تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     27-03-2022

قسم ہے جو ہاتھ بھی لگایا ہو

کوئی دو دہائی قبل کی بات ہے کہ ایک پٹواری یاویلج ریونیو افسر کہہ لیں‘ سے واسطہ پڑا۔ اپنے قطعہ زمین کی فرد کے لیے تحصیل آفس جانا ہوا تو پہلے تو پٹواری صاحب نے ہم سے سیدھے منہ بات کرنے سے ہی انکار کر دیا اور جب ان کے منشی سے منت سماجت کرتے ہوئے بات کی تو اس نے پٹواری جی کے کان میں نہ جانے کیا پھونکا جس کے چند لمحوں بعد ہی پٹواری صاحب رام ہو گئے اور ان کی جانب سے ہمیں بتایا گیاکہ اس کام کے لیے آپ کو دس ہزار روپے نذرانہ دینا پڑے گا ۔ہم اپنی ملازمت سے ایک دن کی رخصت لے کر پٹواری صاحب کے پاس پہنچے تھے‘ پہلے تو کچھ ایمانداری کا خیال دامن گیرہوا لیکن جب دال گلتی معلوم نہ ہوئی تو دس ہزار روپے نقد نصف جن کے پانچ ہزار بنتے ہیں پٹواری صاحب کے حکم کی تعمیل میں ان کے کمرے میں بچھائی گئی دری کے نیچے رکھنے پرمجبور ہو گئے۔ دس پندرہ منٹ بعد مطلوبہ فرد ہمارے ہاتھ میں تھی جبکہ دس ہزار روپے دری کے نیچے پڑے ہوئے تھے۔
ابھی ہم تحصیل کے دفتر کی حدودمیں ہی تھے کہ نہ جانے کہاں سے ہمارے سہالہ ٹریننگ سینٹر کے ایک کورس میٹ سامنے سے آتے دکھائی دیے۔ ایک دوسرے کو دیکھتے ہی خوشی اور مسرت سے لپکتے ہوئے ایک دوسرے سے بغلگیر ہو گئے۔ چند سیکنڈ بعد پتہ چلا کہ میرے دوست اسی تحصیل میں ایس ڈی پی او یعنی ڈی ایس پی تعینات ہیں۔ میری یہاں موجودگی کا پوچھا تو اپنی غمگین کہانی انہیں سنا ئی جسے سنتے ہی ڈی ایس پی صاحب کا پارہ چڑھ گیا اور اپنے ماتحت کو حکم دیا کہ پٹواری کو لے کر فوراً ان کے دفتر پہنچے۔ ان کے کمرے میں بیٹھے اپنی یادیں تازہ کر رہے تھے کہ سب انسپکٹر اس پٹواری کو لئے پہنچ گیا‘ اس نے جب مجھے وہاں بیٹھے دیکھا تو اس کا تو رنگ فق ہو گیا‘ لیکن پھر کمال کی اداکاری کرتے ہوئے میرے دوست اور مجھے سلام کرنے لگ پڑا۔ میرے دوست نے میری جانب اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کہ انہیں جانتے ہو۔ اس نے ایسے ظاہر کیا جیسے مجھے کبھی دیکھا ہی نہ ہو۔ جب اس سے فرد کے لیے دس ہزار روپے کی رشوت کا پوچھا تو اس نے کہا: سر جی میں قسم اٹھانے کے لیے تیار ہوں اگر میں نے ان سے ایک روپیہ تک پکڑا ہو ۔ یہ قصہ مجھے تحریک انصاف کے منحرف اراکین کے میڈیا پر دیے گئے بیانات سن کر یاد آگیا ہے جو برابر کہے چلے جاتے ہیں کہ ہم قسم اٹھاتے ہیں کہ اگر ایک روپیہ بھی لیا ہو۔
صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان گواہ ہیں کہ راقم نے لاہور کے گورنر ہائوس میں وزیر اعظم عمران خان کوبہت پہلے بتا دیا تھا کہ خواتین کے لیے مخصوص نشستوں پر منتخب ایک رکن قومی اسمبلی کی وفا داری خریدنے کے لیے ان کے فلاں رشتہ دار نے ڈیل کر لی ہے‘ اب لطف کی بات دیکھئے کہ وہ خاتون بھی کہے جا رہی ہیں کہ مجھے قسم ہے جو میں نے ایک روپیہ بھی لیا ہو ‘میں نے تو اپنے ضمیر کے کہنے پر سندھ ہائوس میں ٹھہرنے کا فیصلہ کیا ہے۔جہاں عمران خان کے ناقد ین منحرفین کے بارے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ یہ تو بہت نیک لوگ ہیں‘ مگر ضمیر کا سودا کہہ لیں یا ضمیر کی بیداری یہ تو وقت جلد ہی بتا دے گا‘ لیکن سنا ہے کہ سندھ ہائوس میں نہ جانے کہاں سے چوہے داخل ہو گئے ہیں جنہوں نے انتہائی احتیاط سے رکھی گئی کچھ قیمتی دستاویزات کو کتر کر رکھ دیا ہے۔ ایک خبر کے مطابق کچھ ٹھکانوں میں جہاں لوگوں کو چھپا کر رکھے جانے کی بات کی جا رہی ہے وہاں ان بے خوف چوہوں کی بھر مار ہو گئی ہے اور ان چوہوں کی وجہ سے ان سیف ہائوسز میں متعدد فائلیں اور سرکاری ریکارڈ بھی ضائع ہونے کے خدشات ہیں۔
میڈیا کے کچھ حلقوں کی جانب سے یہ خبر یں بھی دی جا رہی ہیں کہ مختلف لیڈرز کے دفاتر اور ان کے فارم ہائوسز کے علا وہ ان کو سرکار کی جانب سے الاٹ کی گئی رہائش گاہوں میں بنائی گئی کپڑوں کی الماریوں اور جوتوں کے ڈبوں میں بھی چوہوں نے اپنے ٹھکانے بنا لئے ہیں اور دیکھا جا رہا ہے کہ چوہے اب بغیر کسی خوف کے ہر جگہ دندناتے پھرتے ہیں بلکہ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے اس سمندر میں وہ غوطے لگاتے ہوئے کبھی ادھر تو کبھی ادھر بھاگتے پھرتے ہیں۔ ایک خبر رساں ایجنسی کے مطابق بعض ارکان کے کمروں میں انتہائی احتیاط سے رکھے گئے اعلیٰ قسم کے بیگز میں رکھے گئے کچھ خاص نسخے بھی ان چوہوں نے خراب کر دیے ہیں۔ یہاں پر مجھے اس خبر رساں ایجنسی سے تھوڑا سا اختلاف ہے کہ اس نے بریف کیس کے بجائے بھاری بیگز کا لفظ کیوں استعمال کیا ہے کہ بریف کیسز کے بجائے ان اہم ترین بیگز کو چوہوں نے کتر دیا ہے حالانکہ چوہوں کی مرغوب اور کھانے کے لیے پرکشش اشیا تو نہ بریف کیس میں ہو سکتی ہے اور نہ سوٹ کیس میں بلکہ یہ اشیا تو فریج یاڈیپ فریزرز میں ہوتی ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ ارکانِ اسمبلی کے کمروں اور بڑی بڑی گاڑیوں کے کونوں کھدروں میں دبکے اور چھپے ہوئے چوہوں نے ہی اس ملک کا بیڑہ غرق کیا ہوا ہے ۔ انہی کی وجہ سے یہ پاک دھرتی طاعون زدہ ہو چکی ہے۔ کاش کوئی ایسا قانون بن جائے کہ اپنا ضمیر‘ اپنا ووٹ اور اپنا جسم بیچنے والوں کو ایک ہی لفظ سے لکھا اورپکارا جانے لگے اوریہ الفاظ اس طرح لکھے جائیں کہ اس ملک میں کسی کو دوبارہ ووٹ بیچنے اور خریدنے کی ہمت نہ ہو۔ چوہے اس ملک میں بے خوفی سے دندناتے ہوئے اس ملک کا قیمتی وقت تو چاٹتے ہی ہیں ساتھ ہی اس ملک کی تقدیر سے جڑی فائلیں بھی کترتے جاتے ہیں۔ سات دہائیوں سے ضمیر کے سودے کرتے ہوئے اس ملک کو کھانے کے بعد کہا گیا ہے کہ یہ چوہے کوئی نیلے‘ سرخ یابرائون رنگ کے قیمتی کاغذوں کو نہیں کھاتے بلکہ وہ تو صرف اسمبلیوں کے کیفے ٹیریا زمیں رکھے گئے کیک‘ بسکٹ‘ کباب اور پیسٹریاں کھاتے ہیں۔ خبر کے اس حصے میں بھی چونکا دینے والی کوئی نئی بات نہیں کیونکہ اسمبلی کے کیفے ٹیریاز کے چوہے کسی چیز کو مکمل ہڑپ نہیں کرتے بلکہ اس کا کچھ حصہ ہی کتر تے ہیں اور باقی کا حصہ چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ اگر وہ سب کچھ چٹ کر جائیں تو پھر چوہے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کا رہنا مشکل ہو جائے گا ۔
ہماری قوم میں چوہوں اور چوروں کی چونکہ ہر طرف بہتات ہو گئی ہے اور یہ ہر سائز اور شکل میں پائے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قانون سازی کے نام پراسمبلیوں میں موجود ذمہ دارا فسران چوہوں کی موجود گی پر کوئی توجہ نہیں دے رہے۔ شایدوہ اس وجہ سے کوئی کارروائی کرنے سے گریز کر رہے ہیں کہ اگر ان سے پوچھا گیا کہ یہ چوہے اس قدر آزاد اور بے خوف کیوں ہو گئے ہیں؟کیا انہیں کسی بڑی طاقت کی مدد اور سرپرستی حاصل ہے؟ کبھی چھانگا مانگا‘ کبھی مری تو کبھی مالم جبہ اور سوات میں پنجروں اور اڑن کٹھولوں میں لاد لاد کر پہنچائے گئے چوہے اس ملک کا مکھن‘ گوشت اور روٹیاں کھا کھا کر اس قدر موٹے تازے ہو گئے ہیں کہ انہیں کسی کا ڈر ہی نہیں رہا۔ اگر انہیں پکڑ لیا جائے تو لگتا ہے کہ یہ بھی کہہ اٹھیں گے کہ قسم لے لیں اگر سرکار کے مال کو ہاتھ بھی لگایا ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved