تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     23-03-2022

آرٹیکل 63 اے

سوال سادہ سا ہے کہ قانون کیا ہے؟ پاکستان میں قانون سے متعلق یہی بنیادی سوال آج ہمیں درپیش ہے اور اس کا نیا موضوع ہے: دستور کا آرٹیکل 63 اے۔ ہمارے دستور کے مطابق اس آرٹیکل کا عنوان ہے 'انحراف کی بنیاد پر نااہلی‘۔ اس کا متن یہ بتاتا ہے کہ اگر کوئی رکن قومی یا صوبائی اسمبلی یا سینیٹر بجٹ، آئینی ترمیم یا وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے موقع پر پارٹی کی ہدایت سے ہٹ کر ووٹ دیتا ہے تو اسے قانون ساز ادارے میں اپنی نشست چھوڑنا ہو گی۔ اس میں یہ واضح نہیں کہ ایسا شخص جو پارٹی کی ہدایت پر عمل نہیں کرتا تو کیا وہ آئندہ الیکشن کے لیے نااہل ہو جائے گا؟ اگر نااہلی ہو تو کیا صرف ایک الیکشن تک ہو گی یا ہمیشہ کے لیے ہو گی؟ اور پھر یہ کہ پارٹی کی ہدایات کے برعکس ڈالا گیا ووٹ قبول ہوگا یا نہیں؟ یہ سارے سوال اس ابہام کی بنیاد پر اٹھے ہیں کہ عنوان میں تو 'نااہلی‘ کا لفظ لکھا ہوا ہے لیکن اس آرٹیکل کے متن میں نااہلی کی کوئی بات نہیں کی گئی۔
اس ابہام کا ایک جواب سیاسی ہے جو عنوان کو مکمل طور پر نظرانداز کرکے اس وقت مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی‘ دونوں دے رہی ہیں۔ ان کے خیال میں آرٹیکل 63 اے کا مطلب ہے کہ قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی اپنی ہی جماعت کے خلاف ووٹ ڈالیں تو کچھ نہیں ہو گا۔ زیادہ سے زیادہ ان کی نشست خالی قرار دے دی جائے گی اور بس۔ اس تاویل کی سب سے بڑی سیاسی کمزوری یہ ہے کہ دستور میں چودھویں آئینی ترمیم کے ذریعے اس شق کو شامل کرنے والے خود جناب نواز شریف تھے۔ لہٰذا جب ان کی متعلقین اور ان کی جماعت آج فصاحت و بلاغت کے ساتھ اسمبلی میں اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ ڈالنے کے عمل کو حلال قرار دے رہے تو دراصل اپنے ہی قائد کو غلط ثابت کر رہے ہیں۔ یہ تضاد اتنا نمایاں ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا بڑے سے بڑا لیڈر بھی اپنے موقف پر کسی کو قائل نہیں کر سکا۔ اس کے علاوہ چودھویں آئینی ترمیم کرکے جناب نواز شریف نے جس عمل کو حرام قطعی قرار دیا تھا، اٹھارہویں ترمیم میں پیپلزپارٹی نے بھی اس کو ایسے ہی رکھا تھا۔ اس طرح پیپلزپارٹی بھی اس تضاد میں گرفتار ہے جس میں مسلم لیگ (ن) نے خود کو پھنسا لیا ہے۔ اس کا سیدھا سا یہ مطلب ہے کہ یہ دونوں جماعتیں تحریک انصاف کے اراکین کی فلور کراسنگ کو وقتی طور پر اس لیے حلال سمجھ رہی ہیں کہ اس کا فائدہ انہیں پہنچتا ہے۔
سیاست سے قطع نظر قانونی طور پر دستور کی اس شق کی سمجھنے کے لیے ہمارے پاس دو پیمانے ہیں۔ پہلا یہ کہ تاریخی طور پر دستور میں اراکین اسمبلی پر یہ پابندی لگائے جانے کی وجہ کیا تھی اور دوسرا یہ کہ عنوان متن کے ساتھ ہم آہنگ سمجھا جائے گا یا نہیں۔
تاریخی طور پر دستور میں اس شق کو اس لیے شامل کیا گیا تھا کہ انیس سو نوے کی دہائی میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے اراکین کی خریدوفروخت اس قدر وسیع پیمانے پرکیا کرتی تھیں کہ کسی حکومت کا قیام ہی عملی طورپر ناممکن ہو چلا تھا۔ انیس سو ستانوے میں نواز شریف نے اپنی دو تہائی اکثریت کے بل پردستور میں ترمیم کا جو مسودہ قومی اسمبلی میں پیش کیا اس میں ترمیم کی وجہ یہی لکھی گئی کہ اراکین اسمبلی کی اس طرح کی حرکتوں سے عدم استحکام پیدا ہو رہا ہے اور اس ترمیم کے بعد ایک مؤثر حکومت کا قیام ممکن ہوگا۔ اس ترمیم کے ذریعے دستور میں یہ لکھ دیا گیا کہ کوئی بھی شخص پارلیمنٹ میں پارٹی بدلنا تو دور کی بات پارلیمنٹ سے باہر بھی اگر ڈسپلن کی خلاف ورزی کرے تو اسے سزا دینے کا فیصلہ پارٹی کا سربراہ کرے گا اور یہی فیصلہ حتمی ہو گا‘ کوئی عدالت اسے بدل نہیں سکے گی‘ یعنی سپیکر اسمبلی اور الیکشن کمیشن محض ڈاک خانے کا کام کریں گے۔
چودھویں آئینی ترمیم کے ذریعے جب دستور میں آرٹیکل 63 اے شامل کیا گیا تو اس وقت بھی اس کا عنوان 'انحراف کی بنیاد پر نااہلی‘ تھا لیکن متن میں نااہلی کا لفظ استعمال نہیں ہوا تھا۔ عنوان کو مؤثر بنانے کے لیے یہ کیا گیا کہ کسی رکن کے انحراف یا پارٹی سے بغاوت کی یہ نوبت ہی نہیں آ سکتی تھی وہ وزیراعلیٰ یا وزیراعظم کے انتخاب جیسے نازک موقع پرکچھ کرسکے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس ترمیم کے ذریعے اختلاف رائے کو بھی بغاوت قرار دے کر کارروائی کی جا سکتی تھی۔ دوہزار نو اور دس میں جب دستور میں اٹھارہویں ترمیم کی جارہی تھی تو بھی اس آرٹیکل کا عنوان قائم رکھا گیا یعنی مقصد اب بھی وہی تھا کہ اراکین اسمبلی اہم معاملات میں کسی بھی صورت پارٹی پالیسی سے باہر نہ جانے پائیں اور نااہلی کا خوف انہیں جکڑے رکھے۔ اگر اس آرٹیکل کا عنوان نظرانداز کرکے یہ مان لیا جائے کہ ایک رکن اسمبلی وزیراعظم کے انتخاب یا عدم اعتماد کے موقع پر پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دے اور پھر سے انتخاب لڑکراسمبلی میں آجائے تو یہ آئین اور اس کے مقاصد کا مذاق اڑانے کے مترادف ہوگا۔ ایک بار پھر وہی سلسلہ شروع ہوجائے گا کہ ہر کچھ عرصے کے بعد چند لوگ اٹھیں گے، حزب اختلاف سے ہاتھ ملائیں گے اور حکومت کو گھر بھیج کو دوبارہ الیکشن لڑ کر اسمبلی میں آجائیں گے۔ حکومتیں ایک مذاق بن جائیں گی۔ ہم اسی عذاب میں گرفتار ہوجائیں گے جس میں جو انیس سو نوے کی دہائی میں ہم پر نازل ہوا تھا۔
قانون کے حوالے سے یہ اصول بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہ جب بھی اور جہاں بھی ایک جرم کی سزا تجویز کرتا ہے، وہاں جرم ہونے سے پہلے اس سے بچاؤ کا میکنزم خود بخود وجود میں آجاتا ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ قتل ایک جرم ہے تو قانون صرف اسی وقت حرکت میں نہیں آئے گا جب قتل ہو جائے بلکہ قتل کے امکانات پر بھی قانون حرکت میں آجاتا ہے اور ممکنہ قاتل کو دھر لیتا ہے۔ اس اصول کی بنیاد پر آرٹیکل 63 اے اس وقت حرکت میں آجائے گا جب کسی رکن اسمبلی کے بارے میں یہ واضح خدشات ہوں کہ وہ عدم اعتماد کے نازک موقع پر پارٹی کے خلاف جا رہا ہے۔ اس خدشے کے ازالے کی سادہ سی صورت یہ ہے کہ پارٹی اسمبلی سے غیر حاضر ہونے کا فیصلہ کرلے۔ اب کوئی منع کرنے کے باوجود اسمبلی جاتا ہے تو دراصل وہ پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوچکا ہو گا۔ ایسا شخص جو آئین کی صریح خلاف ورزی کا ارادہ باندھ کر چل پڑا ہوتو پھریہ منطقی نتیجہ ہے کہ اسے آئین کی خلاف ورزی سے روکا جائے اور وہ اپنا ووٹ نہ دے سکے۔ دستور کی خلاف ورزی کے ٹھوس امکان پر قومی اسمبلی کا سپیکر پولیس کی طرح حرکت میں آکر اسے ووٹ دینے سے روک دے گا۔ وہ یہ انتظار نہیں کرے گا کہ کوئی رکن پہلے اپنے ووٹ کی چھری سے حکومت کا کام تمام کرے، تبھی قانون حرکت میں آئے۔
مفکرین کی ایک بڑی تعداد کے نزدیک قانون درحقیقت اخلاق کے کم ترین اصولوں کا ریاستی قوت کے ذریعے نفاذ ہے۔ اس لیے آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح میں بھی ہمیں یہ پیمانہ ذہن میں رکھنا ہوگا۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ایک شخص جوایک پارٹی کے منشور پر جیتے اور اسمبلی میں پہنچ کر اپنے ذاتی مفاد میں کسی دوسری پارٹی اور منشور کی حمایت کردے تواس کا یہ عمل معاشرے میں سچ کو فروغ دے گا یا منافقت کو؟ یقین مانیے ہمیں آرٹیکل تریسٹھ اے کے حوالے سے بھی اسی ایک سوال کا جواب دینا ہے، قانونی بحثتیں تو صدیوں سے چلتی آئی ہیں، صدیوں تک چلتی رہیں گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved