگیر سمجھ لیا تھا۔ اب جو بھی سیٹ اپ لایا جائے وہ کسی کی جاگیر نہ ہو‘ آزادانہ کام کرے اور نتائج دے۔