ہر ملک کی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے بنیادی مقاصد ایک ہی ہوتے ہیں۔ ہر ریاست اپنی غالب اشرافیہ کے بیان کردہ اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرنا چاہتی ہے‘ علاقائی سالمیت کے تحفظ کی خواہاں ہوتی ہے، اور داخلی و خارجہ پالیسی کے انتخاب کیلئے اپنی خودمختاری کو محفوظ رکھنا چاہتی ہے۔ ریاستیں تجارت اور سرمایہ کاری سمیت باہمی طور پر فائدہ مند اقتصادی تعامل چاہتی ہیں اور سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بھی کرتی ہیں۔ تعاون کا ایک اور شعبہ انسانیت کو درپیش قدرتی اور انسانی ساختہ خطرات کا احاطہ کرتا ہے جو ریاستوں کی علاقائی حدود سے متجاوز ہوتے ہیں۔ اختلافات اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب ان اہداف کو حاصل کرنے کیلئے مخصوص پالیسیاں اپنائی جاتی ہیں اور انسانی بہبود اور انسانی سلامتی کو لاحق خطرات سے نمٹنے کیلئے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ پالیسی سازی کیلئے ریاست کو جس پہلے عامل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ عالمی اور علاقائی سیاسیات کی حرکیات اور اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں اس کے تیزی سے بدلتے ہوئے کردار کے بارے میں بے لاگ اور حقیقت پسندانہ سمجھ بوجھ ہے۔ دوسرے عوامل میں کسی ملک کی لیڈرشپ کا معیار‘ اندرونی و بیرونی چیلنجز کو سمجھنے کی صلاحیت، کسی تنازع میں پڑے بغیر قومی مفادات کا حصول یقینی بنانا اور ریاست کی قوتوں اور کمزوریوں کا حقیقت پسندانہ جائزہ شامل ہے۔ اہم عنصر ضرورت کے وقت وسائل کی حقیقی دستیابی ہے۔ داخلی اقتصادی اور سیاسی حالات ریاست کی اپنے قومی مفادات کے تحفظ اور خود کو دوسری ریاستوں کی توسیع پسندانہ خواہشات سے بچانے کی صلاحیت کو متاثر کرنے کے اہم عوامل ہیں‘ چاہے ریاستی معیشت بنیادی طور پر اندرونی ذرائع پر مبنی ہو، یا یہ حمایت کے بیرونی ذرائع پر حد سے زیادہ انحصار کرتی ہو۔ اسی طرح ہم آہنگی اور تنازعات کی داخلی سماجی و سیاسی صورتحال‘ دونوں بین الاقوامی سطح پر ریاست کے خود مختاری سے کام کرنے کی صلاحیت پر مضمرات رکھتی ہیں۔ اگر سیاسی اشرافیہ اقتدار کیلئے وحشیانہ جدوجہد میں مصروف رہے اور اندرونی تقسیم شدید اختلاف کو جنم دے تو ریاست بیرونی دباؤ کے سامنے کمزور پڑ جائے گی۔ داخلی تناظر میں متعصبانہ اور منقسم مفادات اپنے داخلی ایجنڈوں کو آگے بڑھانے کیلئے بیرونی حمایت حاصل کرتے ہیں۔ یہ سب ریاست کو کمزور کرتے ہیں۔
ایشیا اور افریقہ کے زیادہ تر ترقی پذیر ممالک اپنے قومی مفادات کے حصول میں معذور ہیں اور وہ بیرونی مداخلت یا بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے دباؤ سے خود کو بچانا مشکل محسوس کرتے ہیں۔ ان مسائل کی بڑی وجوہات کا پتہ ان کی لیڈرشپ کے معیار، ریاست کی اندرونی کارکردگی اور دیگر عوامل سے لگایا جا سکتا ہے، جن پر درج بالا سطور میں بات کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف ریاستوں کی صلاحیتیں اپنے داخلی اور خارجی امور کو چلانے میں مختلف ہوتی ہیں‘ حتیٰ کہ، ایک ریاست کے معاملے میں بھی، اس کی صلاحیت وقت کے ساتھ مختلف ہو سکتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی صلاحیت میں اضافہ یا کمی ہو سکتی ہے کیونکہ اندرونی اور بیرونی حالات اور چیلنجز بدلتے رہتے ہیں۔ موجودہ بین الاقوامی نظام پہلے سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ امریکہ نے دسمبر 1991 میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد واحد سپر پاور کا درجہ حاصل کرلیا تھا۔ اب یہ پوزیشن عالمی نظام میں طاقت کے مختلف مراکز کے ابھرنے سے کم ہو چکی ہے۔ امریکہ بدستور مضبوط ترین فوجی طاقت اور اعلیٰ ٹیکنالوجی کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے؛ تاہم عالمی طاقت اور سفارتکاری کے مختلف محوروں، مثال کے طور پر یورپ، چین، روس اور جاپان‘ کے ابھرنے کی وجہ سے بین الاقوامی نظام کو اپنی ترجیحات کے مطابق ڈھالنے کی امریکی صلاحیت پہلے جیسی نہیں رہ گئی۔ کچھ علاقائی بااثر ریاستوں نے اہمیت حاصل کر لی ہے۔ امریکہ یا دیگر بڑی طاقتوں کی کامیابی کا انحصار طاقت کے مختلف مراکز اور متعلقہ علاقائی بااثر افراد کی حمایت حاصل کرنے پر ہے۔ اس کیلئے مضبوط سفارتکاری اور مسلسل اقتصادی روابط کیساتھ باقاعدہ مشاورتی عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک یا دو بڑی طاقتیں اکیلے عالمی نظام پر حاوی نہیں ہو سکتیں۔ انہیں کسی بھی اہم عالمی منصوبے کو آگے بڑھانے کیلئے دوسروں کا تعاون حاصل کرنا پڑتا ہے۔
بڑی طاقت براہ راست تصادم سے گریز کرے گی‘ لیکن اپنی حریف بڑی طاقت سے پراکسی جنگوں میں مشغول ہوگی۔ دوسرا طریقہ حکمت عملی کے لحاظ سے اہمیت کی حامل ریاستوں کی اپنے بڑے حریف کے خلاف بطور پراکسی استعمال ہونے کے سلسلے میں ناز برداریاں کرنا ہے۔ یہ مقصد حکمت عملی کے لحاظ سے اہمیت کی حامل ریاست کی قیادت کو عظیم رہنما کے طور پر پیش کرتے ہوئے پورا کیا جاتا ہے۔ یوکرین اس کی تازہ ترین مثال ہے جس کی موجودہ قیادت کی امریکہ اور نیٹو نے ایک ایسے مقبول رہنما اور آزاد دنیا کی علامت کے طور پر نازبرداریاں کیں جس کو نیٹو اور امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے اسے روس کے سامنے ایک سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے کھڑا کردیا‘ جو یوکرین کیلئے بہت بڑا تھا۔ یہ امریکہ و نیٹو کا ایجنڈا تھا۔ روس نے ردعمل میں کارروائی کی تو امریکہ اور نیٹو یوکرین کو بچانے کیلئے جنگ کا حصہ بننے کو تیار نہ ہوئے‘ اگرچہ انھوں نے یوکرین کو کچھ ہتھیار فراہم کیے تھے‘ وہ یوکرین کو سفارتی حمایت بھی دے رہے ہیں؛ تاہم، اکیلا یوکرین ایک بڑی فوجی اور اقتصادی طاقت سے لڑرہا ہے۔
یوکرین روس جنگ میں ترقی پذیر ممالک بالخصوص پاکستان کیلئے سبق ؟
یہ کہ کسی ایسی بڑی طاقت کے سکیورٹی نظام میں شامل نہ ہوں جس کا مقصد اس بڑی طاقت کے عالمی ایجنڈے کو پورا کرنا ہو؛ تاہم کسی بڑی طاقت کے ساتھ غیرضروری محاذ آرائی کی بھی ضرورت نہیں۔ تمام بڑی طاقتوں کے ساتھ ایشوز پر مبنی اور باہمی مفید تعلقات کو برقرار رکھیں۔ کوئی ریاست کسی ایک یا دوسری بڑی طاقت کی طرف جھکائو رکھ سکتی ہے‘ لیکن ایک بڑی طاقت کے مفادات کے ساتھ مکمل شناخت بنانا مناسب نہیں۔
پاکستان جیسی ریاستوں کو عالمی سیاست کی اقتصادی جہت کو سب سے زیادہ ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ دوسری ریاستوں کیساتھ ایک فعال اقتصادی تعامل پیدا کیا جانا چاہیے۔ ریاست کو اپنے اندرونی معاملات کو اس انداز سے چلانا چاہیے کہ وہ دوسرے ممالک کیلئے سرمایہ کاری اور تجارت کے حوالے سے ایک پُرکشش جگہ بن جائے۔ دوسرا، بیرونی قرضوں اور گرانٹس پر انحصار کم کرنے کیلئے ملکی معیشت کو مضبوط کرنا بے حد ضروری ہے۔ معیشت کی اصل طاقت ریاست کے اندر سے آنی چاہیے۔ خوراک کی قلت والا ملک بننے سے گریز کرنا چاہئے۔ موجودہ دور میں کسی ملک کی طاقت کا ایک اور ذریعہ علم اور ٹیکنالوجی پر مبنی معاشرے کی تشکیل ہے۔ جدید علوم اور ٹیکنالوجی کے بغیر کوئی ملک بین الاقوامی سطح پر نمایاں کھلاڑی نہیں بن سکتا۔ ایک اور عنصر داخلی سماجی اور سیاسی ہم آہنگی ہے۔ اگر سیاسی اشرافیہ مستقل طور پر اقتدار کے حصول کی جدوجہد میں مصروف رہے اور حکومت انسانی اور سماجی بہبود کو نظر انداز کرے تو ایسی ریاست بیرونی سفارتی اور معاشی دباؤ کا شکار ہو جائے گی۔ داخلی اور خارجی پالیسیوں کے خود مختارانہ انتظام کے آپشنز ایسے ممالک کیلئے محدود ہوں گے۔
دوسری ریاستوں‘ خصوصاً پڑوسی ریاستوں کے ساتھ جنگ اور فوجی محاذ آرائی سے گریز کرنی چاہئے۔ اپنے قومی مفاد کا روشن خیالی والے انداز میں تعین کرنا چاہئے تاکہ اسے سفارتکاری، معاشی تحفظات اور غیرفوجی ذرائع سے حاصل کیا جا سکے؛ تاہم، آپ کی پرامن کوششوں کے پیچھے ایک قابل اعتماد اور خود مختار ملٹری سکیورٹی سسٹم ناگزیر ہے۔ یوکرین اور روس کی جنگ سے پتہ چلتا ہے کہ فوجی تصادم کی صورتحال میں، ریاست کی اپنی صلاحیت ایک قابل اعتماد تحفظ فراہم کرتی ہے۔