جب سورج لپیٹ لیا جائے گا‘ اورجب تارے بے نور ہو جائیں گے‘ اورجب پہاڑ چلائے جائیں گے‘ اور جب بیانے والی اونٹنیاں یونہی چھوڑی دی جائیں گے‘ اور جب وحشی جانور اکٹھے کئے جائیں گے‘ اور جب سمندر آگ ہو جائیں گی ‘اور جب روحیں جسموں سے ملا دی جائیں گی‘ اور جب اس بچی سے جو زندہ دفنا دی گئی ہوپوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ کے سبب قتل کر دی گئی ‘اورجب اعمال کے دفتر کھولے جائیںگے‘اور جب آسمان کی کھال کھینچ لی جائے گی ‘اور جب دوزخ کی آگ بھڑکائی جائے گی‘ اور جب بہشت قریب لائی جائے گی‘ تب ہر شخص معلوم کر لے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے( سورۃ التکویر1تا14)
ایدھی فائونڈیشن کے فیصل ایدھی کہتے ہیں کہ ان کے پاس لائی گئی لاوارث بچیوں کو جن کے سنگدل باپ اور بے رحم گھر والے بیٹی پیدا ہونے کے دکھ میں انہیں جھولے میں پھینک کر چلے جاتے ہیں ‘ان میں سے کئی بچیاں مر دہ ہوتی ہیں‘جن کی گردن پر انگلیوں کے نشانات بتا رہے ہوتے ہی کہ ظالم اور شقی القلب نے اس کا گلا دبا کرقتل کیا ہے۔غضب خدا کایہ کیسے لوگ ہیں جوخود کو مسلمان کہتے ہیں لیکن نبی پاک محمد مصطفیﷺ ‘ جنہوں نے اپنی امت کو بیٹیوں کی قدر اور عزت کا حکم دیا ہے‘ کی حیاتِ طیبہ پر ایک قدم چلنا بھی انہیں نصیب نہیں۔
جس قدر بیٹیاں اپنے باپ اور بھائیوں کی غم گسار اور ہمدرد ہوتی ہیں کوئی اور نہیں ہوتا ۔ میں نے سینکڑوں نہیں ہزاروںخاندان دیکھے ہیں جنہیں ان کے بیٹے چھوڑ گئے یا ان پر توجہ کم کر دی لیکن ان کی بیٹیاں ہی ہیں جو اپنے والدین کا ہر دم خیال رکھتی ہیںاور ان میں سے کئی لوگوں کو یہ کہتے بھی سنا ہے کہ ان بیٹیوں کی پیدائش پر جس قدر رنجیدہ اور افسردہ ہوئے اس کا احساس کرتے ہوئے آج وہ خود سے شرم محسوس کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوںدائود خیل ضلع میانوالی میں ایک ایف اے پاس نوجوان‘ جس نے ڈسپنسر کا کورس بھی کر رکھا تھا‘ کی شادی کے دوسرے سال جب اس کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی تو یوں لگا کہ اسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ بچی کو پیار کرنا تو کجا وہ اسے دیکھنے کا بھی روا دار نہ ہوا ۔ہر وقت گھر میں غصے اور نفرت سے پھنکارتا رہتا۔ساتویں روز جب اس کے چچا اور دوسرے رشتہ دار اسے پہلی اولاد کی مبارکباد دینے اس کے گھر آئے تو اس نے سمجھا کہ یہ سب اس کا مذاق اڑارہے ہیں اور اسے بیٹی پیدا ہونے کے طعنے دے رہے ہیں۔ان رشتہ داروں کو دیکھتے ہی اسے آگ لگ گئی ‘اس نے سب کے سامنے سات دن کی بچی کوماں کی گود سے اٹھا کر زور سے زمین پر پٹخا اور جیب سے پستول نکال کر معصوم جان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ اسی شہر میں‘اسی خطے میں ایک برس پہلے مئی کے مہینے میںاسی طرح کے جاہلیت میں ڈوبے ہوئے ایک شقی القلب باپ کے گھر جب تیسری بیٹی نے جنم لیا تو وہ بھی نفرت اور غصے سے پھنکارنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے تینوں بیٹیوں کو فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ نومبر2021ء میں نارووال میں ایک شخص نے اپنی بیوی کو اسی جرم میں قتل کر دیا کہ وہ تیسری بیٹی کو کیوں جنم دینے والی ہے۔ یہ شخص اپنی بیٹیوں کے علاوہ ایک بیٹے کا باپ بھی تھا لیکن اس کی جاہلیت نے بیٹیوں کا وجود برداشت کرنے سے انکار کر دیا۔گزشتہ برس فروری میں ایک خاتون کو اس کے شوہر نے دوسری بیٹی پیدا ہوتے ہی یہ کہتے ہوئے قتل کر دیا کہ اس سے بیٹا پیدا ہونے کی امید ہی نہیں۔جون 2020ء میں دادو میں ایک شخص کو جیسے ہی خبرملی کی اس کی بیوی نے اس بار بھی بیٹی کو جنم دیا ہے تو وہ غصے سے پاگل ہو گیا اور ماں بیٹیوں کو لوہے کے سریوں کی بارش کرتے ہوئے وحشیانہ طریقے سے قتل کر دیا۔ قصور میں جب ایک گھرانے کی بہو نے اﷲ کے حکم اور مرضی سے چوتھی بیٹی پیدا کی تو سسرالیوں کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور انہوں نے ماں کو بیٹیاں پیدا کرنے کے جرم میں پھانسی پر لٹکا دیا ۔
دائود خیل میانوالی میں اپنی سات روز کی بچی کو قتل کرنے والے درندے کو پولیس نے بھکر سے گرفتار تو کر لیا ہے اور آئی جی پنجاب رائو سردار علی خان نے ڈسٹرکٹ پولیس افسر کو حکم بھی دیا ہے کہ اس مقدمے کی تفتیش اپنی نگرانی میں کرتے ہوئے مجرم کو سخت سے سخت سزا دلانے میں قانون کی بھر پور معاونت کریں۔لیکن حالیہ برسوں میں پنجاب بھر کے اضلاع میں بیٹی پیدا ہونے کے جرم میں قتل کی جانے والی بچیوں کی ایک طویل افسوسناک فہرست موجود ہے جبکہ آئی جی صاحب کے حکم کی اگر بات کریں تو میانوالی کی اس بچی کا معاملہ تو میڈیا پر اٹھنے کی وجہ سے آئی جی صاحب اس مقدمے کو انجام تک پہنچانے کے احکامات صادر کر رہے ہیں‘ لیکن اسی جرم سے متعلق دوسرے مقدمات جو گزشتہ ایک ‘دو برس کے دوران سامنے آ چکے ہیں ان کی پراگرس بھی پوچھنے کی زحمت کریں۔
بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی کہیں زندہ دفن کر دینا‘ کہیں کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دینا اور کبھی گلا گھونٹ کر یا فائرنگ سے قتل کر دینے کا جرم ہے کہ پھیلتا ہی جا رہا ہے۔ ملک بھر میںروزانہ اس قسم کے نجانے کتنے واقعات پیش آتے ہیں۔ کچھ رپورٹ ہوجاتے ہیں باقی پر پردہ پڑ جاتا ہے‘ لیکن یہ اس معاشرے اور ہمارے تعلیمی نظام کی نا اہلی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
بیٹیوں کو رحمت پکارنے والے معاشرے میںبیٹیوں سے دوسرے درجے کا سلوک کیوں ہو رہا ہے؟ کہیں ا س کی وجہ ہمارا نسل در نسل چلنے والا ثقافتی اور معاشرتی رویہ تو نہیں ؟اس کی وجہ معاشی تنگ دستی کے دور میں جہیز اور ایسی ہی دیگر فرسودہ رسمیں اور قباحتیں تو نہیں؟کیا اس سوچ میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے ؟کیا جہیز اور شادی کے موقع پر مہنگے کھانوں اور سسرالیوں کے لاؤ لشکر کو قیمتی لباس اور تحائف دینے کو ایک سنگین جرم کے طو رپر سمجھا جا سکتا ہے؟
سوچ کی اس تبدیلی کا سفر مشکل ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں۔ حکومت نے بیٹیوں کو وراثت میں حصہ دینے کے لیے جس ضروری قانون کی منظوری دی ہے کیا وہ اپنی پوری طاقت سے نافذ کیا جا ئے گا؟کس قدر ستم ہے کہ پہلی اولاد کی پیدائش پر اٹھنے والے تمام اخراجات بیٹی کے والدین کو برداشت کرنا پڑتے ہیں اور پھر بیٹے یا بیٹی کی پیدائش کے ایک ماہ بعد سسرالیوں کے رشتہ داروں کو کپڑے اور دوسری قیمتی اشیا لے کر دینے کے مطالبات۔ اس سماج‘ اس حکومت ‘ ہمارے مذہبی لیڈروںاور دینی پیشوائوں کی توجہ کے لیے یہ واقعات ایک چیلنج ہیں۔ہماری رائے میں یہ واقعات دین سے دوری اور علما کی عدم توجہی کا نتیجہ ہے‘ جس نے بیٹی کی پیدائش کو دکھ تکلیف اور شرمساری کی چادر پہنا دی ہے ۔
بیٹی وہ نعمتِ خدا وندی ہے کہ جب حضرت فاطمہؓ تشر یف لاتیں تو رسولِ خداﷺ ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہو جاتے کہ ان کی بیٹی آئی ہے۔نبی آخر الزماں محمد مصطفیﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ جو شخص اپنی بیٹی کی اچھی تربیت کرے‘ اچھا علم دے اور اﷲکی دی ہوئی نعمتیں اسے خوشی اور پیار سے مہیا کرے‘ قیامت کے دن وہ بیٹی اپنے باپ اور جہنم کے درمیان حائل ہو گی( میزان الحکمہ)۔جامع ترمذی کی ایک روایت میں اسی طرح کا واقعہ موجود ہے کہ اُم المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس ایک عورت آئی اور اس کے ساتھ اس کی دوبچیاں تھیں‘ اس نے (کھانے کے لیے ) کوئی چیز مانگی‘ مگرمیرے پاس سے ایک کھجورکے سوااسے کچھ نہیں ملا؛ چنانچہ اسے میں نے وہی دے دیا‘ اس عورت نے کھجورکو خود نہ کھا کر اسے اپنی دونوں لڑکیوں کے درمیان بانٹ دیا اور اٹھ کر چلی گئی‘ پھرنبی اکرمﷺ تشریف لائے‘ میں نے آپﷺ سے یہ (واقعہ) بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا: جو ان لڑکیوں کی پرورش سے دوچارہواس کے لیے یہ سب جہنم سے پردہ ہوں گی۔ سنن ترمذی ‘ کتاب: نیکی اور صلہ رحمی ‘ باب : لڑکیوں اور بہنوں کی پرورش کی فضیلت کا بیان‘ حدیث نمبر: 1915۔