فرض کر لیجیے کہ وہ سب ہوچکا جو شہباز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن چاہتے ہیں۔ اتحادیوں نے عمران خان کا ساتھ چھوڑ دیا، تحریک انصاف کے تیس چالیس یا پچاس ایم این اے اپوزیشن سے جا ملے۔ یہ بھی مان لیجیے کہ تحریک عدم اعتماد کے حق میں دو سو سے بھی زیادہ ووٹ پڑ گئے۔ آج کی حکومت اپوزیشن بن گئی اور اپوزیشن حکومت میں آگئی۔ ظاہر ہے یہ سب ہوجانے کے بعد اگلا کام نئے وزیراعظم کا انتخاب ہوگا اور ہو سکتا ہے وزیراعظم کے لیے شہباز شریف صاحب کا نام ہی تجویز کردیا جائے۔ ایک بار پھر فرض کرلیجیے کہ انہیں قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ مل جاتا ہے اور وہ باقاعدہ طور پر وزیراعظم بن جاتے ہیں تو پھر یہاں سے عدم اعتماد کی کہانی کا دوسرا اور تلخ حصہ شروع ہوگا۔
شہباز شریف کی مبینہ انتظامی صلاحیتوں کا شور اپنی جگہ لیکن ان کے اس عہدے پر آتے ہی دنیا بھر میں خبر پھیل جائے گی کہ پاکستان کا وزیراعظم منی لانڈرنگ کے الزامات میں ضمانت پر رہا ہے۔ لندن سے کاوے موسوی کی گواہی ان کے لیے سیاسی طور پر تو شاید کچھ مفید ہو لیکن پاکستان کے اندر قانونی طور پر ان کے کسی کام نہ آسکے گی۔ ان پر بنے ایف آئی اے کے مقدمے کے فیصلے تک مقصود چپڑاسی کا نام لے لے کر ان پر فقرے کسے جائیں گے۔ پھروہ دستاویزات ایک بار پھر سامنے آئیں گی جن کی بنیاد پر لندن میں ان پر مقدمہ تو نہیں بنا تھا لیکن ان کے صاحبزادے سلمان شہباز نے انہیں منظرعام پر نہ لانے کی درخواست کی تھی۔ عوام کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان میں قانون کا راستہ ایک مخصوص ماحول میں بنتا ہے اوراسی طرح کے ماحول میں اگر وہ منی لانڈرنگ کے مقدمات سے بری ہوگئے تو لوگ لحاظ کرکے کچھ نہ بھی کہہ سکے تو زیر لب مسکرا ہی دیں گے۔ جب ایف اے ٹی ایف کا مرحلہ آئے گا تو وہاں شہباز شریف اور ان پر قائم مقدمات کا حوالہ دے کر نجانے کیا کیا کہا جائے گا۔ ظاہر ہے بہت سے لوگوں کے لیے ان مقدمات پر بولنا مشکل ہوجائے گا لیکن خان صاحب کو چپ کون کرائے گا؟
فرض کرلیجیے کہ عمران خان وزارت عظمیٰ سے نکلنے کے بعد سڑکوں پر نہیں آتے تو بھی وہ یا ان کا نامزدہ کردہ شخص اپوزیشن لیڈر کے طور پر اسمبلی میں ہی موجود ہوں گے۔ جب روزانہ کی بنیاد پرایوان میں کچھ لوگوں کو دیکھ کر لوٹا لوٹا کی آوازیں لگ رہی ہوں گی تو کیا ماحول بنے گا۔ الیکشن سے متعلق قوانین کو بدلنا، نیب کا نیا قانون لانا یا کوئی قرارداد پیش کرنا نئی حکومت کے لیے تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔ ایسے میں اگر نواز شریف بھی واپس تشریف لے آئے تو سیاسی ماحول میں جو حدت آئے گی اس کا اندازہ بھی آج نہیں کیا جاسکتا۔ اسمبلی کے اندر وفاداریاں بدلنے والے شہباز شریف کی جان کو اٹکے ہوں گے، ان کا دامن مسلم لیگ ق، ایم کیوایم یا باپ پارٹی کھینچ رہی ہوں گی اور پیپلزپارٹی بھی ایسے موقع پر خوب اپنا پن دکھا سکتی ہے۔ اسمبلی کی حیثیت ایک تماشے سے زیادہ نہیں ہوگی جو چند ہفتوں میں ہی اپنی اہمیت کھو دے گا۔ ان سب کے علاوہ نواز شریف اور مریم نواز کے بیانات مصیبت ڈال رہے ہوں گے۔ اگر یہ دونوں چپ رہے تو میڈیا سوال اٹھائے گاکہ بولتے کیوں نہیں، کہاں گیا ووٹ کو عزت دینے کا بیانیہ وغیرہ وغیرہ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کوئی جرأت پا کر لندن اور اسلام آباد کی ایسی مجلسوں کا تفصیلی احوال بتانے لگے جن میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کا جال بُنا گیا تھا۔ ایسی کوئی بھی حکایت کتنے شوق سے سنی جائے گی اور کتنے لحن سے اس پر تبصرے ہوں گے، اس بارے میں شہباز شریف صاحب سے زیادہ کون جانتا ہے۔
