بہار کا موسم آتے ہی برصغیر کے طول و عرض میں روایتی میلوں ٹھیلوں کے مظاہر اور خانقاہی مناجات کی رسمیں کھل اٹھتی ہیں۔یہ گداز روایات اجتماعی حیات کے ہزاروں سال پہ محیط تجربات کا نچوڑ اور فطرت کی اُس تدبیرِ مخفی کا ایسا اعجاز ہیں جس سے ہم اپنی دکھوںسے لبریز اس فانی زندگی کوجینے کے قابل بنا لیتے ہیں۔زندگی کے یہی میلے یہاں کی تہذیب و ثقافت کے ارتقا کا زینہ‘معاشی سرگرمیوں کا محور اور نفسیاتی آسودگی کا سامان مہیا کرتے ہیں۔انہی حرکیات کو اہلِ علم چیونٹیوں جیسے استقلال کے ساتھ‘ محض حقائق جمع کرنے کی خاطر فرسودہ کن مباحث میں بدل دیتے ہیں۔
پچھلے تین سال سے فروری کے تیسرے عشرے میں ڈیرہ جات آف روڈ جیپ ریلی فیسٹیول کا انعقاد بھی ہماری زندہ ثقافت میں انتہائی خوبصورت اضافہ ثابت ہوا ۔یہ ایونٹ اگر یونہی جاری رہا تو مقامی ثقافت و معیشت کو گراں قدر فوائد پہنچائے گا ‘مگر مارچ کے تیسرے عشرے میں منعقد ہونے والا ڈیڑھ صدی پرانا تین روزہ میلۂ اسپاں و مویشیاں یہاں کے قدیم کھیلوں یعنی گھڑدوڑ‘نیزہ بازی‘کبڈی‘کشتی‘باربرداری اور رسہ کشی جیسے دلآویز مشاغل کے دوام کا مؤثر وسیلہ ہے۔یہ میلے اگر نہ سجتے تو شاید اب تک خطۂ ڈیرہ جات کے سارے روایتی کھیل وقت کی دبیز تہہ میں گم ہوچکے ہوتے۔اسی طرح بلوٹ شریف میں پیرشاہ عیسیؒ کے کم و بیش چار سو سال پرانے عرس سے جڑے تہواری مظاہربھی زندگی کے میلے میں رنگ بھر دیتے ہیں۔یہاں بھی روایتی کھیلوں کے علاوہ سرکس‘تھیٹر اور عوامی سطح کی موسیقی سے جڑے کچھ مظاہر ہمارے دیہی سماج کی نفسیات پہ نہایت خوشگوار اثر ڈالتے ہیں۔ بلاشبہ ہر تہذیبی سرگرمی خطے کی اقتصادی ترقی کا محرک بھی بنتی ہے۔
تہذیب و ثقافت کا ارتقا ہمیشہ اہل ِعلم کے لیے تحقیق و جستجو کا موضوع رہا ہے‘اس لیے سارے تہذیبی عوامل کو نفی‘اثبات کی اسی روایتی جدلیات سے گزرنا پڑا جس سے نفسِ انسان خود گزرتا ہے۔گویا تہذیب ہی زندگی کا حصول اور ہماری کھلی اور مخفی آرزوں کا عکس ہے۔ تہذیب وثقافت ہماری روزمرہ زندگی کے وظائف یعنی باہمی احتیاج‘تنوع‘مقابلہ‘مباحثوں اوربوقلمونی کا مرقع سمجھی جاتی ہے‘جسے انسان آرٹ کی صورت دے کر مفید ادراک میں بدل کر سماجی ارتقا کی سیڑھی یا پھر یاسیت پسند موسیقار اسے پُرسوز نغمات میں ڈھال کر ہماری فانی زندگی کا نوحہ بنا لیتے ہیں۔
ہم اکثر ثقافت اور تہذیب کی اصطلاحات کو ایک دوسرے میں گڈمڈ کر دیتے ہیں لیکن اہلِ علم تہذیب اور ثقافت کو دو مختلف سطحوں میں مرتب کرتے ہیں۔تہذیب کا تصورہمیں انسانی رویوں میں ملتا ہے جیسے لوگوں کا ایک دوسرے کے لیے احترام‘ شرفِ انسانیت‘حرمت ِجاں‘بھلائی‘اخلاق اور آسائشوں وخوبصورتی کی تلاش جیسے رجحانات میں نظر آتا ہے؛ چنانچہ جو لوگ ان صفات سے عاری تھے انہیں ہم وحشی یا غیر مہذب کہتے آئے ہیں۔ثقافت ایک بہتا ہوا دھارا ہے‘جو انسان کی فطری تلون مزاجی اور مستقل عادات کے تنوع‘مقابلہ‘حسد‘قوت کے اظہار اور معاشی ضرورتوں کے تال میل میں پروان چڑھا‘جیسے انواع و اقسام کے کھانے‘مختلف ذائقے‘رنگوں کا امتزاج اور نت نئے فیشن جو سرعت سے ابھرتے اور تیزی کے ساتھ بدل جاتے ہیں مگر ان میں سے کچھ عوامل ہماری عادات اور روایات کا حصہ بن کے تہذیب کا جُز اور تمدن کی علامت بن کے رہ جاتے ہیں۔
