پاکستان میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس کامیابی سے مکمل ہو گیا ہے لیکن عوام او آئی سی اجلاس سے زیادہ ملکی سیاست پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ملکی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا‘ عمران خان وزیراعظم کے عہدے پر برقرار رہیں گے یا نہیں؟عوام یہ بھی دیکھنا چاہتے ہیں کہ وزیراعظم صاحب کے پاس ایسی کون سی چال ہے جس سے وہ حکومت بچا لیںگے۔ وزیراعظم کے پاس جتنے قانونی آپشنز ہیں وہ تمام سٹیک ہولڈرز بخوبی جانتے ہیں۔ ایمرجنسی کا نفاذیا اگلے وزیراعظم کے انتخاب تک صدر کے حکم پر وزراتِ عظمیٰ کے امور چلانے سے زیادہ کوئی آپشن دکھائی نہیں دیتا‘ لیکن ان آپشنز کا استعمال بھی بے سود ثابت ہونے کا اندیشہ ہے کیونکہ عددی اکثریت ختم ہونے کی صورت میں نہ تو بجٹ پاس ہو سکتا ہے اور نہ ہی قانون سازی ہو سکتی ہے۔ وزیراعظم صاحب اپنی ٹیم کو نہ گھبرانے کا مشورہ دے رہے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت خودگھبرائی ہوئی ہے۔زیادہ مسکراہٹ بھی گھبراہٹ کی علامت ہوسکتی ہے۔ منحرف اراکین پر ضمیر فروشی کا الزام لگانے کے بعد انہیں واپس بلایا جا رہا ہے ورنہ ان کے بچوں کی شادیاں نہ ہونے کا خوف دلایا جا رہا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ شاید وزیراعظم ضرورت سے زیادہ معصوم ہیں یا پھر منحرف اراکین کو بچہ سمجھتے ہیں۔ خان صاحب کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ انسان کا تعلق جس شعبے سے ہو اسے اپنی طرح کے لوگ مل ہی جاتے ہیں۔ جس طرح پڑھے لکھے افرادکو تعلقات اور رشتہ داری کے لیے اپنے جیسے پڑھے لکھے لوگ مل جاتے ہیں ‘اسی طرح چوروں‘ ڈاکوؤں اور ضمیر فروشوں کو ان جیسے چور‘ ڈاکو اور ضمیر فروش۔
کند ہم جنس باہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر باز با باز
یعنی ہر جنس اپنے جیسی جنس کے ساتھ ہی خود کو پرسکون محسوس کرتی ہے۔وزیر اعظم صاحب کی جانب سے منحرف ارکان کے عوامی سطح پر بائیکاٹ ہونے اور سیاسی زندگی ختم ہونے کی دھمکی بے سود دکھائی دیتی ہے کیونکہ سیاستدان بخوبی جانتے ہیں کہ عوام کی یادداشت کمزور ہوتی ہے۔ ایک جذباتی تقریر‘ بریانی کی پلیٹ اور قیمے والا نان سیاسی صورتحال کو 180کے زاویے سے بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وزیراعظم صاحب ق لیگ‘ ایم کیو ایم اور شیخ رشید کو سرعام ڈاکو‘ چور اوردہشت گرد کے الفاظ سے یاد کیا کرتے تھے۔ بعد میں انہی کے ساتھ اتحاد کر لیا تو عوام نے خان صاحب کا کیا بگاڑ لیا؟ فواد چوہدری صاحب چار پارٹیاں بدلنے کے باوجود اس حکومت کے اہم ستون ہیں۔پارٹیاں بدلنے کے باوجوداگر عوام ان صاحبان کے ساتھ کھڑے ہیں تو وہ پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کے ساتھ بھی کھڑے ہو جائیں گے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیر اعظم صاحب منحرف اراکین کو اپنی کارکردگی کی بنیاد پر واپس آنے پر قائل کرتے۔ انہیں بتاتے کہ آپ نے ملکی معیشت کو کس طرح راہ راست پر لانے کے لیے دن رات محنت کی۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت خود بھی اس دعوے پر یقین رکھتی ہو۔ منحرفین کو اس بات کا احساس دلاتے کہ ملکی نظام کے لیے ضروری ہے کہ ہر وزیراعظم اپنا پانچ سالہ دور اور منصوبے مکمل کرے۔ لیکن حکومت شاید اس خوف میں مبتلا ہے کہ عوام ان سے یہ سوال نہ کر لیں کہ آپ نے نواز شریف کو پانچ سال کیوں مکمل نہیں کرنے دیے ؟ آپ کہتے تھے کہ ملکی آمدن چھ ہزار ارب روپے اور اخراجات اس سے پانچ گنا زیادہ ہیں‘ لیکن آپ شاید اس خوف میں مبتلا ہیں کہ عوام آپ کے سامنے یہ سوال نہ رکھ دیں کہ آپ نے تو سو دنوں میں ملکی اخراجات آمدن کی نسبت نصف کرنے کے وعدے کیے تھے۔ آپ نے سب سے چھوٹی کابینہ رکھنے کا یقین دلایا تھا‘ لیکن آپ کی کابینہ پاکستانی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ کیوں ہے۔ آپ نے گورنر ہاؤسز اور وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹیوں میں تبدیل کرنا تھا ‘لیکن اس کے برعکس آپ نے پنجاب میں ایک اسمبلی ہاؤس کے ہوتے ہوئے اربوں روپوں کی لاگت سے محل نما پنجاب اسمبلی بنوا دی۔ لُوٹا ہوا پیسہ سو دنوں میں وطن واپس لانے کا وعدہ کیا تھا لیکن 12 سو دن گزرنے کے بعد بھی آپ کچھ واپس نہیں لا سکے۔ بلکہ اثاثہ برآمدگی فرم براڈ شیٹ نے بدعنوانی کے الزامات لگانے پر مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف سے معافی بھی مانگ لی ہے۔ ان کے علاوہ ایسے سینکڑوں وعدے ہیں جو آپ نے عوام سے کیے تھے لیکن انہیں پورا نہیں کر سکے۔ شاید ان وعدوں کی تکمیل نہ ہونے کا بوجھ زیادہ ہے۔ اسی لیے آپ منحرف اراکین کو اپنی کارکردگی کی بنیاد پر قائل کرنے کے بجائے انہیں شادیاں نہ ہونے اور عوامی بائیکاٹ سے ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم کون ہوتے ہیں حکومت کو کوئی مشورہ دینے والے کیونکہ طرزِ حکمرانی کو دیکھتے ہوئے بزرگوں کی اس بات پر یقین ہو چلا ہے کہ جب کوئی یہ کہنے لگے کہ اسے سب کچھ پتہ ہے تو اسے مشورہ دینا چھوڑ دیں۔
حکومت اپنی کرسی بچانے میں مصروف ہے اور مہنگائی اور مافیاز طوفان کی شکل میں عوام پر حملہ آور ہیں۔افسوس یہ ہے کہ سرکار ان کے راستے میں بند باندھنے کو تیار نہیں۔ رمضان سے قبل اشیائے خورونوش کی قیمتوں میںاضافہ دیکھنے میںآرہا ہے۔ ڈالر کی قیمت 182 روپے سے تجاوز کر چکی ہے۔ آٹو موبائل کمپنیوں نے ایک دن میںگاڑیوں کی قیمتیںچار لاکھ روپے سے بارہ لاکھ روپے تک بڑھا دی ہیں۔ ملک کی بارہ تیل کی کمپنیاں پچھلے تین ماہ سے ضرورت سے کم ڈیزل درآمد کر رہی ہیں جس کے باعث ملک میں ڈیزل کا بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ پٹرولیم مصنوعات درآمد کرنے والی سرکاری کمپنی کے مطابق اس وقت ملک میں تقریبا ًدو لاکھ میٹرک ٹن کم ڈیزل درآمد کیا گیا ہے جس کے باعث گندم کی کٹائی متاثر ہونے کے خدشات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ملک میں مارچ سے جون تک گندم کی کٹائی کی جاتی ہے‘ حکومت نے انہی چار مہینوں میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آئل کمپنیز ایڈوائزری کمیٹی کے مطابق ان مہینوں میں ڈیزل کی کھپت اس کی درآمدات کی نسبت تقریباً 28فیصد زیادہ ہوتی ہے۔
عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ خاص طور پر ڈیزل کی قیمت اور طلب میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک خصوصی طور پر یورپی یونین زیادہ ریٹ پر ڈیزل خرید رہے ہیں۔ اس لیے پاکستان جیسے ممالک کے لیے ڈیزل کی فراہمی متاثر ہو رہی ہے۔پی ایس او کے مطابق ڈیزل کی کم درآمد کی وجہ سے ان کمپنیوں کے ساتھ ملک میں ڈیزل کےDay Cover یعنی کتنے دن کے لیے ڈیزل کافی ہو گا‘ اس میں پانچ دن کی کمی آئی ہے۔حماد اظہر صاحب نے کہا ہے کہ ملک میں ایک ماہ کا ڈیزل موجود ہے لیکن اوگرا اور پی ایس او نے وزراتِ توانائی کو ممکنہ بحران کے بارے تحریری طور پر آگاہ کر دیاہے۔ انہوں نے درخواست کی ہے کہ وہ بینکوں کو حکم دیں کہ آئل کمپنیوں کو زیادہ سے زیادہ رقم ادا کی جائے تا کہ وہ مہنگا تیل خریدنے کے قابل ہو سکیں۔ اطلاعات کے مطابق پی ایس او نے بھی بینکوں کی مدد کے بغیر ڈیزل کی خریداری سے انکار کر دیا ہے۔اس کے علاوہ تیل کمپنیاں حکومت پر اعتماد کرنے سے گریزاں ہیں۔ تیل کی قیمتوں پر سبسڈی کے بعد آئل کمپنیوں کو فنڈز کی کمی اور نقصان کا سامنا ہے۔ گو کہ حکومت نے سبسڈی کا اعلان کر رکھا ہے لیکن آئل کمپنیوں کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی اس طرح کے اعلانات ہوتے رہے ہیں لیکن ریلیف نہیں دیا گیا۔ جب تک حکومت سبسڈی کی رقم ادا نہیں کر تی وعدوں پر یقین کرنا مشکل ہے۔ سرکار نے 20 ارب روپے کی سبسڈی کا اعلان کیا ہے لیکن تیل کی عالمی قیمتوں کے مطابق 15 دنوں میں تیل کی خریداری میں نقصان 24 ارب روپے ہے۔حکومت کو اس ایشو پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا نہ ہو کہ سیاسی بحران کے ساتھ ملک میں تیل کا بحران بھی پیدا ہو جائے۔