تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     24-03-2022

ہیرو سے ولن تک کا سفر!

زندگی ایک ایسی ٹائم لائن ہے جو دائرے میں سفر کرتی ہے۔ بعض اوقات کچھ واقعات پہلی بار رونما ہونے پر بھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایسا شاید ہماری زندگی میں پہلے بھی ہو چکا ہے۔ پاکستان کی سیاست بھی دائروں میں سفر کرتی اپنی کہانی دہراتی رہتی ہے۔ کبھی چہرے تو کبھی کردار، بدل جاتے ہیں لیکن کہانی وہی پرانی رہتی ہے۔ کچھ ادبی نقادوں کے مطابق انسانی زندگی کا محور جو کہانیاں ہیں ان کا پلاٹ اور بنیادی خیال ہمیشہ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ وقت، مقام اور کردار بدل دئیے جائیں تو ہر کہانی ایک سی ہی لگتی ہے۔ پاکستان کی سیاست میں اقتدار اور اختیار کی کہانی کا مرکزی خیال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ایکشن، سسپنس اور ڈرامہ کے ساتھ ہر کہانی میں کوئی ایک ہیرو اور کوئی ولن بھی ضرور ہوتا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ کردار سے کردار بدل دیا جاتا ہے، ہیرو، ولن اور ولن، ہیرو بن جاتا ہے، لیکن کہانی پھر بھی وہی رہتی ہے۔
پاکستانی سیاسی منظرنامے پر پچھلے کچھ عرصے سے سسپنس سے بھرپور تحریک عدم اعتماد کی کہانی چل رہی ہے۔ اس سیاسی کہانی میں کچھ کردار پردے کے سامنے تھے تو کچھ پردے کے پیچھے اپنی باری پر منظر نامے پر آنے کا انتظار کرتے رہے۔ کچھ کردار، سایوں کی طرح ہوتے ہیں۔ ایسے میں غیر مرئی اور نادیدہ قوتیں جہاں اقتدار اور طاقت کے پیچھے بھاگنے والوں کو اپنے اشاروں پر نچاتی ہیں‘ وہیں عام سے کرداروں کی روزمرہ زندگیوں پر بھی گہرے اثرات ڈالتی ہیں۔ اس سیاسی تبدیلی کی کہانی میں سسپنس حد سے بڑھ گیا تو پبلک ڈیمانڈ پر ایکشن ڈالنا ضروری ہو گیا۔ بس پھر کیا تھا، کچھ کرداروں نے گنڈاسا تھاما اور آگ لگا دینے والی ڈائیلاگ ڈلیوری شروع کر دی۔ ایک دوسرے کو چیلنج کرتے سیاسی پہلوانوں نے 27 مارچ کو شہر اقتدار میں جلسہ ڈوئل کھیلنے کا اعلان کر دیا۔ اس دوران پردے کے پیچھے چھپے کچھ کردار منظر عام پر آئے تو جلتی پر تیل والا معاملہ ہو گیا۔ حکومتی کیمپ سے ضمیر فروشی کی صدا بلند ہوئی تو اپوزیشن کیمپ نے ضمیر جاگنے کا نعرہ لگا دیا۔ کہانی میں دلچسپی بنائے رکھنے کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ آخری معرکے سے پہلے چھوٹی موٹی لڑائی ہوتی رہے۔ اس ڈیمانڈ کو سندھ ہاؤس اسلام آباد پر ہلہ بول کر پورا کردیا گیا۔ ہرکہانی اپنے منطقی انجام تک پہنچنے سے پہلے بے شمار موڑ لیتی ہے۔ ساتھ چھوڑ جانے والوں یا ساتھ چھوڑنے کا ارادہ رکھنے والوں کیلئے کہانی کو ایک خوبصورت موڑ دینا بھی ضروری تھا‘ لہٰذا اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے وفاداری بدل کر مخالف کیمپ میں جانے والوں کے سر پر نااہلی کی تلوار لٹکا دی گئی۔ پھر زنجیر عدل بھی ہلائی گئی، جواب ملا‘ سیاسی جنگ پارلیمنٹ میں ہی لڑی جائے، کسی کو ووٹ سے نہیں روکا جا سکتا۔ رہی بات جلسہ ڈوئل کی تو اس کا مقام بھی بدل دیا گیا۔ جذبات نہ ہوں تو انسان ادھورا ہوتا ہے اور بغیر جذبات کے کوئی کہانی تو کسی طور قابل قبول نہیں ہوتی۔ اس معاملے کو حل کرنے کے لیے ہی ہر کہانی میں محبت اور رقابت بھی دکھائی جاتی ہے۔ کچھ ایسا ہی رنگ ہماری اس سیاسی کہانی میں بھی موجود ہے۔ کل تک آہیں اور سسکیاں بھرتا رقیب آج محبوب بن بیٹھا ہے۔ کل کا جو محبوب تھا اس کی قسمت کا ستارہ کچھ ایسا گڑبڑ ہوا کہ یوں لگتا ہے‘ عرش سے فرش پر آجائے گا۔ ایک طرف پیار محبت کے نئے عہد و پیمان ہو رہے ہیں تو دوسری طرف بس غم و غصہ ہے، التجائیں ہیں، درگزر کرنے اور نئے سرے سے پیار کی پینگیں بڑھانے کے وعدے ہیں۔ عاشق کو اس بات کا علم ہو بھی تو یقین کم ہی ہوتا ہے کہ محبوب اگر ایک بار آنکھیں پھیر لے تو قسمت والوں پر ہی دوبارہ مہربان ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے محبوب کو راضی کرنے کیلئے موڈ بھی دکھاتا ہے اور لاڈ بھی کرتا ہے، کبھی منت ترلے سے کام چلانے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی دھمکیوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ قسمت اچھی ہو اور محبوب مہربان تو معافی مل بھی سکتی ہے۔ سیاسی پنڈتوں کے خیال میں اس کہانی میں بظاہر ایسا نہیں لگتا کہ قسمت کی دیوی مہربان ہو جائے، کیونکہ محبوب اب رقابت پر اتر آیا ہے۔ وہ ہاتھ سے ہاتھ چھڑوا رہا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہی ہاتھ اب گریبان کی طرف بڑھا رہا ہے۔ دنیا میں وہی المیہ نگار عظیم ٹھہرے جن کا مرکزی کردار ایک کامل اور مثالی ہیرو رہا ہے۔ ایک ایسا ہیرو جس کی خوبی اور اچھائی کا عالم معترف ہو۔ لوگ جس کی تقلید کرنا باعث فخر سمجھتے ہوں۔ وہ عام انسانوں سا ہو کر بھی دیوتاؤں کو ٹکر دینے والا جری ہو۔ اس عظیم ہیرو کا کردار خامیوں سے بھی خالی نہیں ہوتا۔ کوئی ایک یا دو بڑی ایسی خامیاں اس کے کردار میں ہوتی ہیں جو اس کے زوال کا باعث بنتی ہیں۔ ایسے ہیرو کا عروج سے زوال ہی المیہ کو لازوال بناتا ہے۔ کچھ کہانیوں میں ہیرو خود کو دیوتاؤں کا ہم پلہ سمجھ بیٹھتا ہے۔ فانی انسان جذباتی ہوکر اپنے دیوتاؤں کو للکارتا ہے اور پھر ان کے غیظ و غضب کا شکار ہوتا ہے۔ کچھ کہانیوں میں ایسے عظیم ہیرو کو غرور اور تکبر لے ڈوبتا ہے۔ کبھی ہیرو کی شعلہ بیانی اس کی رسوائی کا سبب بنتی ہے۔ کبھی ماضی اور حال کے غلط فیصلے اس کو تباہ حال کر چھوڑتے ہیں۔ ہماری سیاسی کہانی کا مرکزی کردار اور ہیرو کون ہے؟ کون نہیں جانتا۔ وقت نے ان کو ہیرو بنے رہنے کے لئے بہت مہلت دی تھی اور شاید اب بھی ان کے پاس مہلت ہے کہ وہ ہیرو سے ٹریجک ہیرو بننے سے بچ سکتے ہوں لیکن اس کے امکانات ہر گھڑی معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔
گزرتے وقت کے ساتھ کپتان کی طرف سے ولن قرار دئیے جانے والے سیاسی مخالفین اب ان کے گرد گھیرا تنگ کر چکے ہیں۔ بُرے وقت میں سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے، سیاست میں حلیف حریف بن جائیں تو کوئی اچنبھا نہیں ہونا چاہیے۔ یونانی دیومالا کی پنڈورا جب کبھی اپنا بکسا کھولتی ہے تو دنیا جہان پر آفات ٹوٹ پڑتی ہیں۔ ملکی سیاسی منظر نامے کو دیکھیں تو یہاں ہر وقت پنڈورا باکس کھلا ہی رہتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہی ہوتا ہے کہ آفات نے رخ کس طرف کرنا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے براڈ شیٹ نام کا ایک پنڈورا باکس بھی کھلا تھا، سکرینوں پر خوب دھماچوکڑی مچائی گئی، پریس کانفرنس پر پریس کانفرنس ہوئی، اب معافی کے ساتھ اس کا ڈراپ سین ہوگیا ہے۔ کاوے موسوی کل تک جنہیں ہر دلعزیز تھے آج وہ اسے کرائے کا جاسوس قرار دے رہے ہیں، کل تک جنہیں چبھتے تھے آج وہ انہیں گلے سے لگانے کو بے قرار ہیں۔ جلیبی کی طرح سیدھی اس سیاسی کہانی میں سمجھ رکھنے والوں کے لیے ضرور نشانیاں ہیں۔ کہانی بننے والے کی عظمت اس میں چھپی ہوتی ہے کہ ہر کردار کو وقت پر استعمال کیا جاتا ہے، ہر کردار کا انجام بھی پہلے سے طے ہوتا ہے۔ کہانی میں نئے نئے آنے والے کرداروں کو یوں ہی لگتا ہے کہ ان کے بغیر کہانی ادھوری اور بے جان ہو گی۔ کچھ کردار اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات پر حیران ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ ایسا کیونکر ہوا؟ کچھ واقعات پہلی بار رونما ہونے پر انہیں لگتا ہے کہ ان کے ساتھ ایسا پہلے بھی ہوچکا ہے۔ ملکی سیاست کی کہانی ایسے ہی دائرے میں سفر کررہی ہے۔ ہیرو سے ولن اور ولن سے ہیرو بننے تک کا یہ سفر یونہی جاری رہے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved