سب باتیں ایک طرف رکھ کر یہ سوچیں کہ تین سال پہلے تک جو پارٹیاں اور لیڈرز منہ چھپائے پھرتے تھے وہ آج عمران خان کی جگہ لینے کے لیے تیار ہیں۔ ماحول بن چکا۔ جو اندر کے حالات جانتے ہیں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حکومت شدید خطرے کا سامنا کر رہی ہے۔
جو بندہ نیب کی کسٹڈی میں رہا‘ وہ اب وزارت عظمیٰ کا امیدوار بتایا جاتا ہے جبکہ اس کے بیٹے سے سوال کیا جا رہا تھا‘ کیا آپ اگلے انتخابات کے بعد پنجاب کے وزیراعلیٰ ہوں گے اور وہ صاحب پارٹی کیلئے خدمات گنوا رہے تھے کہ وہ کتنا عرصہ جیل میں رہے۔ جو چند ماہ پہلے تک اربوں روپوں کے سکینڈلز اور منی لانڈرنگ میں مطلوب تھے یا جیل میں تھے وہ اب اس ملک کے حکمران بننے والے ہیں۔ اب یہ کس کا قصور ہے؟
انسانی مزاج ہے کہ وہ اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ مانتے آپ بھی نہیں اور مانتا میں بھی نہیں۔ سب خود کو عقلِ کل سمجھتے ہیں کہ ہم تو غلطی کر ہی نہیں سکتے۔ خان صاحب سے پوچھیں تو وہ اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں ہوں گے کہ یہ سب ان کا اپنا کیا دھرا ہے جس کی وجہ سے تین سالوں میں آصف زرداری‘ شریف برادران اور مولانا فضل الرحمن اس پوزیشن میں آ گئے ہیں کہ ان کی حکومت گرا سکیں۔
بار بار کہتا آیا ہوں کہ جو پارٹیاں اور لیڈر تیس سال کھڑے نہیں ہو سکتے تھے‘ خان صاحب کی طرز حکومت اور چند غیرضروری لڑائیوں کی وجہ سے تیس ماہ میں کھڑے ہو گئے ہیں۔ یہی نواز لیگ جو نواز شریف کے لندن سے واپس آکر جیل جانے کے خلاف لاہور میں چند سو بندے اکٹھے نہ کرسکی تھی کہ ایئرپورٹ تک پہنچ پاتے‘ آج لانگ مارچ کرنے اسلام آباد آرہی ہے۔ وہ پیپلز پارٹی جس کا پنجاب سے صفایا ہوگیا تھا‘ بلاول بھٹو کی قیادت میں سندھ سے اسلام آباد تک مارچ کر چکی ہے۔ تو خرابی کہاں ہے؟ کہنے کو کہا جا سکتا ہے کہ خرابی عوام میں ہے جو ان کرپٹ لیڈروں کے جال میں ہر دفعہ پھنس جاتے ہیں اور جنہیں عمران خان جیسا لیڈر تین سال بھی ہضم نہیں ہوتا۔ کہنے کو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ خان صاحب کو اچھی پارلیمنٹ نہیں ملی، اچھی اپوزیشن نہیں ملی، اچھی عدلیہ نہیں ملی، اچھا میڈیا نہیں ملا، اچھی ایف آئی اے یا اچھا نیب نہیں ملا‘ اچھے اتحادی نہیں ملے۔ سوال یہ ہے اگر سب کچھ اچھا ہوتا تو خان صاحب کو کس نے اقتدار میں لانا تھا؟ خان صاحب کو تو ان سب کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے ملک کو اس تباہی کے دہانے تک پہنچایا اور پھر لوگوں نے خان صاحب کو کندھوں پر بٹھا کر وزیراعظم بنا دیا کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر دیں گے‘ لیکن خان صاحب نے ساڑھے تین سال اسی بحث میں گزار دیئے کہ پچھلے برباد کر گئے تھے۔ جتنی شکایتیں انہیں ان ساڑھے تین برسوں میں کیں شاید ہی کسی وزیراعظم نے کی ہوں۔ شاید یہ مائوزے تنگ کا قول ہے کہ جتنا بڑا بحران ہوگا اتنا بڑا موقع لیڈرشپ کیلئے ہوگا کہ وہ اس بحران کا مقابلہ کرکے خود کو بڑی قیادت ثابت کرے۔ یہاں چھوٹے سے چھوٹے بحران پر بھی ہاتھ پائوں پھول جاتے تھے اور فوراً طاقتور دوستوں کو فون کیا جاتا ہے کہ فلاں صحافی کو سیدھا کر دو‘ فلاں چینل کو سبق سکھا دو، فلاں کو بند کر دو، فلاں پر مقدمہ بنا دو۔
جو مسائل عمران خان کو خود حل کرنے تھے تاکہ سیاسی عمل کو اپنے ہاتھ میں رکھتے وہ انہوں نے اپنے غیرمنتخب لوگوں سے کرانے کا رواج ڈالا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج جب وہ سیاسی بحران کا شکار ہیں تو انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ ان معاملات کو سیاسی طور پر کیسے ہینڈل کریں۔ انہوں نے ٹیم سلیکشن میں جو غلطیاں کیں‘ ان کا خمیازہ قوم نے بھگتا سو بھگتا لیکن وہ اب خود بھی بھگت رہے ہیں۔ خان صاحب کے ایک بہت قریبی وزیر نے مجھے خود بتایا کہ خان صاحب ایک بات بھول گئے کہ کرکٹ کی دنیا میں وہ اس لیے کامیاب رہے کہ بہترین کھلاڑی چن کر ٹیم میں لاتے جو ڈلیور کرتے‘ لیکن وزیراعظم بن کر انہوں نے اس فارمولے سے انحراف کیا جس کا نتیجہ وہ بھگت رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا: اب عمران خان کمزور لوگوں کو آگے لائے ہیں‘ پنجاب میں عثمان بزدار اور خیبر پختونخوا میں محمود خان کو سامنے لانا ان کے اندر کے خوف کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ تگڑے وزیراعلیٰ سے ڈرتے تھے۔ انہیں کٹھ پتلی وزیراعلیٰ چاہیے تھا جس میں خود سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہ ہو۔ ایسا بندہ جو روز صبح اٹھ کر واٹس ایپ چیک کرے کہ آج بنی گالہ سے کیا میسج آیا ہے اور اس نے آج سارا دن کیا کرنا ہے۔ عمران خان بھول گئے کہ پنجاب کی آبادی بارہ کروڑ ہے اور جو پنجاب میں ڈلیور کرتا ہے وہی اسلام آباد میں حکومت بناتا ہے۔ پنجاب میں شہباز شریف نے دس سال جس طرح حکومت کی تھی اس کے بعد بزدار کا وزیراعلیٰ بننا ایسا سیاسی جوا تھا جو خان صاحب نے جان بوجھ کر کھیلا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شہباز شریف دوبارہ ابھرے۔ پنجاب میں پانچ چھ حکومتیں ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔ روز ٹرانسفر پوسٹنگ‘ لہٰذا کسی بیوروکریٹ کو کچھ پتا نہ تھا اس نے کس کی بات ماننی ہے۔ تین تین ماہ کی پوسٹنگ کا کلچر متعارف ہوا اور الزامات سامنے آنے لگے کہ پنجاب میں ڈی سی اور ڈی پی او لگنے کا ریٹ لگ رہا ہے۔ یہ پہلی دفعہ پنجاب میں سنا تھا بیوروکریٹس پیسے دے کر عہدے لے رہے تھے۔ پہلے یہ بات سرگوشیوں میں ہوتی تھیں، پھر ٹی وی شوز سے ہوتی جلسوں تک پہنچ گئیں۔
عمران خان صاحب کو سب نے کہا کہ پنجاب کو بہتر وزیراعلیٰ دیں ورنہ شریف دوبارہ ابھریں گے۔ وہ نہیں مانے۔ انہیں اگر شریف برادرز کا مکو ٹھپنا تھا تو پھر دلیرانہ فیصلے کرتے۔ کوئی ایکٹو نوجوان وزیراعلیٰ بناتے، اسے تمام اختیارات دیتے اور اچھے اچھے افسران چن کر لگاتے۔ پنجاب میں صرف ایک دفعہ ایسا محسوس ہوا تھاکہ وہ تبدیلی لانا چاہتے ہیں‘ جب میجر اعظم سلیمان کو چیف سیکرٹری لگایا گیا‘ جنہوں نے چند ماہ میں اچھے افسران لگا کر حالات کچھ بہتر کیے‘ لیکن چند ماہ بعد انہیں ہٹا دیا گیا کیونکہ وہ سیاسی حکمرانوں کو پنجاب میں کھل کر پیسہ نہیں بنانے دے رہے تھے۔ ناصر درانی ساتھ بھی یہی سلوک ہوا۔ جب آپ خود پنجاب میں اچھے افسران اور اچھی بیوروکریسی نہیں چاہتے تھے تاکہ آپ کے لاڈلے مال بناتے رہیں تو پھر اب گلہ کس بات کا؟ آپ اپنی insecurity کا علاج نالائق لوگوں میں ڈھونڈتے رہے‘ جنہوں نے کھل کر مال بنایا۔ یہی کچھ اسلام آباد میں ہوا جب خود اپنے دوستوں اور اے ٹی ایمز میں عہدے بانٹے۔ جو لندن ایئرپورٹ پر آپ کو پک اینڈ ڈراپ سروس دیتے تھے انہیں پاکستان لا کر طاقتور وزارت دے دی۔ پارلیمنٹ آپ نہیں جاتے تھے۔ میڈیا سے مسلسل لڑائی رہی۔ ہر طرح کے کرپٹ کو پاور دی گئی اور جواز دیا گیا کہ مجبوری ہے۔ اب وہ سب کرپٹ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ پاکستان میں ساٹھ فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ان سب کو کسی کام پر لگانے یا انہیں کوئی نئی سمت دکھانے کے بجائے سوشل میڈیا پر گالی گلوچ پر لگا دیا گیا۔ جب عملی طور پر کچھ کرنے کا وقت تھا تو اس وقت وہ ایک ہی تقریر روزانہ بار بار کر رہے تھے۔ جب وقت تھا تو آرام سے بیٹھے یاروں‘ دوستوں ساتھ مزے ہورہے تھے اور اب جب اقتدار ہاتھ سے نکلتا نظر آرہا ہے تو کہتے ہیں کہ وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے، اتنے خطرناک ہو جائیں کہ دنیا دیکھے گی۔ لوگوں کی بائیس برس کی جدوجہد، لوگوں کے تبدیلی کے خواب تین خاندان تیس ماہ میں کھا گئے۔ آج وہی شریف اور زرداری دوبارہ کھڑے ہوگئے ہیں جن سے چھٹکارا دلوانے کیلئے عمران خان ابھرے تھے۔ افسوس اس بات کا ہے اپنی غلطیاں ماننے کو وہ نہ کل تیار تھا نہ آج ہیں۔ جون ایلیا یاد آئے ۔
میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں