تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     09-08-2013

ڈاکٹر امجد ثاقب کا سفر نامہ

آئیے ڈاکٹر امجد ثاقب، اس نادرِ روزگار آدمی کے ساتھ دعا میں شریک ہوں ، اللہ نے جسے درد کی دولت عطا کی ہے ’’پروردگار میرے قلب کو یقین عطاکر ، عمل کو اخلاص، آنکھ کو روشنی دے اور نگاہ کو تابِ سحر عطا فرما‘‘ ؎ بیٹھ جائیں سایۂ دامانِ احمدؐ میں منیرؔ اور پھر سوچیں وہ باتیں جن کو ہونا ہے ابھی 307صفحات پر مشتمل ڈاکٹر صاحب کے سفر نامے ’’اخوت کا سفر‘‘ نے قاری کو حیرت زدہ کر دیا۔ مدتوں کے بعد یہ ایک چونکا دینے والی کتاب ہے ۔ چند اقتباسات یہ ہیں: ’’امیریکن یونیورسٹی کی میری پہلی یاد ایپرل تھی۔ حسن و جمال کا پیکر۔ نام ہی کی طرح خوبصورت۔ کچھ لوگ واقعتاً ایسے ہوتے ہیں، جنہیں دیکھ کے دل دھڑکنا بھول جاتے ہیں۔ مصطفی زیدی نے کہا تھا ؎ کس کو دیکھاہے کہ پندارِ نظر کے باوصف ایک لمحے کے لیے رک گئی دل کی دھڑکن کچھ لوگ خوبصورت ہوتے ہیں ، کچھ بہت خوبصورت۔ جو اس سے بھی ماورا ہوں ، انہیں کیا کہتے ہیں ؟ ایپرل کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا ، جن کے لیے شاعری کی جاتی ہے ۔ شفق ، دھنک، ماہتاب ، گھٹائیں ، تارے ، نغمے ، بجلی ، پھول ، یہ سب ایک پیکرمیں ڈھل جائیں تو شاید اس کے کچھ قریب پہنچ سکیں لیکن پھر بھی نہیں ۔ صبح کی پہلی کرن ، جس کے بعد اجالا ہوتاہے ۔ رات کا ستارا، جس کے بعد چاندنی بکھرتی ہے ؎ پہلے اک شخص میری ذات بنا اور پھر پوری کائنات بنا ایپرل ایک آدمی نہیں، پوری کائنات تھی ۔ پہلے سمسٹر کے دوران میں اسے لائبریری ، کیفے ٹیریا اور سیڑھیوں پر دوستوں میں بیٹھا دیکھتا رہا۔ دوسرا سمسٹر شروع ہوا تو میں نے اس سے پوچھ لیا کہ وہ کون سے کورسز لے رہی ہے ۔ میں اس کلاس میں کبھی لیٹ نہ ہوااور سب سے زیادہ نمبر لیے ۔ یہ تو معمولی باتیں ہیں ۔ اسے متاثرکرنے کے لیے انسان کچھ بھی کر سکتا تھا۔ وہ سمسٹر بہت تیزی سے گزرا ۔ پھول کھلتے ، بکھرتے مرجھاتے رہے ۔ کچھ پتہ ہی نہ چلا اور پھر ایک دن ان خوبصورت لمحوں کے سارے تیر کما ن سے نکل گئے ۔ سمسٹر کا آخری دن آن پہنچا۔ مجھے لگا ، وہ بہار کا آخری دن تھا۔ ایپرل اپنی سیٹ سے اٹھ کر میرے پاس آئی اور کہنے لگی…مجھے حیرت ہے کہ ایک پاکستانی طالبِ علم امریکی تاریخ کے کورس میں سب کو پیچھے چھوڑ گیا۔ اس کی یہ حیرت ہی میرا انعام تھی ۔ لوگ شاید اسی ایک لمحے کے لیے منزلیں سر کرتے ہیں۔ ایپرل کا وہ آخری سمسٹر تھا۔ وہ فلوریڈا واپس چلی گئی اور سارے پھول بھی اس کے ساتھ چلے گئے ۔ فلو ریڈا کو چمکتے ہوئے سورج کی ریاست Sun shine stateکہتے ہیں ۔ مجھے یقین ہے ، وہ سورج اسی کے لیے چمکتا ہوگا ۔ امریکہ کی میری دوسری اہم یاد روزا پارکس تھی ۔ یہ نقش کچھ اور طرح کا تھا۔ مظلوم مگر بہادر ، روزا پارکس نے مجھے بتایا کہ ظلم کے سامنے صف آرا ہونے کے کیا معنی ہیں ۔ یہ نقش بہت گہرا او ردائمی ہے ۔ روزا پارکس امریکہ کی مشہور شخصیات کی فہرست میں بھی شامل ہے ۔ جرأت اور بہادری کا ایک مظہر۔ اس نے ظلم کے سامنے جھکنے سے انکا رکیا تو کیا اسے کیا خبر تھی کہ یہ انکار انسانی حقوق کی تاریخ بدل ڈالے گا؟ یہ دسمبر 1955ء کا واقعہ ہے ۔ امریکی ریاست جارجیا کی رہنے والی اس سیاہ فام عورت کو رنگ اور نسل کی بنیاد پر ہر روز توہین آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑتا ۔ بس کے دو حصے تھے ۔ ایک سفید فام اور ایک سیاہ فاموں کے لیے ۔ ان دونوں کے درمیان ایک لکیر حائل تھی ۔ روزا پارکس چپ چاپ اپنے حصے میں جا کر بیٹھ گئی۔ اس وقت کے قانون کے مطابق مسافروں کی تعداد بڑھ جانے کی صورت میں سیاہ فام کو اپنی نشست چھوڑ کر کھڑا ہوناپڑتا تھا۔ کنڈکٹر کے حکم پر تین سیاہ فاموں کو اپنی جگہ سے اٹھنا پڑا اور ان کی نشستوں پر سفید فام بیٹھ گئے ۔ اگلی باری روزا پارکس کی تھی۔ کنڈکٹر نے اس کی طرف دیکھا لیکن اس نے انکار کر دیا۔ آئے دن کے توہین آمیز سلوک نے اسے دیوانہ بنا دیا تھا۔ اس نے پوچھا ’’کیا میں اپنی نشست کسی اور کو اس لیے دے دوں کہ اس کی رنگت سفید ہے؟‘‘ کنڈکٹر نے روز ا کو بتایا کہ انکار قانون کی نظر میں جرم ہے ۔ وہ گرفتا رہو سکتی ہے۔ ’’میں جیل جانے کے لیے تیار ہوں لیکن ظلم کے روبرو جھکنے سے انکار کرتی ہوں‘‘ پولیس کو بلایا گیا ۔ چند دن کی جیل اور چودہ ڈالر جرمانہ ۔ اس سزا کے بعد امریکہ میں ہرطرف ایک سناٹا سا طاری ہو گیا۔ اسی سناٹے کی کوکھ سے ایک مزاحمت نے جنم لیا جو انسانی برابری کی تحریک کا اہم سنگِ میل بن گئی۔ مارٹن لوتھر کنگ اس تحریک کا روح و رواں تھا۔ یہ تحریک تین سو بیاسی دنوں پہ محیط رہی ۔ اس دوران شہر کا ایک سیاہ فام بھی بس پہ سوار نہ ہوا۔ یہ لوگ نسلی امتیاز کے خاتمے کی تحریک کا ہراول دستہ بن چکے تھے ۔ ایک طویل آئینی جنگ ۔مظاہرے ، مزاحمت ، ہنگامے ۔ کئی صبر آزما مراحل سے گزرنے کے بعد بالآخر یہ جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہوئی ۔ بس کے اندر کھینچی ہوئی لکیر مٹ گئی ۔ اب ایک سیاہ فام اپنی سیٹ چھوڑنے کا پابند نہ تھا۔ ظالمانہ قانون ایک کمزور عورت کی مزاحمت کا مقابلہ نہ کر سکے۔ ’’ظلم اسی وقت تک ظلم ہے، جب تک اسے للکارا نہ جائے‘‘ روزا پارکس نے کہا تھا۔ امریکہ کے بلندترین سول ایوارڈ ز اسے دیے گئے ۔ دودرجن سے زیادہ یونیورسٹیوں نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری پیش کی ۔ اس کی مزاحمت اور اس کے انکار نے کمزوروں کو ایک نیا عزم دے دیا۔ انکا رکا وہ لمحہ اس کی زندگی کا روشن ترین لمحہ تھا۔ ’’یہ صرف روزا کی زندگی کا نہیں، امریکی تاریخ کا بھی روشن لمحہ ہے‘‘ مارٹن لوتھر کنگ نے کہاتھا ۔ ایسا ہی ایک انکار ایک بار پاکستان میں بھی ہوا ۔ اس روز جب ملک کی سب سے بڑی عدالت کے ایک جج نے پرویز مشرف نامی آمر کا حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ میں نے روزا پارکس سے ملنے کی دوبار کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہو سکی… اب وہ اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہے۔ اس کا جسدِ خاکی منوں مٹی تلے پڑا ہے لیکن مٹی میں مل کر بھی وہ مٹی نہیں ہوئی ۔ وہ احتجاج کی ایک لازوال صدا ہے ، جو نسلی امتیاز کے ایوانوں میں ہمیشہ گونجتی رہے گی ۔ کھانا ختم ہوا۔ برتن سمیٹے گئے ۔ سیٹیں پھر سے دراز ہونے لگیں۔ ایپرل، روز اپرکس۔ میں ان کی قید سے آزاد ہوکر ایک بار پھر ’’اخوت‘‘ کی طرف پلٹنے لگا‘‘۔ آئیے ڈاکٹر امجد ثاقب، اس نادرِ روزگار آدمی کے ساتھ دعا میں شریک ہوں ، اللہ نے جسے درد کی دولت عطا کی ہے ’’پروردگار میرے قلب کو یقین عطاکر ، عمل کو اخلاص، آنکھ کو روشنی دے اور نگاہ کو تابِ سحر عطا فرما‘‘ ؎ بیٹھ جائیں سایۂ دامانِ احمدؐ میں منیرؔ اور پھر سوچیں وہ باتیں جن کو ہونا ہے ابھی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved