آج ہر پاکستانی پریشان ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ تحریکِ انصاف کی حکومت رہے گی یا نہیں۔ تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو گی یا کپتان کے سکہ بند مخالفین کو منہ کی کھانا پڑے گی۔ باتیں سیاسی لوگ اور ان کے ہرکارے جو بھی کریں‘ بیانیے جو بھی ہوں‘ بہت سے حقائق ہمارے سامنے ہیں‘ جن کو سب کی کھلی آنکھیں دیکھ رہی ہیں اور گزشتہ ساڑھے تین برسوں سے ہم تمام ہونے اور نہ ہونے والے واقعات کے چشم دید گواہ ہیں۔ یہ درویش کسی پوشیدہ راز سے پردہ نہیں اٹھا رہا بلکہ حقائق کا ذکر آپ کی یاددہانی کیلئے کر رہا ہے اور جو اب اس وقت کی بدلتی ہوئی اور بدلی ہوئی صورتحال ہے‘ وہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہے۔ آپ خود ہی کچھ فیصلہ کر پائیں گے کہ آنے والے دنوں‘ مہینوں اور ممکن ہے کہ سالوں میں ہمارے مقدر کے فیصلے کن ہاتھوں میں ہوں گے۔ پہلے ان معاملات کا سرسری سا جائزہ لیتے ہیں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور کس طرف جا رہے ہیں۔
عمران خان صاحب سیاست میں ایک نظریہ لے کر آئے کہ عوام کی طاقت کو متحرک کیا جائے تو دو موروثی خاندانوں کی سیاست کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کے کردار‘ طرزِ حکمرانی‘ مالی بدعنوانی‘ ریاستی اداروں اور طاقت کے زوال کے بارے میں جو بیانیے تراشے گئے انہوں نے نوجوانوں‘ پڑھے لکھے متوسط طبقے کے لوگوں کو ان کی طرف متوجہ کیا۔ دو ہزار تیرہ کے انتخابات اور دھرنے کے بعد لوگ جوق در جوق ان کی جماعت میں شامل ہونا شروع ہو گئے۔ میں ان لوگوں میں شامل ہوں جو سمجھتے ہیں کہ معاشروں اور ریاستوں کی ناکامی اور زوال کی بنیادی وجہ‘ پہلی اور آخری نہیں‘ حکمران طبقوں کی کرپشن ہے۔ میں یہ بات خان صاحب کی باتیں سن کر نہیں کہہ رہا۔ بیشک آپ میری باتوں سے اتفاق نہ کریں‘ اور مجھے احساس ہے کہ میری تاریخ اور سیاست کے بارے میں سمجھ بوجھ ناقص ہو سکتی ہے مگر رعایت کا اتنا مستحق ضرور ہوں کہ زندگی نصف صدی سے زیادہ علمِ سیاست کے دشت میں گزاری ہے۔ نہ جانے کتنی ریاستیں قدرتی وسائل سے مالامال ہیں مگر حکمرانوں کی کرپشن نے انہیں تباہ کر ڈالا ہے۔ ایک وقت تھا‘ تقریباً چالیس سال قبل‘ کہ امریکی دانش گاہوں سے تازہ ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد نائیجیریا کی جامعات میں نوکریاں تلاش کرنے کی تحریک تھی۔ مشاہروں کا موازنہ مغرب کی جامعات سے کیا جا سکتا تھا۔ اب بھی تیل کی دولت تو موجود ہے‘ مگر جو اس ملک کا حال ہے‘ کانفرنس میں بھی بلائیں تو لوگ وہاں جانے کو تیار نہیں۔ خیر بات تو سامنے کی ہو رہی تھی۔ عمران خان صاحب نے میرے نزدیک جلد بازی کی۔ بیانیہ وہی رکھا‘ مگر جنہیں ماضی میں چور‘ لٹیرے‘ ڈاکو کہا‘ اور جو سیاسی فرشتے انہوں دو موروثی سیاسی جماعتوں سے اپنے ساتھ ملائے‘ تو ان کی باتوں میں جادوئی اثر جو پہلے تھا‘ وہ نہ رہا۔ بجائے اس کے کہ وہ عوام کو جگانے کی تحریک جاری رکھتے‘ انہوں نے ہر سیاسی گھاٹ سے پانی پینے والے ''الیکٹ ایبلز‘‘ کو گلے لگا لیا۔ ہمیں تو معلوم تھاکہ سیاسی خاندانوں کا عرصۂ دراز سے اصول یہ ہے‘ بلکہ پہلا اور آخری نظریہ کہ اقتدار ہے تو جہان ہے‘ اور کسی کے ساتھ بھی گٹھ جوڑ کرنا پڑے ان کے مقامی نظریۂ ضرورت کے مطابق جائز ہے۔
عجیب بات لگتی ہے کہ جو اتحادی جماعتیں اور گروہ ان کی حکومت کو بنانے کیلئے ان سے آ ملے یا ملائے گئے‘ ان کے بارے میں خان صاحب کی رائے کبھی مستحسن نہ تھی۔ گجرات اور کراچی کے گروہوں کی سیاسی تاریخ‘ قلابازیوں اور بدلتے ہوئے حالات میں پھرتیوں کے بارے میں ملک کے سرکاری سکولوں میں پڑھتے پانچویں جماعت کے بچوں سے بھی پوچھیں تو وہ آپ کو سب کچھ بتا دیں گے۔ ان کے بارے میں خان صاحب کو لاعلمی کا الزام ہم نہیں دے سکتے۔ یہ سیاسی سودا انہوں نے سوچ سمجھ کر کیا تھا۔ جب وہ اڑان بھرنے کے لیے پروں کو پھڑپھڑا رہے ہیں‘ تو ہم یہی کہیں گے ''دیکھا ہم کہتے نہیں تھے‘‘۔ ایسے گروہ تو اپنا حصہ وصول کرنا جانتے ہیں۔ مقصد کب ان کا کوئی نظریہ‘ عوام ‘ ملک و ملت یا عوامی بھلائی تھا؟ ہر سیاسی خاندان اور بنتے بگڑتے گروہوں کی تاریخ دستاویزی فلم کی طرح نظروں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔ خان صاحب! اب شکایتیں اور رونا دھونا بنتا نہیں۔ آپ کو معلوم تھا کہ اتحادی کس قبیل کے ہیں‘ اور اگر معلوم نہ تھا تو بہتر تھاکہ آپ سیاست میں قدم ہی نہ رکھتے۔ یہ کھیل پھر آپ کے قابل نہیں‘ یا آپ اس کے قابل نہیں تھے۔ آپ نے اپنے ہی اصولوں اور بیانیے سے انحراف کیا اور نتیجہ آپ کے سامنے ہر روز کھل کرسامنے آ رہا ہے۔ آپ کو چھوڑیں یا رہیں‘ بات ایک ہی ہے کہ آپ اپنے نظریے کو ترک کرکے طاقت کی سیاست کریں گے تو اس کھیل میں دوسرے جگادری کھلاڑی تجربے‘ گروہ بندی اور مالی وسائل میں آپ سے بہت آگے ہیں۔
اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں‘ تقریباً بارہ تحریکِ انصاف کے اراکین اسمبلی منحرف ہونے کا برملا اعلان کر چکے ہیں۔ ان کا ''ضمیر جاگ گیا‘‘۔ عملی سیاست میں ایسا پہلی بار تو نہیں ہو رہا۔ گزشتہ نصف صدی یا اس سے بھی زیادہ کی انتخابی تاریخ دیکھ سکتے ہیں۔ تین سو کے قریب خاندانوں کی اجارہ داری ہے۔ یہ نظام ایسے ہی تو انہوں نے ہمارے لیے منتخب نہیں کیا۔ ان کا فائدہ ہی فائدہ ہے کہ انتظامیہ پر اثرورسوخ استعمال کر سکتے ہیں اور ''ترقیاتی فنڈز‘‘ حاصل کر سکتے ہیں‘ اور اگر کسی سیاسی جماعت کی واضح اکثریت نہ ہو تو موزوں وقت پر ضمیر جگانے کی بھاری فیس بھی مل جاتی ہے۔ ابھی تک اتحادی یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ''اپنی سیاسی روایات اور ملکی مفاد‘‘ کو دیکھ کر عدم اعتماد کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔ ظاہراً جن دو ستونوں پر حکومت کھڑی ہے‘ وہ اپنی جگہ سے سرک چکے ہیں۔ اب معاملہ عوام کا نہیں‘ جلسوں میں لوگوں کو لانے کا نہیں‘ اور نہ ہی تقریروں میں گرجنے کا ہے۔ یہ صرف مطلوبہ اراکین اسمبلی کا ہے کہ جس سے حکومت گر یا بچ سکتی ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ ہماری جمہوریت مذاق نہیں تو اور کیا ہے کہ دس بیس اہلِ ضمیر کے ضمیر جگا لیں‘ گروہوں کی وفاداریاں تبدیل کرا لیں اور حکومت پر قبضہ جما لیں۔ کوئی ثبوت تو نہیں لیکن وسوسے اور خدشات تو فطری طور پر جنم لیتے ہیں کہ کوئی اندرونی یا بیرونی دشمن‘ دوست کے روپ میں اقتدار کی کنجیاں اپنے ہاتھ میں رکھ کر کیا کچھ نہیں کر سکے گا۔ چھوڑیں‘ یہ سب ہمارے وہم ہیں کہ سب اہلِ اقتدار ہمیشہ کی طرح مخلص‘ عوام دوست اور وطن سے محبت کرنے والے ہیں۔ شک کی کوئی گنجائش نہیں۔
اراکین کے اعدادوشمار سے پہلے کچھ آئینی مسائل بھی ہیں۔ ظاہر ہے ہم تقسیم ہیں تو ہماری تشریحیں کیسے یکساں ہو سکتی ہیں۔ جنہوں نے تریسٹھ اے کی شق ڈالی تھی‘ ان کا مقصد‘ میری حقیر رائے میں‘ اراکین کو پابند کرنا تھا کہ وہ جماعت کے سربراہ کی مرضی کے مطابق مالیاتی بل اور اعتماد یا عدم اعتماد پر ووٹ ڈالیں گے۔ اس کا پس منظر ماضی میں سیاسی گھوڑوں کی خرید و فروخت اور حکومتیں گرانے کے کئی واقعات تھے۔ دیکھیں‘ عدالت اس بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے‘ اور وہی درست اور حتمی تشریح ہو گی۔ وہ جو بھی ہو‘ سیاست کا پانی بہت گدلا ہو چکا ہے۔ ڈر ہے کہ جمہوریت کی مچھلی کیلئے سانس برقرار رکھنا دشوار سے دشوار تر نہ ہو جائے۔ سیاسی جنگ تو کئی دہائیوں سے جاری ہے‘ صرف فریق تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ اس وقت سب روایتی طاقتیں ایک طرف اور تحریکِ انصاف یا یوں کہیے عمران خان ایک طرف۔ جنگ میں تیزی ہے‘ اور یہ شاید اب تھمے گی نہیں۔ جنگیں سیاسی ہوں یا دوسری والی‘ مرتے‘ پستے عوام ہیں۔ ملک اور ریاستیں بھی تباہ ہوتی ہیں۔ حکمرانوں کا کیا جاتا ہے‘ ان کے وطن ٹھکانے اور بھی ہیں‘ اور مال پانی اتنا کہ آنے والی نسلوں کو بھی پروا نہیں۔ اب جنگ ہو گی۔