ریاستوں کے معاملات انتہائی سنجیدگی کے متقاضی ہوتے ہیں۔ سٹریٹجک معاملات کو کسی بھی حال میں ہلکا نہیں لیا جاسکتا۔ قومی قیادت اس حوالے سے غور و خوض اور مشاورت کے بعد جو فیصلے کرتی ہے وہ پوری ریاست پر منطبق ہوتے ہیں۔ ہر ملک کا یہی حال ہے۔ قیادت کی سنجیدگی ہی طے کرتی ہے کہ ملک کس طرف جائے گا‘ کیا کر پائے گا۔
پاکستان بھی اس وقت بہت اہم موڑ پر کھڑا ہے۔ اس موڑ کو دیکھتے ہوئے جو کچھ سوچا جائے گا اور جو کچھ طے کیا جائے گا وہی سب کچھ یہ بھی طے کرے گا کہ ملک اب کیا کرے گا‘ کس سمت جائے گا اور اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے میں کس حد تک کامیاب ہوسکے گا۔ قومی قیادت سخت مشکل میں ہے۔ ہم جس دنیا میں سانس لیتے آئے ہیں وہ دنیا رہی نہیں۔ سبھی کچھ بدل گیا ہے۔ علم و فن کی دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں یعنی پیش رفت نے ہماری زندگی کا ڈھانچا بدل ڈالا ہے۔ ایسے میں ترجیحات کا بدل جانا بھی ناگزیر امر ہے۔ ایک زمانے سے ہم جن باتوں کے عادی رہے ہیں وہ باتیں اب یکسر بے تعلق سی ہوکر رہ گئی ہیں۔ بہت کچھ ایسا ہے جو ہماری زندگی کا حصہ رہا ہے مگر اب کاٹھ کباڑ کے درجے میں ہے۔
ریاستوں کے مابین تعلقات بھی تبدیلی کی زد میں آئے بغیر نہیں رہتے۔ ریاستوں کو سلامتی و سالمیت کی خاطر بہت سے کٹھن فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ کبھی کبھی شدید نوعیت کی الجھن جھیلتے ہوئے اپنے خلاف بھی جانا پڑتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی عمل ہے جیسے کوئی گرتی ہوئی صحت کو سنبھالا دینے کے لیے کڑوی گولی نگلے۔
پاکستان کے لیے چیلنجز کبھی کم نہیں رہے۔ اب بھی کم نہیں ہیں۔ مغرب کی حاشیہ برداری نے ہمارے لیے صرف الجھنیں پیدا کی ہیں۔ صرف مغرب کو خوش رکھنے کے لیے ہم باقی دنیا کو بہت حد تک نظر انداز کرتے آئے ہیں۔ بنیادی کوشش یہ رہی ہے کہ امریکا بہادر ناراض نہ ہو۔ اور امریکا بہادر نے ہمیں کیا دیا ہے؟ اب تک کا تجربہ تو یہ بتاتا ہے کہ امریکا کی کسی بھی بات کو ماننے کا ہمیں کوئی ایسا معاوضہ یا صلہ نہیں ملا جس پر فخر کیا جاسکے۔ کمزور اول و آخر کمزور ہی ہوتا ہے اور بالآخر اس کے نصیب میں ذلت ہی رہ جاتی ہے۔ ہمارا بھی یہی معاملہ رہا ہے۔ یہ دنیا اسی طور چلتی آئی ہے اور اسی طور چلتی رہے گی۔ چار عشروں کے دوران دنیا بہت بدل گئی ہے۔ ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہوش ربا پیش رفت نے زندگی کے ہر معاملے کو انتہائی نوعیت کا کردیا ہے۔ ریاستیں بھی تبدیلی کے مراحل سے گزر رہی ہیں۔ کئی ممالک طاقت حاصل کرنے کے عمل میں خود کو انتہائی مستحکم بنانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ تین چار عشروں کی محنت شاقّہ رنگ لے آئی ہے۔ ایسی ریاستوں کے لیے پھل کھانے کا وقت آیا ہے۔ جن ریاستوں نے اب تک پوری دنیا کو مٹھی میں دبوچ کر سارے کام اپنی مرضی کے مطابق کے ہیں ان کے لیے خطرے کی گھنٹیاں‘ بلکہ گھنٹے بج چکے ہیں۔ امریکا کی بالا دستی کا یہ عالم تھا کہ لوگوں نے اُس کے کمزور پڑنے کے بارے میں سوچنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ کمزور اور پس ماندہ ممالک میں یہ تصور کرلیا گیا تھا کہ اب امریکا اور یورپ کو صدیوں تک نیچا نہیں دکھایا جاسکے گا۔ لوگ بھول گئے تھے کہ جس نے یہ کائنات خلق کی ہے اُس رب کے اپنے اصول ہیں۔ جو ان اصولوں کی پاسداری کرتا ہے وہ کامیاب رہتا ہے۔ خلاف ورزی اور انکار کی صورت میں آخرِ کار صرف ذلت سے دوچار ہونے کا آپشن رہ جاتا ہے۔ دنیا پر راج کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ یہ سب کچھ ان کا اپنا حاصل کردہ نہیں ہوتا۔ یہ تو اللہ کا نظام ہے کہ دنیا کی امامت کبھی کسی کو ملتی ہے اور کبھی کسی کو۔ جو اللہ کی رضا کے مطابق کام کرے اُس کی امامت کا دورانیہ زیادہ ہوتا ہے۔
امریکا اور یورپ نے کم و بیش چار صدیوں تک دنیا پر حکومت کی ہے۔ ان چار صدیوں کے دوران انہوں نے ایک طرف تو فطری علوم و فنون میں غیر معمولی پیش رفت یقینی بنانے پر توجہ دی اور دوسری طرف سیاست و معیشت کے کار زاروں میں بھرپور کامیابی یقینی بنانے کے لیے ظلم و جبر کا بازار بھی گرم رکھا۔ بالخصوص ایک صدی کے دوران دونوں خطوں نے مل کر باقی دنیا کو اپنا غلام بنائے رکھنے کی خاطر ایسا بہت کچھ کیا ہے جس پر اُن کی رَسّی کھینچی ہی جائے گی۔
کسی بھی طاقت کو شکست سے دوچار کرنے کا حوصلہ کسی کمزور اور پس ماندہ ریاست میں نہیں ہوتا۔ ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ بھی اللہ ہی کے نظام کے تحت ہے کہ جب کوئی ریاست انتہائی طاقتور اور ظالم و جابر ہو جاتی ہے تو اپنے ہی وزن سے ٹوٹ جاتی ہے۔ کسی بھی قوم کو دنیا کی امامت اسی وقت تک میسر رہتی ہے جب تک وہ اپنی طاقت کو مثبت انداز سے بروئے کار لاتے ہوئے اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی ترقی و خوش حالی یقینی بنانے کے بارے میں سوچتی ہے‘ دنیا کو بہتر مقام میں تبدیل کرنے کے حوالے سے متحرک رہتی ہے۔ امریکا اور یورپ نے چار صدیوں سے بھی زائد مدت تک دنیا پر راج کیا ہے مگر اس دوران انہوں نے ان گنت ممالک اور خطوں کو ایک طرف تو شدید پس ماندگی سے دوچار کیا ہے اور دوسری طرف ان کے اخلاقی دیوالیہ پن کی راہ بھی ہموار کی ہے۔ امریکا اور یورپ نے کمزور اقوام کے قدرتی وسائل لوٹنے تک خود کو محدود نہیں رکھا بلکہ رفتہ رفتہ خود بھی خدا سے بیزار ہوتے گئے اور خدا سے بیزاری کا کلچر ہر اس قوم میں بھی پھیلانے کی کوشش کی جو سیاسی‘ معاشی اور سٹریٹجک اعتبار سے ان سے دبتی ہو۔ کمزوروں کا مال لوٹنا بھی قبیح ہے مگر انہیں اخلاقی اعتبار سے بھی کھوکھلا کرنا‘ ان کی ثقافت کو داغ دار کرنا اور ان کا اجتماعی اعتماد ہی مجروح کردینا ... یہ تو انتہا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ امریکا اور یورپ کی رَسّی کھینچی جائے۔
امریکا اور یورپ کو منہ دینے کے لیے چین اور روس میدان میں ہیں۔ ان کی روز افزوں طاقت مغربی طاقتوں کی نیند اڑا دینے کے لیے کافی ہے۔ میدان سج چکا ہے‘کسی نہ کسی طور جاری رہنے والے مناقشے اب باضابطہ جنگ کی شکل اختیار کرنے کے لیے بے تاب دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسے میں ان کی بھی سخت آزمائش ہے جو کسی گنتی میں نہیں۔ انہیں طے کرنا ہے کہ کس کے ساتھ ہی رہنا ہے یا اب کس کے ساتھ چلنا ہے۔ پاکستان جیسے تمام چھوٹے اور کمزور ممالک شدید گو مگو کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ پاکستان کو اپنے محلِ وقوع کا اچھا خاصا ایڈوانٹیج حاصل ہے تاہم یہ ایڈوانٹیج اسی وقت ہمارے لیے کسی کام کا ثابت ہوسکتا ہے جب ہم اس کے تقاضے نبھائیں۔ اس وقت کیفیت یہ ہے کہ ہماری اپنی صفوں میں انتشار پایا جاتا ہے۔ یہ انتشار ہمیں بیرونی محاذ پر زیادہ اچھی کارکردگی کے اظہار کے قابل نہیں ہونے دیتا۔ وقت آگیا ہے کہ آپس کے اختلافات اور چھوٹی موٹی باہمی رنجشیں ختم کرکے علاقائی اور عالمی حالات کے تقاضے نبھانے پر توجہ دی جائے۔ اس کے لیے انتہائی بنیادی امر یہ ہے کہ بڑی طاقتوں کے درمیان جاری محاذ آرائی سے خود کو بچانے کی کوشش کرتے ہوئے معاملات کو متوازن رکھنے پر توجہ دی جائے تاکہ کسی کو بلا جواز طور پر نظر انداز بھی نہ کیا جائے اور ہم کسی کی غیر ضروری حاشیہ برداری کے مرتکب بھی نہ ہوں۔
اس وقت ایک طرف چین اور روس ہیں اور دوسری طرف امریکا اور یورپ۔ ان دونوں گروہوں کے درمیان شدید نوعیت کی محاذ آرائی پائی جارہی ہے۔ معاملہ بہت حد تک سرد جنگ کی سی کیفیت سے دوچار ہے مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسے گرم جنگ میں تبدیل ہوتے زیادہ وقت نہ لگے۔ پاکستان جیسے ممالک کو کسی بھی طرح کی صورتِ حال کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ حالات دن بہ دن بگڑتے ہی جارہے ہیں۔ ایسے میں ہم جیسوں کے لیے معاملہ بہت حد تک وہی ہوگیا ہے جس کے لیے جگرؔ مراد آبادی مرحوم نے کہا تھا ع
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
وقت کا ایک بڑا تقاضا یہ ہے کہ ہم مغرب کی ہر بات کو تسلیم کرنے کے لیے جواب طلب کرنا شروع کریں۔ اس معاملے میں ذاتی‘ انفرادی یا گروہی مفادات کو بالائے طاق رکھنے کی ضرورت ہے۔