بشریاتی مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ قدیم انسان جو فطرت کے زیادہ قریب رہتا تھا‘اس کی پہلی ترجیح بقا کا مسئلہ تھا‘ اس لیے وہ اگرچہ سماجی نظم و ضبط سے بے بہرہ اورزندگی کی تزئین و آرائش کے شعورسے ناواقف تھا ‘لیکن اس کے باوجود ہمیں قدیم معاشروں میں بھی مذہب اور مابعدالطبیعاتی عقائد کے علاوہ کچھ اقدار‘قواعد و ضوابط اور اوزاروں کے استعمال کے شواہد ملتے ہیں۔شاید باہمی احتیاج کے بعد مذہب ہی وہ بنیادی محرک تھا جس نے انسان کو نظم و ضبط اور تہذیب کا فرزند بننے کی راہ دکھائی ؛چنانچہ ابتدا میں انسان کے نفسیاتی‘فکری اور اقتصادی علوم کی اساس مذہبی رسومات بنی ہوں گی۔انہی عقائد کے سہارے انسان نے میسّر چیزوں کی فطری ترتیب میں کچھ تبدیلیاں کیں جو بالآخرکلچر کی خصوصیات بنتی گئیں‘ لیکن تہذیب کی اصطلاح کا جدید تصور ماضی کے سماجی یا بشریاتی معنی سے کہیں زیادہ پیچیدہ مفاہیم کا حامل ہے۔مغربی ماہرین بشریات تہذیب سے مراد وہ مکمل طریقہ کار اور جامع سماجی تنظیم لیتے ہیں جسے انسان نے زندگی کے حالات کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں وضع کیا اور اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ یہ ثقافتی ترقی کا اعلیٰ مرحلہ ہے جس کی خصوصیت فکری‘جمالیاتی‘تکنیکی اور روحانی حصول تھا۔کئی سکالرز نے تہذیب کو ٹیکنالوجی میں ترقی کے ذریعے ماحول پہ انسان کے بڑھتے ہوئے تصرف سے تعبیر کیا‘مگر تہذیب کی تمام خصوصیات ہمیں ذہنی نفاست‘شعوری ارتقا‘سماجی بیداری‘خود تنقیدی اور اپنی ذات سمیت تسخیرِ کائنات کی ترغیب دیتی ہیں۔ ثقافت اپنے آپ میں جنم لیتی اقدار اور اہداف کا فعال دھارا ہے اور تہذیب اس دھارے کے اختتام کا ایسا ظرف (آلات اور تکنیک) ہے‘جس سے فن اور روایات کی جھیل تشکیل پاتی ہے۔ ثقافتی حقائق جیسے عقیدہ‘ فن اور ادب‘ نثر‘ شاعری یا ناول وغیرہ‘ قاری کو براہ راست اطمینان فراہم کرتے ہیں جبکہ تہذیب کے سازوسامان‘ جیسے کاریں‘کمپیوٹر‘ موبائل فون وغیرہ‘ براہ راست اطمینان نہیں دیتے جب تک کہ وہ انہیں حاصل کرکے متصرف نہ ہو جائے۔ اس لحاظ سے تہذیب مفید ہے‘ یہ صرف افادیت کی منزل کو حاصل کرنے میں مدد دیتی ہے۔ثقافت کی بذات خود کوئی قدر نہیں ہوتی لیکن یہ ہمہ وقت تغیرپذیر ایسا پیمانہ ضرور ہے جس سے ہم تہذیب کے دیگر مضامین کی قدر کرنا سیکھ لیتے ہیں کیونکہ کسی بھی چیز کی قدر اس کی پیمائش کے معیار سے طے کی جا سکتی ہے۔ ثقافت ایک ماپنے والی چھڑی یا وزنی توازن ہے۔ تہذیب ہمیشہ ترقی کرتی ہے لیکن ثقافت ابھرتی‘ڈوبتی اور رنگ بدلتی رہتی ہے۔ ثقافتی حقائق جیسے‘ ڈرامائی کھیل یا نظمیں آج ضروری نہیں کہ شیکسپیئر کے ڈراموں یا نظموں سے بہتر ہوں‘ لیکن وہ اپنے عہد کے تقاضوںسے ہم آہنگ ضرور ہیں۔تہذیب آسانی سے اگلی نسل تک بغیر کسی کاوش کے منتقل ہوتی ہے لیکن ثقافت کا کچھ حصہ تہذیب کا جُز اور کچھ وقت کی گرد میں دفن ہو جاتا ہے۔ثقافتی حقائق مثلاً کوئی فن یا ادب کا شہ پارہ‘بغیر کسی ذہانت کے سیکھا نہیں جا سکتا۔ اسے سمجھنے کے لیے سخت ریاضت درکار ہوگی۔اس کے برعکس‘ تہذیب کے سازوسامان توانائی اور ذہانت کے استعمال کے بغیر آسانی سے وراثت میں مل جاتے ہیں۔ تہذیب کو بغیر کسی تبدیلی کے مستعار لیا جا سکتا ہے لیکن ثقافت کی منتقلی بغیر تبدیلی کے ممکن نہیں ہوتی‘کسی بھی سیاسی‘معاشی یا سماجی عقیدے کی طرح کسی بھی ثقافتی حقیقت کو مستعار لینے کے لیے نئے ثقافتی ماحول میں ایڈجسٹ کرنے کے لیے کچھ ناگزیر تبدیلیوں کی ضرورت پڑے گی‘جبکہ تہذیبی آلات جیسے ٹی وی‘ کمپیوٹر وغیرہ میں کوئی مادی تبدیلی لانا ضروری نہیں ہوتا۔ ثقافت کا تعلق معاشرے کی اندرونی خصوصیات جیسے فیشن‘رسم و رواج اور روایات سے ہے لیکن تہذیب کا تعلق معاشرے کی خارجی عوامل جیسے سامان تعیش‘ ٹی وی‘موبائل‘لیپ ٹاپ اور دیگر اشیا کواستعمال میں لانا۔اس لحاظ سے ثقافت تہذیب سے زیادہ مستحکم ہے۔
ثقافتی تبدیلیاں سالوں میں یا صدیوں میں ہوتی ہے لیکن تہذیب وتمدن کے آلات تیزی سے اپ ڈیٹ ہو جاتے ہیں۔تہذیب متنوع ثقافتی علاقوں میں ایک جیسی ہو سکتی ہے‘مثال کے طور پرامریکی اورپاکستانی ثقافتوں میں بہت فرق ہے لیکن ان کے تہذیبی آلات میں بہت سی مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ثقافت ایک سماجی حقیقت ہے یعنی پورے معاشرے کی تخلیق جبکہ تہذیب یعنی کسی بھی آلے کی ایجاد کسی ایک فرد کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے۔ کوئی بھی عام آدمی تہذیبی آلات میں کسی بھی تبدیلی کو متاثر کر سکتا ہے لیکن کسی بھی ثقافتی حقیقت میں کسی بھی تبدیلی کے لیے پورے معاشرے کی قوت اور تخیل کی ضرورت پڑے گی۔ثقافت انسانی معاشرے کے بارے میں سب کچھ ہے‘یعنی یہ کسی علاقے میں رہنے والے لوگوں کے مخصوص گروہ کے شعوری رسومات اور خصوصیات سے مراد ہے۔ دوسری طرف تہذیب انسانی معاشرے کی پیش رفت ہے یعنی یہ سماجی اور انسانی ترقی کی اعلیٰ ترین سطح ہے۔ماہرینِ سماجیات کے مطابق ثقافت اور تہذیب کے درمیان فرق یہ ہے کہ ثقافت میں مذہب‘ فن‘ فلسفہ‘ ادب‘ موسیقی‘ رقص وغیرہ شامل ہوتے ہیں جو بہت سے لوگوں کے لیے آسودگی اور خوشی بھی لاتے ہیں‘ گویا یہ زندگی کے ایجابی پہلوؤں کا اظہار ہے یعنی ثقافت وہ ہے جو دراصل ہم ہیں۔تاہم ابھی تک ثقافت کی پیمائش کا کوئی معیار قائم نہیں کیا جا سکا کیونکہ یہ اپنے آپ میں ایک اختتام بھی ہے۔ ثقافت کو ترقی یافتہ نہیں کہا جا سکتا۔اس بات کا یقین نہیں کیا جا سکتا کہ فن‘ ادب‘ افکار آج کے آئیڈیل اور ماضی کے خیالات سے بالاتر ہیں‘ثقافت اندرونی اورمختتم عمل ہے گویا یہ اندرونی خیالات‘احساسات‘نظریات اور اقدارسے جڑی ہوئی چیز ہے۔یہ جسم میں روح کی مانند ہے لیکن تہذیب میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جن کے ذریعے کوئی اور مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے جیسے ٹیکنالوجی یا قدرتی ماحول پر انسان کے تصرف کے ساتھ وہ سماجی ٹیکنالوجی جو انسان کے طرزِ عمل کو کنٹرول کرتی ہے یعنی تہذیب وہ ہے جو ہمارے پاس ہے۔