عمران خان کے پاس ابھی بہت
سے کارڈ ہیں، اتحادی تو ہیں ہی: شیخ رشید
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''عمران خان کے پاس ابھی بہت سے کارڈ ہیں، اتحادی تو ہیں ہی‘‘ بلکہ تاش کی ساری گڈی ہی ان کے پاس ہے جبکہ پتے تقسیم بھی وہی کریں گے، اپنی مرضی کے پتے اپنے پاس رکھیں گے اور بچے کھچے پتے اپوزیشن کے ماتھے ماریں گے کیونکہ یہ کام ہی پتّے بازی کا ہے، جو بڑا پتّے باز نکلا، وہی کامیاب ہو گا، حتیٰ کہ اپوزیشن شو بھی نہیں کروا سکے گی، یکّوں کو تو ان کے ساتھ ویسے ہی بہت پیار ہے اور چاروں یکّے خود بخودہی اُن کے پاس آ جائیں گے، البتہ گولے،بیگیاں اپوزیشن کے پاس رہ جائیں گی تاکہ وہ ان کے ساتھ دل پشوری کرتی رہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
وزیراعظم کو ہٹانے کیلئے میں گیٹ
نمبرچارنہیں کھٹکھٹاؤں گا: بلاول بھٹو
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم کو ہٹانے کیلئے میں گیٹ نمبرچارنہیں کھٹکھٹاؤں گا‘‘ کیونکہ میرے کھٹکھٹانے سے تو وہ کھلے گا بھی نہیں جو ایک بار والد صاحب نے کھٹکھٹایا تھا تویہ تب بھی نہیں کھلا تھا، اگر عدم اعتماد سے انہیں ہٹایا جا سکتا تو میں کسی اور آپشن کا نام ہی نہ لیتا جبکہ زیادہ تر اتحادی بھی اپوزیشن کے ساتھ غداری کرتے ہوئے واپس جا رہے ہیں، اگرچہ ہم نے اپنے ارکان سے بھی کہہ دیا ہے کہ جو جو عیادتیں اور تعزیتیں کرنی ہیں کر لیں، اور اگر کوئی قریب المرگ ہو تو اس کی تعزیت بیشک قبل از وقت ہی کر آئیں۔ آپ اگلے روز مالاکنڈ میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
عمران خان نے دلیر وکیل بن کر
مسئلہ کشمیر اُجاگر کیا: مسرت جمشید چیمہ
رکن پنجاب اسمبلی اور سیکرٹری اطلاعات پی ٹی آئی مسرت جمشید چیمہ نے کہا ہے کہ ''عمران خان نے دلیر وکیل بن کر مسئلہ کشمیر اُجاگر کیا‘‘ اگرچہ اس میں ذہانت اور ہنرمندی زیادہ ضروری ہوتی ہے لیکن جہاں ذہانت اور ہنرمندی کی ضرورت ہو وہ وہاں بھی دلیری ہی سے کام لیتے ہیں کیونکہ سیاست کا ذہانت اور ہنرمندی کے ساتھ کچھ اتنا تعلق واسطہ نہیں ہوتا جبکہ ساڑھے تین سال تک وہ دلیری ہی سے کام لیتے رہے ہیں جبکہ مقدمے کا فیصلہ کرنا جج ہی کا کام ہوتا ہے اگرچہ وہ غیر ضروری دلیری پر وکیل کو ڈانٹ بھی سکتا ہے لیکن ڈانٹ کھانا بھی کسی کسی کا کام ہے کہ ہر آدمی ڈانٹ بھی نہیں کھا سکتا۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک قومی روزنامہ سے خصوصی گفتگو کر رہی تھیں۔
(ن) لیگ کے کارکن ظالم حکومت کے خلاف
تحریک میں شامل ہوں: مریم اورنگزیب
نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''(ن) لیگ کے کارکن ظالم حکومت کے خلاف تحریک میں شامل ہوں‘‘ اول تو انہیں خود ہی شامل ہو جانا چاہئے تھا لیکن کئی بار کہنے کے باوجود ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اور مجھے ہر تیسرے دن ان سے یہ گزارش کرنا پڑتی ہے، اگرچہ ہمارے لیڈر بھی صحیح طور پر شریک نہیں ہوتے کیونکہ کسی کا منہ کسی طرف ہوتا ہے اور کسی کا کسی طرف جبکہ وہ باری باری بیمار بھی ہوتے رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں صحت کاملہ عطا فرمائے کیونکہ جب ایک ایک عہدے کیلئے دو دو امیدوار ہوں تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے، حالانکہ حالات جس طرف جا رہے ہیں وہ سب کے سامنے ہے جبکہ مقدمات کا فیصلہ بھی کسی وقت ہو سکتا ہے چاہے جتنے بھی حربے استعمال کئے جائیں۔ آپ اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
تذکرے اور تجزیے
یہ سابق بیورو کریٹ، شاعر اور ہمارے دوست سیّد افسر ساجد کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جسے ملتان سے شائع کیا گیا ہے۔ انتساب اپنے بچوں سیّد کامران ساجد، ڈاکٹر سیدہ فرحت کامران (پی ایچ ڈی) ڈاکٹر عائشہ تنویر، ڈاکٹر تنویر احمد، ڈاکٹر طیبہ انور، احمد انوار، سید انیس ساجد اور ڈاکٹر منیزہ انیس (پی ایچ ڈی) کے نام ہے۔ پسِ سرورق مصنف کی تصویر کے ساتھ مختصر تعارف اور تصانیف کا ذکر ہے۔ کتاب ہٰذا میں جن شعرادبا کے فن کا جائزہ لیا گیا ہے ان میں سے چند چیدہ نام اس طرح سے ہیں: ڈاکٹر سعادت سعید، محمد نعیم چودھری، گلفام نقوی، مقصود وفا، افضل احسن رندھاوا‘ پروفیسر رضی عابدی، وحید احمد، مستنصر حسین تارڑ، مہ طلعت زیدی، ضیا حسین ضیا عباس تابش، انور جمال، ڈاکٹر محسن مگھیانہ، ڈاکٹر امجد ثاقب، سعادت حسن منٹو، باقی احمد پوری، احمد ندیم قاسمی، رخشندہ نوید اور منزہ سلیم۔ اس میں چند انٹرویوز بھی شامل ہیں، اندازِ تحریر سادہ اور دلچسپ اور گٹ اَپ عمدہ، ایک قابلِ مطالعہ کتاب۔
اور، اب آخر میں گل فراز کی غزل:
کب سہل تھا جو میں نے اڑایا ہے جھوٹ سچ
منسوخ سارا کر کے بنایا ہے جھوٹ سچ
دونوں طرف ہی رکھا برابر معاملہ
تھوڑا بتایا، تھوڑا چھپایا ہے جھوٹ سچ
سچ تھا کہیں پہ صرف، کہیں صرف جھوٹ تھا
کتنی ہی مشکلوں سے رلایا ہے جھوٹ سچ
رُکنے کا دور دور تک امکان ہی نہیں
طاقت لگا کے پوری چلایا ہے جھوٹ سچ
سچ ہے یہ اس میں جھوٹ کا کچھ شائبہ نہیں
تم کو تو صاف صاف بتایا ہے جھوٹ سچ
سوچا تھا کذب و صدق میں سے ایک نکلے گا
لیکن یہاں تو سب نکل آیا ہے جھوٹ سچ
کچھ سچّوں میں اور جھوٹوں میں جاری تھی کوئی بحث
اُوپر سے میں نے اتنا مچایا ہے جھوٹ سچ
کیونکر نہ یہ لذیذ لگے سب کو گل فراز
بالکل الگ طرح کا پکایا ہے جھوٹ سچ
آج کا مطلع
جہاں میرے نہ ہونے کانشاں پھیلا ہوا ہے
سمجھتا ہوں غبارِ آسماں پھیلا ہوا ہے