فرض کرلیجیے کہ اسمبلی اورمیڈیاکے ہنگامے کے دوران عمران خان اپنے کہے کے مطابق حکومت سے نکالے جانے کے بعد سڑکوں پرآ جاتے ہیں۔ ایسے میں شہباز حکومت آئی ایم ایف سے ڈیل کرے تو خوار ہوگی نہ کرے تو بھی خوار ہوگی۔ افغانستان، چین، بھارت، روس اور امریکا کے ساتھ معاملات میں ذرا انیس بیس ہوئی تو عمران خان جلسوں میں غلامی کا بیانیہ ترتیب دینا شروع کردیں گے۔ ان کے سوا کوئی فوری طور پر الیکشن میں جانے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ جتنی دیر الیکشن کی نوبت آئے گی اس وقت تک عمران خان مزاحمت کا استعارہ بن کر ابھر چکے ہوں گے اور مسلم لیگ (ن) اپنے موجودہ اتحادیوں سمیت کنگزپارٹی کا روپ دھار کر کچھ کہنے کے قابل نہیں رہے گی۔ حکومت کی اٹھا پٹخ سے پاکستان کی معیشت جو روزانہ کی بنیاد پر ڈوب رہی ہے زیادہ تیزی سے گرنے لگے گی اور نئی ملی جلی حکومت کچھ نہیں کر پائے گی کیونکہ اس کے نام نہاد ماہرین معیشت بھی اتنے ہی نالائق ہیں جتنے تحریک انصاف کو میسر آئے تھے۔ تحریک انصاف نے تو پھر کچھ اصلاحات کرکے کام چلا لیا تھا، بھان متی کے کنبے کی طرح اینٹوں روڑوں سے جوڑی ہوئی حکومت تو کچھ بھی نہیں کرپائے گی۔ اس بے عملی سے حالات مزید خراب ہوں گے اور عمران خان کی معاشی حکمت عملی پر لوگ ایمان لے آئیں گے۔
نئی حکومت بننے کے چند دن بعد ہی سوشل میڈیا پرملک پر چار خاندانوں کے قبضے کا قضیہ‘ جو ابھی ہلکے سروں میں چل رہا ہے‘ پوری قوت سے ابھرنے لگے گا۔ تحریک انصاف اسے اشرافیہ کی حکومت بنا کر دکھائے گی اور جب اس کے ساتھ ملی جلی حکومت کا نکما پن واضح ہوجائے گا تو لینے کے دینے بھی پڑ سکتے ہیں۔ ایسے میں جوڑ جاڑ کر بنائی گئی یہ کنگز پارٹی ادھر کی رہے گی نہ ادھر کی۔ ویسے تو اس طرح کی صورتحال کسی بھی ملک میں پیدا ہوجائے تو اس کی حیثیت دنیا میں ایک مذاق سے زیادہ کچھ نہیں رہ جاتی اور ہم توپہلے ہی نالائقی کی وجہ سے دنیا کیلئے ایک مثال ہیں، لیکن ان حالات میں تھوڑی بہت قدر جو عالمی سطح پر ہماری تھی‘ وہ بھی جاتی رہے گی۔ اپنے اکابرین کے لیے ملک کا نقصان تو کوئی بڑا نقصان ہے نہیں کیونکہ یہ خیال کسی کو ہوتا تو یہ نوبت آتی ہی کیوں؛ البتہ خوف یہ ہے کہ خراب معیشت کوئی ایسی پیچیدگی نہ پیدا کر دے جسے حل کرنے کے لیے ہمیں بہت کچھ کھونا پڑجائے ۔
جب یہ سب کچھ ہورہا ہوگا توہم سب مل کر صرف استحکام کی دعا مانگ رہے ہوں گے اور وہ اگلے کئی سالوں تک ہمیں نصیب نہیں ہوگا۔ ہمارے ادارے جو پہلے ہی تباہی کی ڈھلوان پر لڑھک رہے ہیں، نجانے کتنی گہرائی میں جا کر رکیں گے۔ الیکشن ہو بھی جائے تو اسے تسلیم نہیں کیا جائے گا اور پاکستان میں کوئی ایسا نہیں رہ جائے گا جو سب کو ایک جگہ بٹھا کر معاملات کو سلجھا سکے۔ ہم سب اپنی اپنی پسندیدہ سیاسی جماعتوں یا شخصیات کے اعمال و فرمودات کو درست ثابت کرنے کے لیے ایک دوسرے کے گریبانوں پر ہاتھ ڈال رہے ہوں گے۔ جیسے آج کل ہم میں سے جو اگر مسلم لیگ (ن) کا ہمدرد ہے تو اسے اسمبلی کے اندر وفاداریاں بدلنا بھی عین جمہوری لگتا ہے اور جو تحریک انصاف کا چاہنے والا ہے اس کے لیے کل تک الیکٹ ایبلز کے نام پر ہر شخص قابل قبول تھا مگر وہی الیکٹ ایبل چھوڑ کے جائے تو اسے گردن زدنی قرار دینے میں ایک منٹ نہیں لگاتا۔ آج یہ سب کچھ بحث مباحثے کے ذریعے ہو رہا ہے، کل یہ شور شرابے اور پرسوں لڑائی جھگڑے سے ہوگا۔
اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ ایک تحریک عدم اعتماد کے کامیاب ہونے کے مفروضے سے اس کالم نگار نے مستقبل کی کتنی تاریک تصویر پیش کی ہے تو آپ درست سوچ رہے ہیں کیونکہ آپ نوجوان ہیں۔ اگر آپ میری عمر کے ہوتے تو مستقبل کی یہ تصویر آپ کے ماضی کا تلخ تجربہ ہوتی۔ میری عمر کے کروڑوں لوگوں نے یہ تباہی انیس سو نوے کی دہائی میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھی ہے، رونا اسی بات کا ہے کہ اب ہمارے نوجوان‘ بچے بھی یہی دیکھیں گے۔