ہم شعبان کے مہینے میں ہیں۔ اس مہینے کی بھی بڑی فضیلت ہے۔ حضورپاک ﷺاس مہینے میں رمضان کے استقبال کے لیے کمرِ ہمت باندھ لیتے تھے۔ آپ دعا کرتے تھے: اے اللہ ہمیں رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان تک پہنچا۔ (مسنداحمد، عن انسؓ)۔ رسول اللہﷺ نے جنت کا شوق دلاتے ہوئے فرمایا: جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے ایک دروازے کو ''رَیَّان‘‘ کہتے ہیں۔ اس دروازے سے (جنت میں) صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے۔ (متفق علیہ، عن سہل بن سعدؓ) مولانا مودودیؒ رَیَّان کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ رَیَّان کا لفظ رِی سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں سیراب کرنا، آبپاشی کرنا۔ رَیَّان سے مراد وہ دروازہ ہے جو سیراب کرنے والا ہے۔
خوش آمدید اے ماہِ مبارک! رمضان شریف از اول تا آخر خیر ہی خیر ہے۔اس کا پہلا عشرہ رحمت،دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ دوزخ کی آگ سے خلاصی کی نوید لے کر آتا ہے۔حضورنبی اکرمﷺ ماہِ شعبان ہی میں استقبالِ رمضان کے لیے کمرِہمت باندھ لیا کرتے تھے۔آپ ﷺ رمضان میں بہت زیادہ عبادت الٰہی کا اہتمام فرماتے۔ہمیں بھی ماہِ شعبان کے آتے ہی اپنے تمام امور و معاملات کو اس نقطہ نظر سے منضبط کر لینا چاہیے کہ رمضان المبارک کی ایک ایک گھڑی ہمارے لیے مفید اور با برکت ثابت ہو۔
حدیث پاک میں آیا ہے کہ نبی اکرم ﷺنے شعبان کی آخری تاریخ کو خطبہ ارشاد فرمایا: ''لوگو! تمہارے اوپر ایک بہت مبارک مہینہ سایۂ فگن ہونے والا ہے۔ یہ بڑی برکت والا مہینہ ہے۔ یہ صبر اور باہمی محبت کا مہینہ بھی ہے۔اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے زیادہ افضل ہے۔ اس مہینہ میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے اگر کوئی شخص کسی روزہ دار کا روزہ کھلوائے تو وہ اس کے گناہوں کی مغفرت اور اس کی گردن کو دوزخ کی سزا سے بچانے کا ذریعہ ہے اور اس کے لیے اتنا ہی اجر ہے جتنا اس روزہ دار کے لیے روزہ رکھنے کا ہے، بغیر اس کے کہ اس روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی واقع ہو۔‘‘
راویٔ حدیث حضرت سلمانؓ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺہم میں سے ہر ایک استطاعت نہیں رکھتا کہ کسی روزہ دار کا روزہ افطار کراسکے۔ آپ ﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ یہ اجر اس شخص کو (بھی) دے گا جو کسی روزہ دار کو دودھ کی لسی سے روزہ کھلوا دے یا ایک کھجور کھلا دے یا ایک گھونٹ پانی پلا دے۔ (البیہقی، عن سلمان فارسیؓ)
روزے کی فرضیت کا حکم 2ھ میں نازل ہوا۔ ارشاد ہے: ''اے لوگو!جو ایمان لائے ہو،تم پر روزے فرض کر دیے گئے،جس طرح تم سے پہلے انبیاکے پیروؤں پر فرض کیے گئے تھے۔ توقع ہے کہ ان سے تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔ یہ چند مقررہ دنوں کے روزے ہیں۔اگرتم میں سے کوئی بیمارہویا سفرپر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرلے اور جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں (پھر نہ رکھیں)تو وہ فدیہ دے دیں۔ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے اور جو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے،تو یہ اُسی کے لیے بہترہے‘لیکن اگر تم سمجھو تو تمہارے حق میں اچھا یہی ہے کہ تم روزے رکھو‘‘۔ (البقرۃ:183،184)
3ھ میں آیت نمبر185 نازل ہوئی اور حکم دے دیا گیا کہ روزے میں چھوٹ محض معذور ودائمی مریض کے لیے ہے۔ تندرست وتوانا لوگوں کو روزہ ہی رکھنا ہوگا۔ ارشاد ہے: ''رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اس کو لاز م ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو، تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا۔ پس اللہ کی کبریائی کا اظہار واعتراف کرو اور شکر گزار بنو‘‘۔ (البقرۃ:185)
عربی زبان میں روزے کو صوم کہا جاتا ہے،جس کی جمع صیام ہے۔ مندرجہ بالا آیات کے مطابق روزے کی فرضیت کی اصل غایت اہلِ ایمان کے دلوں میں تقویٰ پیدا کرنا ہے۔بلاشبہ روزہ اس کا بہترین ذریعہ ہے۔آنحضورﷺکی حدیث کے مطابق ''تقویٰ کا منبع دل ہے‘‘اور روزے کی حالت میں واقعتاً دل کی کیفیت بدل جاتی ہے۔ شدید بھوک اور پیاس کے باوجود مکمل تنہائی میں بھی کوئی روزہ دار کسی مشروب کا ایک قطرہ یا کسی غذا کا ایک ذرہ بھی اپنے حلق سے نیچے نہیں جانے دیتا۔یہی تصور بندے اور رب کے درمیان وہ تعلق قائم کرتاہے ،جسے تقویٰ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
روزے کو حدیث میں ڈھال بھی قرار دیا گیا ہے۔ظاہر ہے کہ ڈھال دشمن کے مقابلے میں اپنے دفاع کے لیے استعمال ہوتی ہے۔نفسِ امارہ،فسق و فجور سے بھرا ہوا ماحول اور شیطان لعین ہر وقت انسان پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ان سب کا مقابلہ کرنے کے لیے ماہِ رمضان کے روزے مسلسل تربیت کا موثر کورس ہیں۔اس تربیت کے اثرات اگر باقی گیارہ مہینوںمیں نظر آئیں تو سمجھ لیجیے کہ روزہ اللہ کے ہاں مقبول ہو گیا ہے اور روزہ دار سرخرو ہے۔خدانخواستہ اگر ایسا نہ ہو تو روزہ محض بھوک پیاس بن کر رہ جاتا ہے۔ایسے روزے سے روزہ دار کو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
ماہِ رمضان نیکیوں کا موسم بہار ہے اور خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنا دامن خیروبرکت سے بھرلیں۔ ماہِ رمضان کی آمد کے باوجود جن لوگوں کو نیکی کی توفیق نہیں ملتی،ان کی بدنصیبی دیکھیے جبریل امین نے ان کے حق میں تباہی و بربادی کی دعا فرمائی اور رسول رحمت ﷺنے اس پر آمین کہا۔اس مہینے کے فضائل بے شمار ہیں۔حدیث میں فرمایا گیاکہ اس مہینے میں نفل عبادات کااجر فرض کے برابر اور فرض کا اجر ستر گنا بڑھا کر دیا جاتا ہے۔ رمضان صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت بتایا گیا ہے۔روزہ محض معدے کا نہیں ہوتا بلکہ پورے اعضا وجوارح ،آنکھ،کان، ناک، زبان،ہاتھ، پائوں، دل اور دماغ،فکروسوچ،غرض ہرچیز کو محیط ہوتا ہے۔آنحضورﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ جھوٹی باتیں اور غلط کام ترک نہیں کرتے اللہ کو ان کی بھوک پیاس کی کوئی حاجت نہیں۔
رمضان المبارک ہر سال آتا ہے اور ایک پیغام دے کر جاتا ہے۔ماہ رمضان کے دوران جہاد اور مجاہدین سے مکمل وابستگی،ایمان کا اعلیٰ درجہ ہے۔جس سال روزے فرض ہوئے، اس سال ماہ رمضان ہی میں کفرواسلام کا پہلا معرکہ بدر کے میدان میں برپا ہوا،جسے قرآن نے ''یوم الفرقان ‘‘کہا ہے۔ تاریخ اسلام جہاد اور شہادت سے مزّین ہے۔ پہلی شہادت تومکہ میں ایک صحابیہ سیّدہ سمیّہؓ کے حصے میں آئی۔ پھر اس فہرست میں ایک ہی روز یعنی یوم بدر(17رمضان 2ھ) کو چودہ عظیم المرتبت شہدا کا اضافہ ہوا۔ وہ دن اور آج کا دن اس فہرست میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ جہاد جاری ہے اورقیامت کے دن تک جاری رہے گا۔
جہاد کے خلاف آج داخلی وخارجی‘ ہر محاذ پر انتہائی گھناؤنی سازشوں کا جال بچھا دیا گیا ہے مگر ہمیں بطور مسلمان اللہ اور اس کے رسول کا یہ حکم ہے کہ ہم ان سازشوں کا مقابلہ کریں اور جہاد میں حصہ لیں۔ جو شخص خود عملاً جہاد میں شریک نہ ہوسکے وہ کسی مجاہد کو زادِجہاد فراہم کردے یا اس کے پیچھے اس کے اہلِ وعیال کی خبر گیری میں لگ جائے یا شہدا کے خاندانوں کا کفیل بن جائے تو وہ بھی عملاً جہاد میں شریک شمار ہوتا ہے۔ ایسے شخص کا اجر حدیث پاک میں مجاہدین کے برابر قرار دیا گیا ہے۔پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے دفاع میں جانیں قربان کرنے والے امت کے محسن ہیں۔ کشمیر وفلسطین کے مجاہدوں کی حمایت ہر صاحبِ ایمان پر فرض ہے۔
شہدا اور ان کے پسماندگان کااسلام میں بڑا مقام ہے۔شہید پوری امت کا محسن ہوتا ہے۔ حضور پاک کا اسوۂ حسنہ یہ تھا کہ شہدا کے خاندانوں سے خصوصی محبت وتعلق قائم رکھتے تھے۔ ماہِ رمضان میں ہر نیک کام اور انفاق فی سبیل اللہ کا اجر کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ اس مہینے میں نیکی اور انفاق میں سبقت کرنی چاہیے۔ مقدار جتنی بھی ہو، اخلاص کے ساتھ پیش کی جائے تو اللہ کے ہاں بڑے درجات حاصل ہوتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اس رمضان میں اور آئندہ ہمیشہ کے لیے حسب استطاعت زیادہ سے زیادہ انفاق فی سبیل اللہ کو اپنا وطیرہ بنالیں۔
ماہِ رمضان کا چاند دیکھنے کا اہتمام ضروری ہے۔چاند نظر آئے تو رات کو قیام یعنی تراویح اور اگلے روز صیام یعنی روزے شروع ہوجاتے ہیں۔ہرماہ نیا چاند نظر آنے پر جو دعا ہمیں سکھائی گئی ہے،جامع ترمذی کے مطابق اس کے الفاظ یوں ہیں ''اَللّٰہُ اَکْبَرْ اللّٰھُمَّ اَھِلَّہ‘ عَلَیْنَا بِالْاَمْنِ وَاْلِایْمَانِ وَالسَّلَامَۃِ وَالْاِسْلَامِ وَالتَّوْفِیْقِ لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضیٰ۔رَبُّنَاورَبُّکَ اللَّہ۔اللہ سب سے بڑا ہے،اے اللہ اس چاند کو ہمارے لیے ہلالِ امن و ایمان،سلامتی اور اسلام بناکر طلوع فرما، ہمیں ان کاموں کی توفیق دے جو تجھے پسند اور محبوب ہیں۔اے چاند،ہمارا اور تیرا پروردگار اللہ ہے‘‘۔