تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     27-03-2022

سُرخیاں، متن اور ڈاکٹر ابرار احمد

عمران خان تم سیاست نہیں، اللہ کی پکڑ
میں آئے ہوئے ہو: حمزہ شہباز
پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور( ن) لیگ کے اہم رہنما حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''عمران خان تم سیاست نہیں، اللہ کی پکڑ میں آئے ہوئے ہو‘‘ کیونکہ اگر ہم پکڑ میں آ سکتے ہیں تو وہ کیوں نہیں آ سکتے، مگرہماری تو خواہش یہی ہے کہ وہ اس پکڑ سے چھوٹیں یا نہ چھوٹیں ہماری جلد گلو خلاصی ہونی چاہیے،ویسے بھی ایک وقت میں ایک ہی پکڑ ا جا ئے تو اچھا ہے، بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اتنے لوگوں کو ایک ساتھ پکڑنے سے خود پکڑنے والے بھی تنگ ہوں جبکہ خان صاحب ہماری پکڑ میں تو نہیں آ رہے اور ایسا لگتا ہے کہ عدم اعتماد سے بھی صاف نکل جائیں گے کیونکہ منحرف ارکان واپس جا رہے ہیں اورحکومتی اتحادی بھی ہمارے ساتھ نہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
عدم اعتماد کا جو بھی نتیجہ نکلے، کامیاب
ہم ہی ہوں گے: فیاض چوہان
وزیرجیل خانہ جات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''عدم اعتماد کا جو بھی نتیجہ نکلے، کامیاب ہم ہی ہوں گے‘‘ اور یہی وہ ترپ کا پتا ہے جس کا وزیراعظم بار بار ذکر کرتے ہیں اور اگر عدم اعتماد میں ہار بھی گئے تو یہ دنیا میں پہلی مثال ہو گی کہ ہم ہار کربھی فتح یاب ہوجائیں گے، مگر یہ کیسے ممکن ہوگا، اس کا پتا موقع پرہی چلے گا جبکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہماری شکست کے باوجود قومی و ملکی مفاد میں اس کا اعلان ہی نہ کیا جائے، جیسا کہ اگلے روز تحریک عدم اعتماد شروع ہونے سے پہلے ہی اسمبلی اجلاس ملتوی کر دیا گیاتھا اور اس سے بھی پتا چلتا ہے کہ قومی و ملکی مفاد کو کون سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ آپ اگلے روز اپنے حلقہ ٔ انتخاب میں کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
زرداری نے ایک بار پھر سب پر اپنے بھاری
ہونے کا ثبوت دے دیا: حافظ حسین احمد
جمعیت علمائے اسلام کے سینئر رہنما حافظ حسین احمد نے کہا ہے کہ ''زرداری نے ایک بار پھر سب پر اپنے بھاری ہونے کا ثبوت دے دیا‘‘ جس میں ان کی اپنی پارٹی بھی شامل ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کی پارٹی یہ بوجھ کب تک برداشت کرتی ہے کیونکہ ان کے ساتھ ساتھ ان کے کارناموں کا بوجھ بھی ہے جس کا حساب کتاب دینا ابھی باقی ہے اس لئے اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ پارٹی ان کا بوجھ مزید برداشت کر سکے جبکہ دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی ان کے بوجھ تلے پچک کر رہ گئی ہیں کیونکہ وہ اپنا سارا وزن حکومت کے ایک اتحادی کے پلڑے میں ڈالنے پر مصر ہیں جبکہ دوسری ساتھی نہیں مان رہے۔آپ اگلے روز اپنی رہائشگاہ پر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عمران خان کے ٹرمپ کارڈ میں مجھے
استعفیٰ نظر آ رہا ہے: ناصر حسین شاہ
وزیر بلدیات سندھ ناصر حسین شاہ نے کہا ہے کہ ''عمران خان کے ٹرمپ کارڈ میں مجھے استعفیٰ نظر آ رہا ہے‘‘ اور اپنا شک رفع کرنے کیلئے میں اپنی آنکھوں کا معائنہ بھی کروا رہا ہوں کیونکہ کچھ دنوں سے مجھے ایسی چیزیں بھی مسلسل دکھائی دے رہی ہیں جن کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا جبکہ میں نے اپنی تشفی کیلئے منظور وسان صاحب سے بھی رابطہ کیا تھا لیکن انہوں نے بھی مایوس کیا اور کہاکہ میرے علم میں تو کوئی ایسی چیز نظر نہیں آ رہی ورنہ میں خود سب سے پہلے اس کا اعلان کرتا اگرچہ میرے علم کا کاروبار ویسے بھی ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے اور پیشگوئیاں غلط ثابت ہونے کے بعد میں نے یہ کام ویسے ہی چھوڑ دیا ہے۔ آپ حکومتی رہنماکی میڈیا ٹاک پر ردعمل کا اظہار کر رہے تھے۔
وزیراعظم عمران خان کے ساتھ کھڑا ہوں: عامر لیاقت
پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت نے کہا ہے کہ ''میں وزیراعظم عمران خان کے ساتھ کھڑا ہوں‘‘ لیکن آخر انسان ہوں اور جب کھڑے کھڑے تھک جاتا ہوں تو بیٹھ بھی جاتا ہوں جبکہ بیٹھنے سے میرا بیان بھی تبدیل ہو جاتا ہے کیونکہ کھڑے آدمی کا بیان اور ہوتا ہے اور بیٹھے ہوئے کا اور، لیکن بیٹھے بیٹھے تھک جاؤں اور لیٹ جاؤں تو میرا بیان سراسر اور ہو جاتا ہے جبکہ عالمِ خواب میں ہونے کی تو بات ہی کچھ اور ہے لیکن جلدی میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتا ہوں اور دوبارہ عمران خان کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہوں اور اپنے سارے اختلافی بیانات پر خطِ تنسیخ پھیر دیتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ اب کھڑا ہی رہوں کہ اس میں فلاح اور بہتری ہے۔ آپ اگلے روز ٹویٹ پر اپنا بیان جاری کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں ڈاکٹر ابرار احمد کی نظم:
ہمارے دکھوں کا علاج کہاں ہے
اگر ہمارے دکھوں کا علاج
نیند ہے
تو کوئی ہم سے زیادہ گہری نیند نہیں سو سکتا
اور نہ ہی اتنی آسانی اور خوبصورتی سے
کوئی نیند میں چل سکتا ہے
اگر ہمارے دکھوں کا علاج
جاگنا ہے
تو ہم اس قدر جاگ سکتے ہیں
کہ ہر رات ہماری آنکھوں میں آرام کر سکتی ہے
اور ہر دروازہ
ہمارے دل میں کھل سکتا ہے
اگر ہمارے دکھوں کا علاج
ہنسنا ہے
تو ہم اتنا ہنس سکتے ہیں
کہ پرندے، درختوں سے اڑ جائیں
اور پہاڑ ہماری ہنسی کی گونج سے بھر جائیں
ہم اتنا ہنس سکتے ہیں
کہ کوئی مسخرہ یا پاگل
اس کا تصور تک نہیں کر سکتا
اگر ہمارے دکھوں کا علاج
رونا ہے
تو ہمارے پاس اتنے آنسو ہیں
کہ ان میں ساری دنیا کو ڈبویا جا سکتا ہے
جہنم بجھائے جا سکتے ہیں
اور ساری زمین کو پانی دیا جا سکتا ہے
اگر ہمارے دکھوں کا علاج
جینا ہے
تو ہم سے زیادہ با معنی زندگی
کون گزار سکتا ہے
اور کون ایسے سلیقے اور اذیت سے
اس دنیا کو دیکھ سکتا ہے
اگر ہمارے دکھوں کا علاج
بولنا ہے
تو ہم ہوا کی طرح گفتگو کر سکتے ہیں
اور اپنے لفظوں کی خوشبو سے
پھول کھلا سکتے ہیں
اور اگر تم کہتے ہو:
ہمارے دکھوں کا علاج کہیں نہیں ہے
تو ہم چپ رہ سکتے ہیں
قبروں سے بھی زیادہ
آج کا مقطع
میں ایک سانس کی سلوٹ پہ مر مٹا تھا ، ظفر
کہ میرے چاروں طرف ہالۂ ہوا بھی نہ تھا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved