میں ملاقاتوں کی اتنی شوقین نہیں ہوں‘ بس اپنا کام مکمل کیا اس کے بعد میری توجہ گھر‘ مطالعے اور سوشل میڈیا پر بھارتی سازشوں کو بے نقاب کرنے کی طرف ہوتی ہے۔ اکثر دعوت ناموں پر میں معذرت کر لیتی ہوں تاہم کسی بچے کی سالگرہ کا دعوت نامہ میں کبھی رد نہیں کرتی‘ ضرور جاتی ہوں۔ چھوٹا سا سرکل ہے اور اللہ کا شکر ہے ان تمام نعمتوں پر جن کے میں قابل بھی نہیں تھی اور اللہ نے مجھے ان سے نواز دیا۔ آج کل وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ منفی مہم کی زد میں ہیں اور یہ تب سے ہو رہا ہے جب سے وہ خان صاحب کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔ میری ان سے ملاقات تو نہیں لیکن ان کا ذکر ِخیر سنا ہے کہ وہ اولیاء کرام سے خاص عقیدت رکھتی ہیں اور روحانیت کی جانب راغب ہیں۔
جب میں رپورٹنگ کا حصہ تھی تو بہت سی شخصیات سے ملاقاتیں ہوتی تھیں‘ دورانِ رپورٹنگ بہت بار عمران خان صاحب کا انٹرویو کیا۔ اس وقت تحریک انصاف اتنی بڑی جماعت نہیں ہوتی تھی۔ میں اسمبلی کور کرتی تھی‘ اگر وقت ہوتا تو ایمبیسی روڈ پر کوریج کے لیے جاتی ورنہ کیمرہ مین کو بھیج کر فوٹیج منگوا لیتی۔ عمران خان سادہ سے لباس میں بہت پراعتماد طریقے سے اپنے سیاسی عزائم کے بارے میں بتایا کرتے تھے۔ وہ اُس وقت سنگل تھے‘ کچھ عرصے بعد ان کی شادی ریحام رمضان سے ہوئی۔ میں چونکہ فوٹو گرافی کرتی ہوں اور سلیبرٹی لائف سٹائل پر بھی کبھی کبھی لکھتی ہوں تو میں نے جب شادی کی تصاویر دیکھیں تو اسی وقت کہا کہ خان صاحب خوش نہیں لگ رہے۔ وہ ٹھیک طرح مسکرا نہیں رہے تھے اور ہر تصویر میں کچھ کھنچے کھنچے تھے۔ میں نے یہ بات لکھ بھی دی‘ ان کے سپورٹرز نے مجھے برا بھلا کہا۔ میں نے بھی سوچا کہ میں نے اتنا تلخ جملہ کیوں بول دیا لیکن یہی سچ تھا۔ تصاویر میں ریحام تو بہت خوش لگ رہی تھیں لیکن عمران خان بہت بے چین لگ رہے تھے۔ پھر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا‘ چند ماہ بعد شادی ٹوٹ گئی جو کہ افسوسناک تھا۔ کس کا گھر ٹوٹنا افسوسناک ہوتا ہے۔ دونوں کی جوڑی اچھی بنی تھی لیکن ریحام کے عزائم گھر گرہستی سے زیادہ سیاسی تھے۔ وہ شہرت‘ طاقت اور پیسے کی متلاشی تھیں۔ ہر مرد کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی بیوی پہلے گھر اور اس پر توجہ دے لیکن ریحام کے عزائم جلد ہی پارٹی میں جگہ بنانے کے تھے۔ شادی ٹوٹ گئی‘ عمران خان نے ان کے خلاف آج تک ایک لفظ نہیں بولا لیکن وہ دن رات عمران خان کی برائیاں کرتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کا دال دلیہ ہی اسی پر ہے۔ طلاق کے بعد ایک دوسرے کو عزت سے چھوڑ دینا چاہیے‘ تاہم وہ تو شاید آج تک بنی گالہ کے حصار سے نہیں نکل پائیں۔
عمران خان بشریٰ بی بی کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔ اس وقت بھی بعض حلقوں نے ان کی شادی کو متنازع بنانے کی کوشش کی۔ ان کے اور عمران خان صاحب کے بارے میں غلط خبریں چلائی گئیں اور کئی طرح کے تنازعات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی‘ تاہم دونوں میاں بیوی چپ رہے۔ خاتونِ اول مکمل پردہ کرتی ہیں اور ان کا روحانیت سے بھی تعلق ہے۔ جب سے عمران خان وزیر اعظم بنے ہیں میری ان سے یا ان کی اہلیہ سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی کیونکہ اب میں رپورٹنگ کا حصہ نہیں تو میں ملاقاتوں سے گریز کرتی ہوں۔ میرا یہ ماننا ہے کہ جس کی بیٹ ہے وہی کور کرے؛ تاہم خاتونِ اول کے بارے میں سنا ہے کہ وہ صوم و صلوٰۃ کی پابند ہونے کے ساتھ ساتھ ہوم میکر بھی ہیں۔ یہ نظر بھی آتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اس شادی کے بعد سے خوش اور مطمئن نظر آتے ہیں۔
اگر گھر میں سب ٹھیک ہو تو انسان کے چہرے سے چھلکتا ہے اور نہ ہو تو زمانہ شناس اس کو بھی پڑھ لیتے ہیں۔ جناب وزیر اعظم کو یہ شادی راس آئی ہے اور مجھے اچھا لگتا ہے کہ دونوں خوش ہیں۔ اس شادی سے بہت سے فرسودہ رواج بھی ٹوٹ گئے۔ جیسے بڑی عمر میں شادی کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ جیسے طلاق کے بعد دوبارہ شادی کو معیوب سمجھا جاتا ہے اور بچوں کی موجودگی میں دوبارہ شادی کو بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس شادی سے اور بہت سے لوگوں میں ہمت آئی ہو گی کہ وہ بھی سنتِ رسولﷺ کو پورا کرتے ہوئے نکاح کریں۔
اسلام بیوگی‘ طلاق اور بڑی عمر میں شادی کی اجازت دیتا ہے۔ اسوہ ٔحسنہ اور صحابہ کرامؓ کی زندگی سے بھی ہمیں مثالیں ملتی ہیں۔ تاہم پاکستانی معاشرے میں بیوگی اور طلاق کے بعد شادی کو معیوب سمجھا جاتا ہے اور معاشرے کا بس چلے تو بچوں والوں پر پابندی ہی لگا دیں کہ دوبارہ شادی مت کرنا۔ اب جب وہ دونوں خوشحال زندگی گزار رہے ہیں تو اس میں مخالفین یا ان کے ہم پیالہ ہم نوالہ صحافتی ونگ کو کیا مسائل ہیں؟ کسی کی بھی نجی زندگی میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے‘ تاہم ہماری تو سیاست کا چلن ہی یہ ہے کہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالو اور ایک دوسرے کی خواتین کی کردار کشی کرو۔
ایک نامی گرامی صحافی نے خاتون اول کے خلاف ویڈیو اپنے یوٹیوب چینل پر اپ لوڈ کی تو مجھے رنج ہوا کہ ہٹس اور لائکس کی ہوس لوگوں سے کیا کیا کروا رہی ہے۔ اب ان سب کی کوشش ہے کہ وزیر اعظم کی نجی زندگی کو متنازع کیا جائے۔ ان کی اہلیہ پبلک لائف میں نہیں ہیں۔ نہ وہ سرکاری تقریبات میں آتی ہیں اور نہ ہی وہ وزیر اعظم کے ساتھ دوروں پر ہوتی ہیں۔ ان کے یتیم خانوں کے وزٹس کے علاوہ انہیں بہت کم ہی تقریبات میں دیکھا گیا ہے۔ اب اپوزیشن اور ان کا صحافتی ونگ اور ان کے دوست بار بار ان پر عجیب و غریب قسم کے الزامات لگا رہے ہیں اور کئی سیاست دان اس گندے کھیل کا حصہ بن رہے ہیں۔ یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ کسی پردہ نشین خاتون پر بہتان تراشی کی جائے۔ روحانیت اور تصوف ایک بہت گہرا علم ہے۔ بہت کم لوگوں کو یہ معرفت ملتی ہے‘ لہٰذا ان کو جادوگر کہہ کر ان کی توہین نہیں کی جانی چاہیے۔ اگر کوئی انسان اپنے گھر والوں پر آیت الکرسی پڑھ کر پھونک رہا ہے یا ردِ بلا کے دوسرے اقدامات کر رہا ہے اس میں قابلِ اعتراض کیا ہے؟ کیا دوسری کئی شخصیات روحانیات پر یقین نہیں رکھتی تھیں۔ بے نظیر شہید نے ہاتھوں پر دھاگہ باندھا ہوتا تھا۔ اس سے کچھ سیاست دانوں کو یا دوسرے لوگوں کیا مسئلہ ہے؟ کبھی ان کے پردے کا مذاق اڑاتے ہیں‘ کبھی ان کی روحانیت پر بہتان تراشی کرتے ہیں‘ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔
کہتے ہیں کہ سیاست کا دل نہیں ہوتا لیکن سیاست دانوں کے پاس ضمیر تو ہوتا ہے‘ تو سیاست کریں ایک دوسرے کے گھروں میں مداخلت مت کریں۔ کون کس سے شادی کر رہا ہے‘ کسی عمر میں شادی کر رہا ہے‘ کس مکتب فکر سے ہے ‘ کسی کو اس سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے۔ سیاست دانوں کو ان معاملات کے بجائے عوام کی خدمت پر فوکس کرنا چاہیے۔ ایک پارٹی کے کچھ ارکان تنظیم سازی میں ملوث پائے گئے وہ اپنی لیڈر کے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں‘ انہیں تو پارٹی سے نہیں نکالا گیا۔ جب ان ویڈیوز سے (ن) لیگ کو کوئی فرق نہیں پڑا تو خاتونِ اول کے پردے اور روحانیت سے کیا چڑ اور کسی کو کیا تکلیف ہے؟ ایک دوسرے کے مذہبی عقائد کا احترام کریں اور ایک دوسرے کی نجی زندگی میں دخل مت دیں۔ سیاست کریں عوام کے لیے اور خواتین کی عزت کرنا سیکھیں۔ اس سے جمہوریت کوکافی افاقہ ہو گا۔